سعود عثمانی کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے - سعود عثمانی

کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

ہاتھ بڑھتا ہے فون کی جانب
اور میں اس کو روک لیتا ہوں
کوئی زنجیر کھل نہیں پاتی
دل کسی کام میں نہیں لگتا
کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

پھر وہی تیزدھار نوک سعود
قاش در قاش مجھ میں پھرتی ہے
پھر وہی چھن کی آشنا آواز
بوند تپتے توے پہ گرتی ہے

کوئی لکڑی سی جیسے چِرتی ہے
رنج کے بے امان آرے پر
عمر کے آخری کنارے پر
زندگی کیسے روگ پالتی ہے
برف پر آگ دھرتی جاتی ہے

سانس میں ریت بھرتی جاتی ہے
کوئی آوازڈھونڈتی ہے مجھے
کسی ملبے سے زندہ حالت میں
یاد آکر مجھے نکالتی ہے

لوگ کہتے تھے زیر آب کبھی
کوئی آواز بھی نہیں آتی
دل کے گہرے سمندروں کے تلے
پھر یہ آواز کیسے گونجتی ہے
جوکہیں باز بھی نہیں آتی

(سعود عثمانی )
 
Top