داغ کچھ آپ کو بھی قدر ہماری وفا کی ہے۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
کچھ آپ کو بھی قدر ہماری وفا کی ہے
ہم آپ کے ہیں ساری خدائی خدا کی ہے

دھمکی ہمارے واسطے روزِ جزا کی ہے
کوئی نہ کوئی اس میں بھی حکمت خدا کی ہے

حیرت سے دیکھتا ہوں جو میں سوئے آسماں
کہتے ہیں وہ تلاش کسی مہ لقا کی ہے

ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں
یہ شرم ہے غضب کی وہ شوخی بلا کی ہے

بعدِ فنا بھی چین نہیں مشتِ خاک کو
گویا بنی ہوئی مری مٹی ہوا کی ہے

کوئی یقین کیوں نہ کرے اُن کے قول کا
ہر بات میں قسم ہے، قسم بھی خدا کی ہے

اے پیرِ مے کدہ نہیں نشہ شراب میں
کھینچی ہوئی مگر یہ کسی پارسا کی ہے

جب تک ہے دم میں دم یہ نباہیں گے ہر طرح
مٹی خراب عشق میں اہلِ وفا کی ہے

دیکھو نگاہِ ناز کی بے اعتدالیاں
اٹکی ہوئی غرض جو کسی مبتلا کی ہے

وہ وقتِ نزع دیکھ کے مجھ کو یہ کہہ گئے
اچھا ہے یہ تو، کیا اسے حاجت دوا کی ہے

اُس نے نظر چرائی جو ہم سے تو کیا ہوا؟
وہ کیوں ڈرے یہ کیا کوئی چوری خدا کی ہے؟

شوخی سمائی جاتی ہے عہدِ شباب میں
دشوار روک تھام اب ان کو وفا کی ہے

کرتا یہ کارخانۂ دنیا میں کچھ کا کچھ
انسان کو پڑی ہوئی روزِ جزا کی ہے

ایسا نہ ہو کہ اس کی سیاہی کا ہو شریک
بختِ رسا کو حرص تو زلفِ دوتا کی ہے

ظاہر میں اور رنگ ہے باطن میں اور رنگ
خصلت مزاجِ یار میں برگِ حنا کی ہے

دو حصے میری جان کے ہیں تیرے عشق میں
آدھی ادا کی نذر ہے، آدھی قضا کی ہے

مرتا ہوں اور روز ہے مرنے کی آرزو
اس عاشقی میں روح بھی عاشق قضا کی ہے

دل پیچ و تابِ عشق سے کیوں کر نکل سکے
یہ گل چھڑی پڑی ہوئی زلفِ دوتا کی ہے

یہ دیکھتے ہی دیکھتے کس کس سے پھر گئی
گردش نصیب آنکھ بھی تیری بلا کی ہے

اے داغ بزمِ اہلِ سخن گرم ہو گئی
گرمی ترے کلام میں بھی انتہا کی ہے
۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top