کوئی رستہ ہو اندھیروں کو جلایا جائے

نوید ناظم

محفلین
اب چراغ ان کو کسی طور بنایا جائے
کوئی رستہ ہو اندھیروں کو جلایا جائے

رات تاریک ہو پھر ساتھ نہیں ہوتا کوئی
چھوڑ کر ہم کو سرِ شام یہ سایہ جائے

بِیج لیتے ہیں سکوں درد کے اندر جا کر
اب کے صحرا میں کوئی پھول اُگایا جائے

دشت کی دھوپ نے مارا ہے جلا کر مجھ کو
اب مِری راکھ کو دریا میں بہایا جائے

اک تو صیاد نے پر کاٹ دیے ہیں میرے
اُس پہ ضد یہ ہے کہ اب مجھ کو اُڑایا جائے

ہم نے گندم کا کوئی دانہ نہیں کھایا پھر
ہم یہاں کیوں ہیں ہمیں بھی تو بتایا جائے

اُس کے کہنے پہ مِرا قتل کیا ہے اِس نے
میرے قاتل کو بھی ہاتھوں پہ اُٹھایا جائے
 
Top