وہاب اعجاز خان
محفلین
کولرج
کولرج کی اہم ترین تنقیدی کتاب عملی تنقید کی بہترین مثال ہے ۔ اس میں کولرج نے ورڈزورتھ کی نظموں پر تنقید،نظریات اور ادبی جمالیات پر بحث کی ہے اورنئے تنقیدی نظام کے واضح اشارے پیش کئے ہیں۔ کولرج نے اس کتاب میں ادبی شاہکار وں کا جائزہ لیا ۔ اور اپنی تنقیدی آراءپیش کیں ہیں۔ تنقید کی یہ کتاب ایک قابلِ قدر شاہکار ہے۔ مگر ناقدین نے اس کتاب میں بھی انہی خامیوں کی نشاندھی کی ہے۔ جو کولرج کی طبیعت اور شاعری کا حصہ تھیں۔ یعنی موضوع کی مرکزیت کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ بے تکان جملے بکھرے پڑے ہیں۔ ایک مغربی نقاد بائیو گرافیہ کے بارے میں لکھتا ہے۔
”یہ انگریزی میں عظیم ترین تنقیدی کتاب ہے اور دنیا کی زبانوں میں سب سے زیادہ پریشان کن کتاب ہے۔“
کولرج نے خود اسے بے ڈھنگے متفرقات کا مجموعہ کہا ہے۔ کولرج نے اپنے تنقیدی نظریات کی بنیاد انسانی نفسیات پر رکھی ہے۔ وہ خالق کو سامنے رکھ کر تخلیق تک رسائی حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ یہی نظامِ فکر ہے جس نے کولرج کو تنقید کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت دلا دی ہے۔ کولرج نے پہلے اپنی کتاب کا نام آٹو بائیو گرافیہ رکھا اور بعد میں صرف بائیو گرفیہ کے نام سے یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ مئی 1751ءمیں کولرج نے ورڈزورتھ کو لکھا کہ وہ اپنی نظموں پر ایک مقدمہ لکھ رہا ہے۔ اور ورڈزورتھ کی کچھ نظموں کا جائزہ بھی لے گا۔ دو ماہ بعد اس نے لکھا کہ اس نے مقدمے کو بڑھا کر ایک خود نوشت ادبی سوانح بنا رہا ہے۔ اس میں اس کی ادبی زندگی اور نظریات ہوں گے۔ پھر اس نے ادب کے موضوع کو بالکل چھوڑ کر جدید فلسفے اور نفسیات پر بات شروع کی اور اس طرح ایک بھر پور مقالے کی شکل اختیار کرتے ہوئے یہ کتاب اختتام کو پہنچی ۔
ادب اور دیگر موضوعات مختلف نظریات اور مباحث اس کتاب کا حصہ ہیں۔ ان مباحث پر جرمن فلسفیوں کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ جرمن فلسفیوں نے انسان اور فطرت کے متعلق تصورات قائم کئے۔ شاعری کیا ہے؟ شاعر کی فطرت میں کیا خصوصیات لازمی ہیں؟ اسلوب اور روایت کا کیا کردار ہے ؟ یہ سب سوالات جرمن فلسفیوں نے اُٹھائے اور کولرج نے اپنی تنقید میں ان سوالات کو خاص جگہ دی۔ وہ جرمن فلسفیوں کے اثرات کے تحت اور رومانوی نقاد ہونے کا بھر پور ثبوت دیتے ہوئے شاعر کی حیثیت اور انفرادیت کو اہم قرار دیتا ہے۔ اس نے اہم تنقیدی نظریات کو تخلیقی تجربات کا عکس کہا ۔ چونکہ وہ خود تخلیق کار تھا چنانچہ تخلیقی راہوں سے بخوبی واقف تھا اس لئے اس کے پیش کردہ تنقیدی نظریات میں صداقت او ر دائمی اصول موجود ہے۔ مشرق و مغرب میں کولرج کی تنقیدی و تخلیقی حیثیت مسلمہ ہے۔ کولرج کے بعد آج تک کوئی رومانیت پسند ایسا نہیں جس نے ا س کی خوشہ چینی نہ کی ہو۔ کولرج جرمن فلسفی Shellingکا زبردست مداح تھا۔ تخلیق و تنقید کے بارے میں اس کے نظریات پر شیلنگ کے اثرات براہ راست ہیں۔ کولرج نے اپنی کتاب B.Lمیں شاعر کو اختراعی ذہن کا مالک قراد دیا ہے۔
شاعر:۔
اس کے نزدیک شاعر کو مذہبی جذبات کا حامل ہونا چاہیے ۔ تاکہ فطرت کی اصل روح کو جان سکے۔ فطرت جو شاعر کی روح کا اصل ماخذ ہے۔ اور شاعر اس فطرت کے ذریعے اس عظیم ہستی کا احساس ہی کرتا ہے۔ جو ایک کلی وحدت کے ساتھ شاعری پیش کر چکا ہے۔ کولرج شاعر کو غیر معمولی طور پر شعوری لا شعوری قوتوں کا مالک مانتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ شاعر کو فطری طور پر معصوم ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں اس کے الفاظ یہ ہیں۔
”شاعر وہ ہے جوبچپن کی سادگی کوبلوغت کی قوتوں سے وابستہ کرتا ہے۔“
کولرج اور ورڈزورتھ نہ صرف پڑوسی تھے بلکہ گہرے دوست بھی تھے۔ اگرچہ بعد میں ان کے خیالات و نظریات میں ٹکرائو پیدا ہوگیا۔ اور دوستی ختم ہوگئی۔ لیکن شاعر کی خصوصیات کے سلسلے میں کولرج کے نظریات پر ورڈزورتھ کا گہرا اثر ہے۔ ورڈزورتھ کی طرح کولرج بھی شاعر کو فلسفی اور جذباتی انسان قرار دیتا ہے۔ فلسفی کی کی طرح وہ بھی کائناتی صداقتوں کو تلاش کرتا ہے ۔ اور ان پر غور فکر کرتا ہے۔ اور ایک جذباتی لہجے اور کھرے انسان کی طرح پوری شدت سے اس صداقت کو بیان کرتا ہے لیکن وہ عام جذباتی انسان کی طرح محض جذبات کی رو میں بہہ کر بھٹک نہیں جاتا بلکہ نظم و ضبط بہر حال شاعر کا بنیادی وصف ہے۔
نقاد:۔
کولرج کے نزدیک نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ تخلیق کے بارے میں دلائل کے ساتھ فیصلے صادر کرے اور یہ اصول اتنا سچا اور کھر اہونا چاہیے کہ سائنسی علم معلوم ہو۔ اس کے ساتھ ہی خالق سے بھی اس کا یہ تقا ضا ہے کہ وہ عمد ہ تخلیق پیش کرے اور یہ وحدت اس وقت حاصل ہوگی جب خالق کا ذہن جذبات و واقعات اور تاثرات کو ایک ”کل “ میں پرو سکتا ہو۔
وحدت حاصل کرنے کے اس انداز کو اس نے” طریقے کار“ یعنی METHODکا نام دیا ہے۔ دراصل زندگی میں حالات و واقعات بکھری ہوئی صورت میں ہوتےہیں۔ خالق کا کام یہ ہے کہ وہ عام سطح سے بلند ہو کر انہیں دیکھے محسوس کرے اور بیان کرے اپنے فن پاروں میں اسے وحدت کے ساتھ پیش کرنے کے لئے اس سے بہت سے غیر ضروری جذبات کو نظر انداز کرنا ہوتاہے۔ اور ان نمائندہ حالات و واقعات کو چننا ہوتا ہے۔ جس سے ایک پورا واقعہ ترتیب پاتا ہے۔ کولرج اس نفسیاتی اور فلسفیانہ بیان کو انتہائی شدت اور مبالغے سے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔
”شاعری کا سارا جادو اس کا تما م حسن اس کی تما م قوت اس فلسفیانہ اصول میں ہے جسے ہم طریقہ کار کہتے ہیں۔“
متخلیہ :۔
کولرج کے نزدیک عمدہ شاعری وہ ہے جس کا لطف بار بار پڑھنے سے بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ جن اشعار میں الفاظ کو بدل دینے اور ہٹا دینے سے فرق نہیں پڑتا وہ بالکل بے کار ہوتے ہیں۔ وحدت کے اصول سے مراد یہ بھی ہے کہ اگرکسی نظم کا کوئی حصہ اس سے الگ کر دیا جائے تو اس سے اس کا پورا وجود ہل جائے نہ کہ فکری حوالے سے اس پر کوئی اثر ہی نہ پڑے اس طرح کسی شاعر کا کلام تب ہی اہم ہو سکتا ہے۔ جب اس کے ساتھ دائمی جذبات وابستہ نہ ہوں۔ کولرج کا کہنا ہے کہ مجھے چیزوں کو مکمل دیکھنے کا شوق ہے اور یہ خواہش بیماری کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اور چیزوں کو مکمل صورت میں پیش کرنے کے لئے وحدت کا اصول ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بکھری چیزوں کو حالات واقعات کو کس طرح مرتب کیا جائے۔ اور ان کو ایک وحدت میں کیسے پرو دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے کولرج نہایت فلسفیانہ نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے ”متخیلہ کا نظریہ“ پیش کرتا ہے۔ جو کہ مغربی ادب میں نیا نہیں ۔ کولرج سے پہلے Shellingجیسے ناقد متخیلہ کا تصور پیش کر چکے ہیں۔ لیکن کولرج نے اس تصور کی نہ صرف و ضاحت کیبلکہ ایسی وسعت دی کہ یہ ان سے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ کولرج کے نزدیک متخیلہ وہ قوت ہے جو خالق کو اس قابل بناتی ہے ۔ کہ وہ مختلف اشیاءاور ان کی صفات کے مابین فرق کر سکے اور اِ ن کے درمیان ربط کو تلاش کر سکے۔ مراد یہ کہ مختلف تاثرات ، خیالات اور اجزاءکو ایک وحدت میں پرونے کا نام متخیلہ ہے اور اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں،
” ہر شے میں تبدیل ہو جانا پھر بھی حقیقت کو برقرار رکھنا اور شعلے میں خدا کے وجود کا احساس دلانا متخیلہ کا کام ہے۔“
یعنی متخیلہ ایسی قوت ہے جو سامنے آنے والی ہر مادی چیز میں ضم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنا وجود برقرا ر رکھتی ہے۔ اس طرح مظاہر فطرت کی اصل روح کا احساس دلانے والی قوت متخیلہ کہلاتی ہے۔ جو خالق کے ذہن میں ایک برتر ہستی اور عظیم ترین خالق کے وجود کا احساس ڈال دیتی ہے۔ کولرج نے متخیلہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
١۔ اولین متخیلہ(Primary Imagination)
٢۔ثانوی متخیلہ (Secondry Imagination)
١۔اولین متخیلہ :۔
انسانی ذہن کی وہ قوت ہے جو مختلف چیزوں کے ادارک کو ذہنی اسٹور میں جمع کرتی ہے ۔ اولین متخیلہ خواسِ خمسہ پر انحصار کرتا ہے یعنی سونگھنے ، چھونے اور سننے کے ذریعے جو تاثرات و تصورات حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بکھری ہوئی شکل میں اولین متخلیہ کے ذریعے ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اولین متخیلہ کو ترکیبی کہا جاتا ہے اولین متخیلہ جتنا فعال اور متحرک ہوگا اتنا ہی زیادہ چیزوں کا ادراک اکھٹا کر سکے گا اولین متخیلہ انسانی ذہن کی لاشعوری قوتوں سے منسلک اور بھی بہت سی ایسی چیزوں کا ادراک شعوری اور لاشعوری طور پر جمع کرنا ہے جسے بعد میں ثانوی متخیلہ کا رآمد بناتا ہے۔
٢۔ثانوی متخیلہ:۔
اولین متخیلہ حواس خمسہ کے ذریعے جو تاثرات و تصورات اور واقعات جمع کرتا ہے ۔ ثانوی متخیلہ اسے نئے انوکھے وسیلے سے نیا رویہ دی کر پیش کرتا ہے۔ اس بات کو ایک ساد ہ سی مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی اولین متخیلہ ایک سٹور کی مانند ہے جس میں خواس ِ خمسہ سے حاصل شدہ ادراک جمع ہوتا رہتا ہے۔ اوریہ ایک لاشعوری عمل ہے۔ پھر مشابہتیں دیکھنے والی آنکھ جو بصارت کے ساتھ بصیرت بھی رکھتی ہو مختلف بکھری ہوئی چیزوں کے درمیان ربط کو دیکھ لیتی ہے۔ مختلف تجربات تاثرات اور مشاہدات کے درمیان خاص واسطے کو تلاش کر لیتی ہے۔ میر کے اس شعر کے ذریعے اس بات کی مزید وضاحت ہو سکتی ہے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
شاعر کے اولین متخیلہ میں پنکھڑی کو تصور موجود تھا۔ اس طرح اس کی آنکھ نے خوبصورت لبوں کے تصور کو بھی ذہنی اسٹور میں جمع کر رکھا تھا۔ یہاں مختلف صداقتوں کے درمیان ربط تلاش کرنا اور ایسا ربط جو سارے تضادات پر حاوی ہو ۔ شاعر کی نگاہ بینا کا کمال ہے۔ شاعر نے سارے باغ کے خارجی تصور سے حاصل کردہ شعوری کوشش کو ذہن میں محفوظ کر لیا تھا۔ ثانوی متخیلہ نے شعوری سطح پر کام کرتے ہوئے لفظ پنکھڑی کو چنا اور متخیلہ کی تخلیقی قوت نے تمام تضادات سے بلند ہو کر چیزوں کو باہم مربوط کیا۔ پھول کو پنکھڑی اور لب کی مناسبت میں تضاد ہے لیکن ربط دیکھنے والی آنکھ نے قوت متخیلہ کے ذریعے اس تضاد کو مٹا دیا اور اس نزاکت کو دیکھ لیا جو دونوں میں مشترک تھی۔
کولرج کا خیال ہے کہ اولین متخیلہ ترکیبی ہوتا ہے۔ یعنی کائنات کی مختلف چیزوں سے حاصل کردہ اولین ادراک منتشر اور بکھری صورت میں ہماری یاداشت میں جمع ہوتا ہے۔ جبکہ ثانوی متخیلہ تجزیاتی ہوتا ہے۔ وہ شعوری قوت کے ذریعے منتشر چیزوں کا تجزیہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کرتا ہے۔ اور یہی فیصلہ عمل ِ تخلیق میں کام آتا ہے۔ ثانوی متخیلہ زیادہ شعوری اور فعال ہوتا ہے۔ اور یہ ارادے کے زیر اثر عمل کرتا ہے۔ ثانوی متخیلہ اولین متخیلہ سے مواد حاصل کرتا ہے۔ اور اس کو ازسرنو ترتیب دے کر اس میں جمالیاتی حسن پیدا کرتا ہے۔ اور پھر خالق تخلیق کے ذریعے قاری کو ایسے خواب دکھاتا ہے جو سمندر اور خشکی پر رہنے والے کسی نے کبھی بھی نہیں دیکھے ۔ دراصل یہی ثانوی متخیلہ دنیا بھر کی شاعری اور ادب کی بنیاد ہے اولین متخیلہ میں فرق یہ ہے۔ کہ اولین متخیلہ غیر شعوری اور بے عمل ہے۔ جبکہ ثانوی متخیلہ شعوری اور باعمل ہے، متحرک ہے اصول و ضوابط کی پابندی کرتاہے۔ مگر قدرے باغی بھی ہے۔ اولین متخیلہ افاقی ہے جبکہ ثانوی متخیلہ فن کار کی ذات تک ہوتا ہے۔ جسے تخلیق کے ذ ریعے وہ اپنی ذات کے محدود دائرے سے نکال کر آفاقی بنا سکتا ہے۔
دیگر مباحث:۔
بائیو گرافیہ لٹریریا کے سب سے اہم ابواب چودھویں سے لیکر بیسویں تک ہیں ان میں نہ صرف شاعری میں تخیل کے کرشموں کی طرف اشارہ ہے بلکہ جدید شاعری کے فن طرز ادا پر وہ باتیں کہی گئی ہیں جن کی قدر و قیمت دائمی ہے۔ ان ابواب میں کولرج اپنی اور ورڈزورتھ کی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے درمیان دو اہم موضوعات زیر بحث آئے ہیں ایک وہ قوت جو فطرت کی نقل کرکے قاری کے ذہن کو حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔ دوسری وہ طاقت وہ تخیل کے رنگوں کے ذریعے حقیقت کو بدل کر دلچسپ شے بنا ڈالتی ہے۔ جس طرح چاند کی روشنی میں سایہ اور نور ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح ایک تخلیق ( عمدہ ) حقیقت و افسانہ مل جل کر اپنا تاثر ابھارتے ہیں۔ اور اس نیچرل شاعری کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ ورڈزورتھ شاعر تو عظیم تھا لیکن وہ کم درجہ فلسفی اور نقاد تھا اس لئے اس سلسلے میں اس کے خیالات مبہم اور مبالغہ آمیز ہیں جبکہ کولرج اولین و ثانوی متخیلہ کے ذریعے اس کی تشریح کرتا دکھائی دیتا ہے۔
نظریہ ترفع و ذوق سلیم:۔
ایک رومانوی نقاد ہونے کی حیثیت سے کولرج لانجائنس کے نظریہ ترفع کا بھی قائل ہے اس کا خیال ہے کہ مقام ترفع تک پہنچنے کے لئے ایک خاص ذہنی سطح ضروری ہے جسے ذوق سلیم کہتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ بعض اوقات بے پناہ خوشی غم بھی ذوق سلیم میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ نظریہ پیش کرکے کولرج انسانی نفسیات کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ ذوق سلیم کی شکل اور تربیت کے سلسلے میں کولرج قدیم ناقدین سے اتفاق کرتا ہے۔ کہ عظیم فن پاروں کا مطالعہ ، قواعد و ضوابط اور نفسیات سے لگاو ذوق سلیم کے لئے ضروری ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مطالعے کو قاری کا عادتِ ثانیہ ہونی چاہیے۔ کولرج اس کھلی حقیقت کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ ذوق سلیم کے لئے ہمہ گیر اصول وضع نہیں کئے جا سکتے ۔ کیو ں کہ تما م لوگوں کی ذہنی ، نفسیاتی اور جذباتی سطح ایک نہیں ہوتی۔ نہ ہی ہم تمام لوگ ایک جیسا سوچتے ہیں۔ اور نہ ہی ایک جیسی شدت سے محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ذوقِ سلیم کے لئے ہمہ گیر اصول وضع نہیں کئے جا سکتے ۔ اور مزے کی بات یہ کہ ہم میں سے ہر ایک دوسروں کے لئے ذوقِ سلیم کے قوانین وضع کرنا چاہتا ہے۔ اور خود کو معیار تصور کرتا ہے۔
شعری زبان:۔
کولرج اخلاق اور ذوق میں بھی تمیز کا قائل ہے۔ اور اس سلسلے میں اس کا رویہ نہایت لچک دار ہے۔ یعنی ذوق تو ہر شخص کا مختلف ہو سکتا ہے لیکن اخلاق کے قوانین جن کے ماخذ مذہب اور تہذیب میں طے شدہ ہوتے ہیں ان میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اور انہیں لوگوں کی ثواب دید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔اس سلسلے میں کولرج اور ورڈزورتھ کی نظریات میں واضح فرق ہے ورڈزورتھ نثر اور شاعری کی زبان میں کوئی فرق نہیں سمجھتا اور اس کاخیال ہے کہ دیہاتی زبان اپنی سادگی اور بے ساختگی کی وجہ سے نیچرل شاعری کے لئے موزوں ہے۔ جبکہ کولرج گفتگو اور عام بول چال کی زبان کو شاعری کے لئے موزوں قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ نثر اور شعری زبان میں الفاظ ایک ہی ہوتے ہیں۔ لیکن الفاظ کی ترتیب انہیں مختلف بناتی ہے۔ یہ فرق وزن کے خیال سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ جو چیز شاعری اور نثر کو الگ کرتی ہے وہ وزن ہے شاعر کے دل سے اُٹھنے والی جذبات و احساسات کے طوفان کو وزن کا استعمال متوازن بناتا ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کے الفاظ یہ ہیں۔
” نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں۔“
نظم:۔
کولرج کاعہد نظم کا تھا خود کولرج طویل نظم کا شاعر تھا اور اس سلسلے میں اس نے تنقیدی نظریات بھی پیش کئے اس کا خیال ہے کہ طویل نظم پورے طور پر شاعرانہ نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس میں آمد کے بجائے آورد کا عنصر بھی ضرور ہوگا۔ اس لئے نظم میں ایسے حصے شامل ہونے چاہیے۔ جو وحدت رکھتے ہوں نظم کی وحدت میں ہر حصے کے جذب ہونے سے مراد یہ ہے کہ قاری یہ سمجھے کہ نظم کا کوئی حصہ ہٹایا جائے یا تبدیل کیا جائے تو پوری نظم کا وجود ہل جائے۔کولرج کے ہاں نظم و ضبط کے ساتھ کس بھی طریقے سے کائناتی سچائی کو تلاش کرنے کا نام شاعری ہے۔ چاہے اس کو تلاش کرنے والا ایک موسیقار ہو سائنسدان ہو۔ فلاسفر ہو مجسمہ ساز ہو یا پھر شاعر چونکہ یہ سب کائناتی سچائی و صداقت کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اس لئے شاعری کر رہے ہیں۔ کولرج کے اس نظریے کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ اشارات تنقید میں لکھتے ہیں۔
” اس کے خیال میں مصور فلسفی سائنسدان کے عمل کو بھی پوئٹری کہا جا سکتا ہے۔ پوئٹری محض کلامِ موزوں تک محدود نہیں ہر قسم کا خیال انگیز کلام بلکہ ہر فنی اظہار پوئٹری بن سکتی ہے۔“
کولرج نے شاعری کے مفہوم کو وسعت دے ڈالی اس نے فنون ِ لطیفہ کو شاعری کہہ کر صداقت کا اظہار کرنے والے ہر وسیلے کو شاعری قرار دے دیا۔ کولرج اپنے عہد کا نمایاں شاعر اور نقاد تھا۔ اس کے ہم عصر اور بعد کے آنے والے ناقدین دانتے لیسنگ سب کولرج کے خوشہ چین ہیں ۔ اور متخیلہ کے تصور کے لئے کولرج کی تقلید کرتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کولرج اپنی کتاب کے نفسیاتی اور فلسفیانہ اصولوں کے باعث بھر پور رومانوی نقاد کی حیثیت سے باقاعدہ نظام وضع کرتا دکھائی دیتا ہے۔
کولرج کی اہم ترین تنقیدی کتاب عملی تنقید کی بہترین مثال ہے ۔ اس میں کولرج نے ورڈزورتھ کی نظموں پر تنقید،نظریات اور ادبی جمالیات پر بحث کی ہے اورنئے تنقیدی نظام کے واضح اشارے پیش کئے ہیں۔ کولرج نے اس کتاب میں ادبی شاہکار وں کا جائزہ لیا ۔ اور اپنی تنقیدی آراءپیش کیں ہیں۔ تنقید کی یہ کتاب ایک قابلِ قدر شاہکار ہے۔ مگر ناقدین نے اس کتاب میں بھی انہی خامیوں کی نشاندھی کی ہے۔ جو کولرج کی طبیعت اور شاعری کا حصہ تھیں۔ یعنی موضوع کی مرکزیت کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ بے تکان جملے بکھرے پڑے ہیں۔ ایک مغربی نقاد بائیو گرافیہ کے بارے میں لکھتا ہے۔
”یہ انگریزی میں عظیم ترین تنقیدی کتاب ہے اور دنیا کی زبانوں میں سب سے زیادہ پریشان کن کتاب ہے۔“
کولرج نے خود اسے بے ڈھنگے متفرقات کا مجموعہ کہا ہے۔ کولرج نے اپنے تنقیدی نظریات کی بنیاد انسانی نفسیات پر رکھی ہے۔ وہ خالق کو سامنے رکھ کر تخلیق تک رسائی حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ یہی نظامِ فکر ہے جس نے کولرج کو تنقید کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت دلا دی ہے۔ کولرج نے پہلے اپنی کتاب کا نام آٹو بائیو گرافیہ رکھا اور بعد میں صرف بائیو گرفیہ کے نام سے یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ مئی 1751ءمیں کولرج نے ورڈزورتھ کو لکھا کہ وہ اپنی نظموں پر ایک مقدمہ لکھ رہا ہے۔ اور ورڈزورتھ کی کچھ نظموں کا جائزہ بھی لے گا۔ دو ماہ بعد اس نے لکھا کہ اس نے مقدمے کو بڑھا کر ایک خود نوشت ادبی سوانح بنا رہا ہے۔ اس میں اس کی ادبی زندگی اور نظریات ہوں گے۔ پھر اس نے ادب کے موضوع کو بالکل چھوڑ کر جدید فلسفے اور نفسیات پر بات شروع کی اور اس طرح ایک بھر پور مقالے کی شکل اختیار کرتے ہوئے یہ کتاب اختتام کو پہنچی ۔
ادب اور دیگر موضوعات مختلف نظریات اور مباحث اس کتاب کا حصہ ہیں۔ ان مباحث پر جرمن فلسفیوں کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ جرمن فلسفیوں نے انسان اور فطرت کے متعلق تصورات قائم کئے۔ شاعری کیا ہے؟ شاعر کی فطرت میں کیا خصوصیات لازمی ہیں؟ اسلوب اور روایت کا کیا کردار ہے ؟ یہ سب سوالات جرمن فلسفیوں نے اُٹھائے اور کولرج نے اپنی تنقید میں ان سوالات کو خاص جگہ دی۔ وہ جرمن فلسفیوں کے اثرات کے تحت اور رومانوی نقاد ہونے کا بھر پور ثبوت دیتے ہوئے شاعر کی حیثیت اور انفرادیت کو اہم قرار دیتا ہے۔ اس نے اہم تنقیدی نظریات کو تخلیقی تجربات کا عکس کہا ۔ چونکہ وہ خود تخلیق کار تھا چنانچہ تخلیقی راہوں سے بخوبی واقف تھا اس لئے اس کے پیش کردہ تنقیدی نظریات میں صداقت او ر دائمی اصول موجود ہے۔ مشرق و مغرب میں کولرج کی تنقیدی و تخلیقی حیثیت مسلمہ ہے۔ کولرج کے بعد آج تک کوئی رومانیت پسند ایسا نہیں جس نے ا س کی خوشہ چینی نہ کی ہو۔ کولرج جرمن فلسفی Shellingکا زبردست مداح تھا۔ تخلیق و تنقید کے بارے میں اس کے نظریات پر شیلنگ کے اثرات براہ راست ہیں۔ کولرج نے اپنی کتاب B.Lمیں شاعر کو اختراعی ذہن کا مالک قراد دیا ہے۔
شاعر:۔
اس کے نزدیک شاعر کو مذہبی جذبات کا حامل ہونا چاہیے ۔ تاکہ فطرت کی اصل روح کو جان سکے۔ فطرت جو شاعر کی روح کا اصل ماخذ ہے۔ اور شاعر اس فطرت کے ذریعے اس عظیم ہستی کا احساس ہی کرتا ہے۔ جو ایک کلی وحدت کے ساتھ شاعری پیش کر چکا ہے۔ کولرج شاعر کو غیر معمولی طور پر شعوری لا شعوری قوتوں کا مالک مانتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ شاعر کو فطری طور پر معصوم ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں اس کے الفاظ یہ ہیں۔
”شاعر وہ ہے جوبچپن کی سادگی کوبلوغت کی قوتوں سے وابستہ کرتا ہے۔“
کولرج اور ورڈزورتھ نہ صرف پڑوسی تھے بلکہ گہرے دوست بھی تھے۔ اگرچہ بعد میں ان کے خیالات و نظریات میں ٹکرائو پیدا ہوگیا۔ اور دوستی ختم ہوگئی۔ لیکن شاعر کی خصوصیات کے سلسلے میں کولرج کے نظریات پر ورڈزورتھ کا گہرا اثر ہے۔ ورڈزورتھ کی طرح کولرج بھی شاعر کو فلسفی اور جذباتی انسان قرار دیتا ہے۔ فلسفی کی کی طرح وہ بھی کائناتی صداقتوں کو تلاش کرتا ہے ۔ اور ان پر غور فکر کرتا ہے۔ اور ایک جذباتی لہجے اور کھرے انسان کی طرح پوری شدت سے اس صداقت کو بیان کرتا ہے لیکن وہ عام جذباتی انسان کی طرح محض جذبات کی رو میں بہہ کر بھٹک نہیں جاتا بلکہ نظم و ضبط بہر حال شاعر کا بنیادی وصف ہے۔
نقاد:۔
کولرج کے نزدیک نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ تخلیق کے بارے میں دلائل کے ساتھ فیصلے صادر کرے اور یہ اصول اتنا سچا اور کھر اہونا چاہیے کہ سائنسی علم معلوم ہو۔ اس کے ساتھ ہی خالق سے بھی اس کا یہ تقا ضا ہے کہ وہ عمد ہ تخلیق پیش کرے اور یہ وحدت اس وقت حاصل ہوگی جب خالق کا ذہن جذبات و واقعات اور تاثرات کو ایک ”کل “ میں پرو سکتا ہو۔
وحدت حاصل کرنے کے اس انداز کو اس نے” طریقے کار“ یعنی METHODکا نام دیا ہے۔ دراصل زندگی میں حالات و واقعات بکھری ہوئی صورت میں ہوتےہیں۔ خالق کا کام یہ ہے کہ وہ عام سطح سے بلند ہو کر انہیں دیکھے محسوس کرے اور بیان کرے اپنے فن پاروں میں اسے وحدت کے ساتھ پیش کرنے کے لئے اس سے بہت سے غیر ضروری جذبات کو نظر انداز کرنا ہوتاہے۔ اور ان نمائندہ حالات و واقعات کو چننا ہوتا ہے۔ جس سے ایک پورا واقعہ ترتیب پاتا ہے۔ کولرج اس نفسیاتی اور فلسفیانہ بیان کو انتہائی شدت اور مبالغے سے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔
”شاعری کا سارا جادو اس کا تما م حسن اس کی تما م قوت اس فلسفیانہ اصول میں ہے جسے ہم طریقہ کار کہتے ہیں۔“
متخلیہ :۔
کولرج کے نزدیک عمدہ شاعری وہ ہے جس کا لطف بار بار پڑھنے سے بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ جن اشعار میں الفاظ کو بدل دینے اور ہٹا دینے سے فرق نہیں پڑتا وہ بالکل بے کار ہوتے ہیں۔ وحدت کے اصول سے مراد یہ بھی ہے کہ اگرکسی نظم کا کوئی حصہ اس سے الگ کر دیا جائے تو اس سے اس کا پورا وجود ہل جائے نہ کہ فکری حوالے سے اس پر کوئی اثر ہی نہ پڑے اس طرح کسی شاعر کا کلام تب ہی اہم ہو سکتا ہے۔ جب اس کے ساتھ دائمی جذبات وابستہ نہ ہوں۔ کولرج کا کہنا ہے کہ مجھے چیزوں کو مکمل دیکھنے کا شوق ہے اور یہ خواہش بیماری کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اور چیزوں کو مکمل صورت میں پیش کرنے کے لئے وحدت کا اصول ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بکھری چیزوں کو حالات واقعات کو کس طرح مرتب کیا جائے۔ اور ان کو ایک وحدت میں کیسے پرو دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے کولرج نہایت فلسفیانہ نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے ”متخیلہ کا نظریہ“ پیش کرتا ہے۔ جو کہ مغربی ادب میں نیا نہیں ۔ کولرج سے پہلے Shellingجیسے ناقد متخیلہ کا تصور پیش کر چکے ہیں۔ لیکن کولرج نے اس تصور کی نہ صرف و ضاحت کیبلکہ ایسی وسعت دی کہ یہ ان سے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ کولرج کے نزدیک متخیلہ وہ قوت ہے جو خالق کو اس قابل بناتی ہے ۔ کہ وہ مختلف اشیاءاور ان کی صفات کے مابین فرق کر سکے اور اِ ن کے درمیان ربط کو تلاش کر سکے۔ مراد یہ کہ مختلف تاثرات ، خیالات اور اجزاءکو ایک وحدت میں پرونے کا نام متخیلہ ہے اور اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں،
” ہر شے میں تبدیل ہو جانا پھر بھی حقیقت کو برقرار رکھنا اور شعلے میں خدا کے وجود کا احساس دلانا متخیلہ کا کام ہے۔“
یعنی متخیلہ ایسی قوت ہے جو سامنے آنے والی ہر مادی چیز میں ضم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنا وجود برقرا ر رکھتی ہے۔ اس طرح مظاہر فطرت کی اصل روح کا احساس دلانے والی قوت متخیلہ کہلاتی ہے۔ جو خالق کے ذہن میں ایک برتر ہستی اور عظیم ترین خالق کے وجود کا احساس ڈال دیتی ہے۔ کولرج نے متخیلہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
١۔ اولین متخیلہ(Primary Imagination)
٢۔ثانوی متخیلہ (Secondry Imagination)
١۔اولین متخیلہ :۔
انسانی ذہن کی وہ قوت ہے جو مختلف چیزوں کے ادارک کو ذہنی اسٹور میں جمع کرتی ہے ۔ اولین متخیلہ خواسِ خمسہ پر انحصار کرتا ہے یعنی سونگھنے ، چھونے اور سننے کے ذریعے جو تاثرات و تصورات حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بکھری ہوئی شکل میں اولین متخلیہ کے ذریعے ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اولین متخیلہ کو ترکیبی کہا جاتا ہے اولین متخیلہ جتنا فعال اور متحرک ہوگا اتنا ہی زیادہ چیزوں کا ادراک اکھٹا کر سکے گا اولین متخیلہ انسانی ذہن کی لاشعوری قوتوں سے منسلک اور بھی بہت سی ایسی چیزوں کا ادراک شعوری اور لاشعوری طور پر جمع کرنا ہے جسے بعد میں ثانوی متخیلہ کا رآمد بناتا ہے۔
٢۔ثانوی متخیلہ:۔
اولین متخیلہ حواس خمسہ کے ذریعے جو تاثرات و تصورات اور واقعات جمع کرتا ہے ۔ ثانوی متخیلہ اسے نئے انوکھے وسیلے سے نیا رویہ دی کر پیش کرتا ہے۔ اس بات کو ایک ساد ہ سی مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی اولین متخیلہ ایک سٹور کی مانند ہے جس میں خواس ِ خمسہ سے حاصل شدہ ادراک جمع ہوتا رہتا ہے۔ اوریہ ایک لاشعوری عمل ہے۔ پھر مشابہتیں دیکھنے والی آنکھ جو بصارت کے ساتھ بصیرت بھی رکھتی ہو مختلف بکھری ہوئی چیزوں کے درمیان ربط کو دیکھ لیتی ہے۔ مختلف تجربات تاثرات اور مشاہدات کے درمیان خاص واسطے کو تلاش کر لیتی ہے۔ میر کے اس شعر کے ذریعے اس بات کی مزید وضاحت ہو سکتی ہے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
شاعر کے اولین متخیلہ میں پنکھڑی کو تصور موجود تھا۔ اس طرح اس کی آنکھ نے خوبصورت لبوں کے تصور کو بھی ذہنی اسٹور میں جمع کر رکھا تھا۔ یہاں مختلف صداقتوں کے درمیان ربط تلاش کرنا اور ایسا ربط جو سارے تضادات پر حاوی ہو ۔ شاعر کی نگاہ بینا کا کمال ہے۔ شاعر نے سارے باغ کے خارجی تصور سے حاصل کردہ شعوری کوشش کو ذہن میں محفوظ کر لیا تھا۔ ثانوی متخیلہ نے شعوری سطح پر کام کرتے ہوئے لفظ پنکھڑی کو چنا اور متخیلہ کی تخلیقی قوت نے تمام تضادات سے بلند ہو کر چیزوں کو باہم مربوط کیا۔ پھول کو پنکھڑی اور لب کی مناسبت میں تضاد ہے لیکن ربط دیکھنے والی آنکھ نے قوت متخیلہ کے ذریعے اس تضاد کو مٹا دیا اور اس نزاکت کو دیکھ لیا جو دونوں میں مشترک تھی۔
کولرج کا خیال ہے کہ اولین متخیلہ ترکیبی ہوتا ہے۔ یعنی کائنات کی مختلف چیزوں سے حاصل کردہ اولین ادراک منتشر اور بکھری صورت میں ہماری یاداشت میں جمع ہوتا ہے۔ جبکہ ثانوی متخیلہ تجزیاتی ہوتا ہے۔ وہ شعوری قوت کے ذریعے منتشر چیزوں کا تجزیہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کرتا ہے۔ اور یہی فیصلہ عمل ِ تخلیق میں کام آتا ہے۔ ثانوی متخیلہ زیادہ شعوری اور فعال ہوتا ہے۔ اور یہ ارادے کے زیر اثر عمل کرتا ہے۔ ثانوی متخیلہ اولین متخیلہ سے مواد حاصل کرتا ہے۔ اور اس کو ازسرنو ترتیب دے کر اس میں جمالیاتی حسن پیدا کرتا ہے۔ اور پھر خالق تخلیق کے ذریعے قاری کو ایسے خواب دکھاتا ہے جو سمندر اور خشکی پر رہنے والے کسی نے کبھی بھی نہیں دیکھے ۔ دراصل یہی ثانوی متخیلہ دنیا بھر کی شاعری اور ادب کی بنیاد ہے اولین متخیلہ میں فرق یہ ہے۔ کہ اولین متخیلہ غیر شعوری اور بے عمل ہے۔ جبکہ ثانوی متخیلہ شعوری اور باعمل ہے، متحرک ہے اصول و ضوابط کی پابندی کرتاہے۔ مگر قدرے باغی بھی ہے۔ اولین متخیلہ افاقی ہے جبکہ ثانوی متخیلہ فن کار کی ذات تک ہوتا ہے۔ جسے تخلیق کے ذ ریعے وہ اپنی ذات کے محدود دائرے سے نکال کر آفاقی بنا سکتا ہے۔
دیگر مباحث:۔
بائیو گرافیہ لٹریریا کے سب سے اہم ابواب چودھویں سے لیکر بیسویں تک ہیں ان میں نہ صرف شاعری میں تخیل کے کرشموں کی طرف اشارہ ہے بلکہ جدید شاعری کے فن طرز ادا پر وہ باتیں کہی گئی ہیں جن کی قدر و قیمت دائمی ہے۔ ان ابواب میں کولرج اپنی اور ورڈزورتھ کی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے درمیان دو اہم موضوعات زیر بحث آئے ہیں ایک وہ قوت جو فطرت کی نقل کرکے قاری کے ذہن کو حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔ دوسری وہ طاقت وہ تخیل کے رنگوں کے ذریعے حقیقت کو بدل کر دلچسپ شے بنا ڈالتی ہے۔ جس طرح چاند کی روشنی میں سایہ اور نور ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح ایک تخلیق ( عمدہ ) حقیقت و افسانہ مل جل کر اپنا تاثر ابھارتے ہیں۔ اور اس نیچرل شاعری کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ ورڈزورتھ شاعر تو عظیم تھا لیکن وہ کم درجہ فلسفی اور نقاد تھا اس لئے اس سلسلے میں اس کے خیالات مبہم اور مبالغہ آمیز ہیں جبکہ کولرج اولین و ثانوی متخیلہ کے ذریعے اس کی تشریح کرتا دکھائی دیتا ہے۔
نظریہ ترفع و ذوق سلیم:۔
ایک رومانوی نقاد ہونے کی حیثیت سے کولرج لانجائنس کے نظریہ ترفع کا بھی قائل ہے اس کا خیال ہے کہ مقام ترفع تک پہنچنے کے لئے ایک خاص ذہنی سطح ضروری ہے جسے ذوق سلیم کہتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ بعض اوقات بے پناہ خوشی غم بھی ذوق سلیم میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ نظریہ پیش کرکے کولرج انسانی نفسیات کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ ذوق سلیم کی شکل اور تربیت کے سلسلے میں کولرج قدیم ناقدین سے اتفاق کرتا ہے۔ کہ عظیم فن پاروں کا مطالعہ ، قواعد و ضوابط اور نفسیات سے لگاو ذوق سلیم کے لئے ضروری ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مطالعے کو قاری کا عادتِ ثانیہ ہونی چاہیے۔ کولرج اس کھلی حقیقت کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ ذوق سلیم کے لئے ہمہ گیر اصول وضع نہیں کئے جا سکتے ۔ کیو ں کہ تما م لوگوں کی ذہنی ، نفسیاتی اور جذباتی سطح ایک نہیں ہوتی۔ نہ ہی ہم تمام لوگ ایک جیسا سوچتے ہیں۔ اور نہ ہی ایک جیسی شدت سے محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ذوقِ سلیم کے لئے ہمہ گیر اصول وضع نہیں کئے جا سکتے ۔ اور مزے کی بات یہ کہ ہم میں سے ہر ایک دوسروں کے لئے ذوقِ سلیم کے قوانین وضع کرنا چاہتا ہے۔ اور خود کو معیار تصور کرتا ہے۔
شعری زبان:۔
کولرج اخلاق اور ذوق میں بھی تمیز کا قائل ہے۔ اور اس سلسلے میں اس کا رویہ نہایت لچک دار ہے۔ یعنی ذوق تو ہر شخص کا مختلف ہو سکتا ہے لیکن اخلاق کے قوانین جن کے ماخذ مذہب اور تہذیب میں طے شدہ ہوتے ہیں ان میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اور انہیں لوگوں کی ثواب دید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔اس سلسلے میں کولرج اور ورڈزورتھ کی نظریات میں واضح فرق ہے ورڈزورتھ نثر اور شاعری کی زبان میں کوئی فرق نہیں سمجھتا اور اس کاخیال ہے کہ دیہاتی زبان اپنی سادگی اور بے ساختگی کی وجہ سے نیچرل شاعری کے لئے موزوں ہے۔ جبکہ کولرج گفتگو اور عام بول چال کی زبان کو شاعری کے لئے موزوں قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ نثر اور شعری زبان میں الفاظ ایک ہی ہوتے ہیں۔ لیکن الفاظ کی ترتیب انہیں مختلف بناتی ہے۔ یہ فرق وزن کے خیال سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ جو چیز شاعری اور نثر کو الگ کرتی ہے وہ وزن ہے شاعر کے دل سے اُٹھنے والی جذبات و احساسات کے طوفان کو وزن کا استعمال متوازن بناتا ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کے الفاظ یہ ہیں۔
” نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں۔“
نظم:۔
کولرج کاعہد نظم کا تھا خود کولرج طویل نظم کا شاعر تھا اور اس سلسلے میں اس نے تنقیدی نظریات بھی پیش کئے اس کا خیال ہے کہ طویل نظم پورے طور پر شاعرانہ نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس میں آمد کے بجائے آورد کا عنصر بھی ضرور ہوگا۔ اس لئے نظم میں ایسے حصے شامل ہونے چاہیے۔ جو وحدت رکھتے ہوں نظم کی وحدت میں ہر حصے کے جذب ہونے سے مراد یہ ہے کہ قاری یہ سمجھے کہ نظم کا کوئی حصہ ہٹایا جائے یا تبدیل کیا جائے تو پوری نظم کا وجود ہل جائے۔کولرج کے ہاں نظم و ضبط کے ساتھ کس بھی طریقے سے کائناتی سچائی کو تلاش کرنے کا نام شاعری ہے۔ چاہے اس کو تلاش کرنے والا ایک موسیقار ہو سائنسدان ہو۔ فلاسفر ہو مجسمہ ساز ہو یا پھر شاعر چونکہ یہ سب کائناتی سچائی و صداقت کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اس لئے شاعری کر رہے ہیں۔ کولرج کے اس نظریے کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ اشارات تنقید میں لکھتے ہیں۔
” اس کے خیال میں مصور فلسفی سائنسدان کے عمل کو بھی پوئٹری کہا جا سکتا ہے۔ پوئٹری محض کلامِ موزوں تک محدود نہیں ہر قسم کا خیال انگیز کلام بلکہ ہر فنی اظہار پوئٹری بن سکتی ہے۔“
کولرج نے شاعری کے مفہوم کو وسعت دے ڈالی اس نے فنون ِ لطیفہ کو شاعری کہہ کر صداقت کا اظہار کرنے والے ہر وسیلے کو شاعری قرار دے دیا۔ کولرج اپنے عہد کا نمایاں شاعر اور نقاد تھا۔ اس کے ہم عصر اور بعد کے آنے والے ناقدین دانتے لیسنگ سب کولرج کے خوشہ چین ہیں ۔ اور متخیلہ کے تصور کے لئے کولرج کی تقلید کرتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کولرج اپنی کتاب کے نفسیاتی اور فلسفیانہ اصولوں کے باعث بھر پور رومانوی نقاد کی حیثیت سے باقاعدہ نظام وضع کرتا دکھائی دیتا ہے۔