کُڑی نے غصّے سے یہ بولا ، وَٹّ اِز کِیتا تُو

جعفر بشیر

محفلین
اِک دن اُس نے پیچھے جا کر زور سے کِیتا ہُو
کُڑی نے غصّے سے یہ بولا ، وَٹّ اِز کِیتا تُو
صُبح سویرے اِک دن گھر میں بھولی دینے آ ئی
خُوشی سے بولی یُو نو اَڑیا مَجھ گئی ہے سُو

مُنڈا بولا آ جا سِٹ ڈاؤن ہو جا سَیکل تے
پَیر سے کَڈیا ، کِھچ کے مارا ، اُس کو اپنا شُو

آخر ہمت کر کے اُس نے آکھا آئی لَوّیُو
بولی ، جا وے تیرا دُرّ فِٹے مُنہ آئی لَوّیُوتُھو
عشق کا چَڑھیا بُھوت وی لوکو ہوتا ہے پَہیڑا
کھلو کے اُسکی راہ میں دُھپّے لگ گئی اُس کو لُو
ہونے والے سالوں سے کُٹ پڑی ہے جب سے
کُڑی ویکھن کو نئیں کر دی اب تو اُس کی رُو

کُڑی کا ابا بولا بہن کے ویاہ پہ ہَتھ وَٹآ
ڈُبّ مرنے کو لَبّ رہا تھا سُن کے وہ کوئی کُھو
جعفر بشیر جعفرؔ
 
Top