کوچنگ سینٹرز: اندھی کمائی کا ذریعہ

سید ذیشان احمد

کوئی سرکاری ادارہ کوئی ریگولیٹری باڈی موجود نہیں جو جھاڑیوں کی طرح ہر گلی میں اگتے ان سینٹروں پر نظر رکھے —
ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں کوچنگ سینٹرز بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میں نے اپنی تعلیمی زندگی میں جیسے جیسے قدم بڑھائے، مجھ پر یہ بات واضح ہوتی گئی کہ یہ سینٹر بالکل اسکولوں اور کالجوں کی طرح ہی اہم ہیں۔ اور تب ہی یہ حقیقت بھی کھلنے لگی کہ ایسے تمام سینٹر بالکل ایک ہی طرح سے تعلیم بیچنے کا کام کرتے ہیں۔
اگر تمام نہیں تو زیادہ تر ٹیوشن سینٹر ایک مشین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اور ایک مشین ہی کی طرح یہ روح سے عاری ہوتے ہیں۔ مشہور ترین سینٹروں کی فیسیں بھی آسمان سے باتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ویسے تو کوچنگ سینٹرز اپنے اشتہاروں میں اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ان کا تمام تر فوکس بچوں میں سیکھنے کی قابلیت بڑھانے پر ہے، تعلیم پر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک چالان فارم پر ایک بھاری بھرکم فیس بھی لکھ دی جاتی ہے۔ تو وعدوں کی وہ لمبی لسٹ آخر کہاں جاتی ہے۔
پاکستان کے مروجہ تعلیمی نظام میں سارا زور کتابوں کو رٹنے پر دیا جاتا ہے، جبکہ اس کو سمجھنے سمجھانے کی طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اور اس بیماری سے ٹیوشن سینٹر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بھلے ہی یہ سینٹر کچھ بھی دعوے کریں، لیکن یہاں بھی وہی رٹافکیشن رائج ہے۔ ریڈی میڈ نوٹ سب سے اہم اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔ اساتذہ یہ نوٹس بناتے ہیں، اور مینیجمنٹ کو یا براہ راست شاگردوں کو مناسب قیمت پر دے دیتے ہیں۔
شاگردوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ انہی نوٹس کو یاد کریں، اور انہی کی مدد سے امتحانات میں جوابات لکھ کر آئیں۔ اکثر اساتذہ کئی کئی سینٹروں میں پڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کلاس ختم ہونے کے بعد ایک منٹ کے لیے بھی شاگردوں کی رہنمائی کے لیے نہیں ٹھہر پاتے۔
اس پورے نظام کی ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی موجود ہیں، جنہیں پڑھانے کا تجربہ یا تو سرے سے ہے ہی نہیں، یا وہ اس کام میں مہارت نہیں رکھتے۔ حال ہی میں مجھے ایک نوجوان ٹیچر کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سارا دن مختلف کوچنگ سینٹروں میں پڑھاتے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں سے کچھ نے مجھ سے کہا کہ وہ شاگردوں کو مجبور کرتے ہیں کہ مینیجمنٹ کو ان کی شکایت نہ لگائیں، بھلے ہی انہوں نے کورس مکمل نہ کرایا ہو۔
میرے ایک سابق استاد ایک مشہور کوچنگ سینٹر چلاتے ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ بورڈ کے امتحان والے دن وہ اپنے لوگوں کو نقل کا مواد دے کر امتحانی مراکز بھیجتے ہیں تاکہ ان کے شاگردوں کو نقل کرائی جاسکے۔ مجھے اس بات سے صدمہ پہنچا، اس لیے نہیں کہ میں نے ایسا کچھ پہلے نہیں سنا تھا۔ بلکہ اس لیے کہ وہ جب بھی پڑھانے کھڑے ہوتے، تو ہمیشہ ایمانداری اور اخلاقیات کو لیکچر کا حصہ ضرور بناتے۔
انہی کے سینٹر کی جانب سے امتحان والے دن سینٹر کے شاگردوں کو موبائل فون پر ٹیکسٹ میسجنگ کے ذریعے بھی نقل کرائی جاتی ہے۔ اس سب سے نہ صرف کوچنگ سینٹر کا اشتہار کردہ مقصد فوت ہوجاتا ہے، بلکہ یہ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کی جڑوں میں موجود چیٹنگ کلچر کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔
کوچنگ سینٹر، خاص طور پر میٹرک اور انٹر کی ٹیوشن فراہم کرنے والے سینٹروں کا کاروبار اب انتہائی نفع بخش اور دولت بنانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام پہلے ہی تباہی کا شکار ہے، اور یہ سینٹر اس تباہی سے ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ظاہر ہے ہر معاملے کی طرح یہاں بھی کچھ اچھی مثالیں موجود ہیں، کچھ سینٹر ہیں جو ایمانداری سے اپنا کام کررہے ہیں، لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سسٹم کس طرح کام کر رہا ہے۔ جس شخص کا دل چاہے وہ کوچنگ سینٹر کھول لینے، یہاں تک کہ پڑھانے کے لیے بھی آزاد ہے۔ اس معاملے میں کوئی سرکاری ادارہ کوئی ریگولیٹری باڈی موجود نہیں جو جھاڑیوں کی طرح ہر گلی میں اگتے ان سینٹروں پر نظر رکھے۔
بجائے اس کے کہ طلباء کو خود جوابات ڈھونڈنے اور سمجھنے کے لیے کہا جائے، یہ سینٹر بھی وہی روٹین اپنائے ہوئے ہیں جو کہ ہمارے تعلیمی نظام کا خاصہ ہے۔ اس محنت سے بچنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ یار ٹائم کس کے پاس ہے یہ سب کرنے کے لیے، بس پیپر ہی تو پاس کرنا ہے۔
کوچنگ سینٹر کافی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ یہ بچوں کو رٹے تک محدود رکھنے کے بجائے اسے سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کے راستے پر لاسکتے ہیں۔ بچوں کو تیار شدہ نوٹس تھما دینے کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ اساتذہ یہ کہیں کہ وہ ان کی مدد کے لیے موجود ہیں، لیکن محنت انہیں خود کرنا ہوگی۔ سینٹروں کو اس معاملے میں بالکل عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسا ہونا شاید ناممکن ہے، لیکن ہونا ایسا ہی چاہیے۔
ایک اچھا کوچنگ سینٹر وہ کام کرسکتا ہے، جو اسکول اور کالج نہیں کرپاتے، یعنی بچوں میں سیکھنے کی قابلیت بڑھانا۔ لیکن رویوں میں تبدیلی آخر کب آئے گی؟
 

عثمان

محفلین
جب میں میٹرک میں تھا تو ٹیچرز باقاعدہ بچوں کو ڈنڈے کے زور پر مجبور کرتے تھے کہ وہ ان سے ٹیوشن پڑھیں۔
ٹیوشن نہ پڑھنے کی صورت میں ٹیچرز کی طرف سے بچوں کو روزانہ مار پیٹ اور ہراساں کرنا معمول تھا۔
چار پانچ سو روپے ماہانہ فیس تھی غالباً۔۔
نوے کی دہائی کی بات ہے۔ اب تو اس شعبہ میں کافی "ترقی" ہوچکی ہوگی۔
 

الف عین

لائبریرین
میں تو آج کل کے تعلیمی اداروں کو ٹیچنگ شاپس کہتا ہوں۔ لد گئے وہ زمانے جو خدمت خلق کی نیت سے سکول کھولے جاتے تھے!!
 
Top