کچه ہو گئی ہے راہ اب آسان جائیے

کچه ہو گئی ہے راہ اب آسان جائیے
سنتے ہیں تهم گیا ہے وہ طوفان جائیے

تبدیلیء مقام سے ملتی ہے تازگی
اہلِ چمن بهی دشت و بیابان جائیے

اس حسنِ ظاہری پہ تکبر نہ کیجیے
رہتا نہیں ہے کچه بهی یہاں جان جائیے

رکهتا نہیں ہے تاب تقاضے کی یہ دماغ
جوں ہی نظر وہ آئیں دل و جان جائیے

اس سنگدل پہ ہو نہیں سکتا کوئی اثر
فریاد لے کے پهر بهی اے نادان جائیے

چونکہ اب اس سرابِ بیابانِ وہم سے
اجزا بهی ہوگئے ہیں پریشان جائیے

نقش و نگارِ دہر ہے ریحان سب فریب
ایسے حسیں فریب پہ قربان جائیے
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! بھائی اچھی غزل ہے !

’’ نقش و نگارِ دہر ہے ریحان سب فریب ‘‘ ۔ کیا اس مصرع میں ہے کے بجائے ہیں نہیں ہونا چاہیئے؟! شایدٹا ئپو ہے ۔
 
Top