سیف کوئی نہیں آتا سمجھانے

شیزان

لائبریرین
کوئی نہیں آتا سمجھانے
اب آرام سے ہیں دیوانے

طے نہ ہوئے دل کے ویرانے
تھک کر بیٹھ گئے دیوانے

مجبُوری سب کو ہوتی ہے
ملنا ہو تو لاکھ بہانے

بن نہ سکی احباب سے اپنی
وہ دانا تھے، ہم دیوانے

نئی نئی اُمیدیں آ کر
چھیڑ رہی ہیں زخم پرانے

جلوہء جاناں کی تفسیریں
ایک حقیقت، لاکھ فسانے

دنیا بھر کا درد سہا ہے
ہم نے تیرے غم کے بہانے

پھر وحشت آئی سلجھانے
ہوش و خِرد کے تانے بانے

پھر آنچل سے ہوا دی
شعلہء گل کو بادِ صبا نے

پھر وہ ڈال گئے دامن میں
درد کی دولت، غم کے خزانے

آج پھر آنکھوں میں پھرتے ہیں
عہدِ تمنا کے ویرانے

پھر تنہائی پوچھ رہی ہے
کون آئے دل کو بہلانے

سیف وہ غم کہ تشنہ خُوں ہے
ہم زندہ ہیں جس کے بہانے

سیف الدین سیف
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب کیا کہنے صاحب !
تشکّر شیئر کرنے پر :)


پھر آنچل سے ہوا دی
شعلہء گل کو بادِ صبا نے


سیف وہ غم کہ تشنہ خُوں ہے
ہم زندہ ہیں جس کے بہانے


دونوں کے مصرع اولیٰ میں ٹائپو ہے ، دیکھ لیجئے گا :)
 
Top