کوئی خوشی سے مر گیا قسمت سے ہار کر

مقبول

محفلین
میری تُک بندی دیکھیے


عُسرت میں ساری زندگی ہی وُہ گُذارکر
کوئی خوشی سے مر گیا قسمت سے ہار کر

یا زندگی میں آ کے مُجھے زیرِ بار کر
یا چھوڑ جا تو مُجھ کو یہ قصّہ ہی پارکر

کرتی یقیں فقیر کا سرکار کیوں نہیں
کیا بیٹھ جاؤں چوک میں کپڑے اُتارکر

دو سوکھی روٹیاں ہی ملیں کھانے کو اُسے
مزدور تھک کے لوٹا جو گھر دن گُذار کر

تُو میرے پاس تو ہے تُو میرے لیے نہیں
سنگھار سولہ چاہے یا سولہ ہزار کر

خط، تو نہ میرے پھاڑو، یوں تُم سب کے سامنے
عزت بچی ہوئی ہے نہ تُو اس کو تار کر

خوش فہم ہی ہو گا کوئی جس نے کہا تھا یہ
رکھتے ہیں رشتہ دار تو چھاؤں میں مار کر

اچھا ہے یا بُرا ، ہوں میں جس بھی مقام پر
قسمت ہی کھینچ لائی مُجھے گھیر گھار کر

مقبول سے ہے جنگ تو لڑ سینہ تان کر
بزدل ، تُو ہے رقیب تو پھر چھپ کے وار کر
 
Top