"کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیغام لے کر"

یہ کل کی بات ہے جب کلاس سیشن میں اچانک استادِ محترم نے فرمائش کر دی کہ اس مصرعے پراصنافِ ادب میں سے کچھ نہ کچھ کہا جائے "کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیغام لے کر"
حسبِ معمول فی البدیع نثم ہمارے حصے میں آئی۔ ہم نے قلم سنبھالا، عینک کے شیشے صاف کیے اور بیٹھ گئے کمر کس کے۔ اب لکھنا شروع کیا تو کلام یہ ہوا:

دل کی نگری خالی خالی
روح سوالی، آنکھ سوالی
فصیلِ جاں میں ، میں نیم مردہ
تنہا تنہا سسک رہا ہوں
نہ جی رہا ہوں
نہ مر رہا ہوں
کہ اب بہاراں خزاں ہوئی ہے
اندھیر نگری سماں ہوئی ہے
اور بلبل کی آہ و زاری
سرو سمن کی بے آبیاری
شجرِ بدن کو سکھا رہی ہے
رلا رہی ہے
نسیمِ صبح تو پیغام لے جا
لے جا بصد احترام لے جا
چھو کے اس کے حسین پاوں
اس سے کہنا
"کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیغام لے کر"

محمد خرم یاسین​
 
زبردست محترم! خوب خیال باندھا ہے۔ بس اس مصرعے میں پیغام کو پیام کر دیں تو پڑھنے میں موزوں ہو جائے گا۔ باقی بہت اچھا کلام ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
میں نے اپنی دوسری "آزاد" نظم یہاں پوسٹ کی تھی کئی برس قبل، اور ساتھ لکھا تھا "نثری قسم کی نظم" تو محترم دوست فاتح بھائی نے تبصرہ کیا

"
اور اچھی بھلی شریف زادی کو مادر پدر آزاد (نثری) کی گالی تو نہ دیں‌۔:d​
"۔۔

تو میرا اس نظم کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ یہ کافی حد تک وزن میں معلوم ہوتی ہے۔۔۔ مادر پدر آزاد تو نہ کہیں اس کو۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top