کوئٹہ میں غیر مسلح چیچن باشندوں کاماورائے عدالت قتل ۔چشم کشا رپورٹ

زین

لائبریرین
کوئٹہ میں جعلی مقابلے میں جاں بحق ہونیوالے چیچن خواتین اور مردوں تین روز گزرنے کے باوجوددہشتگردیا خودکش حملہ آور ثابت نہیں کئے جاسکے ، پولیس کمزور دلائل کا سہارا لے کر معاملے کومزید پیچیدہ بنارہی ہے ، فرنٹیئر کور نے خودکو معاملے سے الگ کردیا ۔



تفصیل کے مطابق کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) کوئٹہ داؤد جونیجو نے واقعہ کے روز یہ دعویٰ کیا تھا کہ غیر ملکیوں نے پولیس کو دوران چیکنگ خودکش جیکٹ دکھا دیا تھا جس پر پولیس پیچھے ہٹ گئی جبکہ غیر ملکیوں کو مارنے سے قبل گرفتار کرنیوالے پولیس اہلکار اسسٹنٹ سب انسپکٹر رضا خان نے وقوعہ کے روز یہ کہا تھا کہ غیر ملکیوں نے پولیس کو دستی بم دکھایا تھا۔وقوعہ کے د و روز بعد بھی پولیس دعوے کے مطابق خودکش جیکٹس اور نہ ہی بارودی مواد ، دستی بم اور پسٹل صحافیوں کو دکھاسکی ہے ۔ وقوعہ کے روز سی سی پی او نے میڈیا کو بتایا کہ کارروائی کے دوران کوئی دھماکہ نہیں ہوا اور حملہ آوروں کو حملے کا موقع دیئے بغیر ہلاک کردیا۔



ذرائع کے مطابق کچلاک تھانہ کی حدود سے نکل کر ایئر پورٹ تھانہ کی حدود میں داخل ہونے کے بعد ایئر پورٹ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر رضا خان نے چند سپاہیوں کے ہمراہ کچلاک پولیس کی نشاندہی پر شکار سمجھ کر دھرلیا ۔ ایئر پورٹ پولیس نے بھی غیر ملکیوں سے رقم کا تقاضا کیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کے پاس اتنی رقم نہیں رہی کہ وہ پولیس اہلکاروں کی مٹھی گرم کرسکے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ رشوت نہ دینے پر مذکورہ پولیس اہلکاروں نے غیر ملکی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی جس پر یہ لوگ (غیر ملکی) گاڑی سے اتر کر بھاگ نکلے ۔ پولیس نے مزید نفری طلب کرلی اور اس دوران سیکورٹی فورسز کو بھی اطلاع کردی ۔ تعاقب کے بعد غیر ملکی غیر مسلح افراد نے خیزی چوک پر فرنٹیئر کور کی چیک پوسٹ کے ساتھ پناہ لے لی کہ اس دوران پولیس نے فائرنگ کرکے انہیں زخمی کردیا۔



اینٹی سوسائیڈڈرلز کے مطابق ایسی صورت میں جب خودکش حملہ آور کہیں گھیر لیا جاتا تو سب سے پہلے علاقے کو محاصرے میں لے لیا جاتا ہے اور وہاں سے لوگوں کو دور ہٹا کر خودکش حملہ آور کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا اور ان سے کپڑے نکالنے کا کہا جاتا ہے ، اس دوران خودکش حملہ آور سے اتنا فاصلہ رکھا جاتا ہے کہ اگر وہ خود کو دھماکے اڑاتا بھی ہے تو اس کے نتیجے میں جانی نقصان نہ ہو۔ اور اگر حملہ آور آگے بڑھ کر حملے کی کوشش کرتا ہے تو حتی الواسع اسے سر میں گولی ماری جاتی ہے تاکہ وہ خودکو اڑانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔



سیکورٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ خودکش حملہ آورکی تربیت کا یہ حصہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے ہدف پر پہنچتا ہے تو وہ خودکو اڑا دے ،اگر کسی وجہ سے وہ جیکٹ نہ پھٹے تو اپنے پاس موجود دستی بم نکال کر اپنے جیکٹ سے لگا کر دھماکہ کرتا ہے ، اگر دستی بم بھی نہ پھٹے تو وہ اپنے پاس موجود پسٹل نکال کر جیکٹ پر فائر کرتا ہے تاکہ دھماکہ ہو۔اب سوال یہ ہے کہ ایف سی اور پولیس نے پانچ غیر ملکیوں پر سیکڑوں گولیاں برسائیں اور ایک بھی جیکٹ نہ پھٹ سکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر یہ تربیت یافتہ دہشت گرد ہی تھے تو جس چیک پوسٹ کے ساتھ یہ مارے گئے اس کے اندر تین سے چار فٹ کے فاصلے پر لائٹ مشین گن بمعہ سیکڑوں رائونڈز موجود تھی تو ان افراد نے ایف سی اور پولیس پر فائر کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر یہ خودکش حملہ آور ہی تھے تو بم ڈسپوزل سکواڈ ایک گھنٹہ تاخیر سے کیوں پہنچااور ان کے پاس احتیاطی ماسک ، حفاظتی ماسک ،شیل پروف جیکٹ اور ایکسپلوسیوڈی ٹیکٹرکیوں نہیں تھا ۔بم ڈسپوزل سکواڈ عام روایتی آلے سے بارودی مواد کی موجودگی کا تعین کرنے کا ڈرامہ کرتے رہے ۔



پولیس نے موقع پر اپنے لوگوں (غیر اہلکار)کو میڈیا کے سامنے عینی شاہد کے طور پر پیش کراتے ہوئے یہ کہلوایا کہ ان غیر ملکیوں نے فورسز پر بم سے حملہ کیا ۔ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ پولیس نے حقائق کو چھپانے کے لئے اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے سوائے نجی ٹی وی چینل جیوز نیوز اور ڈان نیوز کے ،باقی تمام نجی چینلز کے رپورٹرز کو اپنا ہم نوا بنالیا۔ پولیس ان سے من گھڑت رپورٹنگ کراتی رہی۔



سی سی پی او نے جھوٹ عوام پر ظاہر نہ ہونے کی خاطر پریس کانفرنس کی لائیو کوریج نہ ہونے دی جبکہ تمام بڑے ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جی گاڑیاں موقع پر موجود تھیں۔دوسری جانب فرنٹیئر کور جو وقوعہ کے دن خودکش حملہ آوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے اور حملہ ناکام بنانے کا اعزاز حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ، ا ب جب معاملہ کچھ اور نکلا تو ایف سی نے خودکو معاملے سے الگ تھلگ کرلیاجبکہ پولیس خود کو بچانے کے لئے میڈیا کے بعض نمائندوں کو ساتھ ملکر ہاتھ پاؤں مار رہی ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونیوالے مقامی ڈرائیور پر پولیس کی جانب سے دوران حراست من پسند بیان دلانے کے لئے دباؤ ڈالا گیا ہے ، پریس کانفرنس کے دوران بھی ڈرائیور کو صرف ہم نوا صحافیوں کے سامنے پیش کیا گیا ۔سی سی پی او نے وقوعہ کے دن دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کوانٹیلی جنس کی جانب سے حملے کی پہلے سے اطلاع دیدی گئی تھی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کو پہلے سے اطلاع تھی تو خودکش حملہ آوروں کو روکنے کے لئے ناکے پر ایک اے ایس آئی کے ساتھ صرف تین اہلکار کیوں تعینات کئے گئے تھے؟۔
 

طالوت

محفلین
یہ جو خود سہمے گھبرائے ہیں یہ عوام کی حفاظت کیا خاک کریں گے۔ چور اچکے۔
 

راشد احمد

محفلین
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ بدبختوں نے اس قسم کے اقدام کے بعد طالبان کے بعد چیچن جنگجوؤں کو بھی پاکستان کا راستہ دکھا دیا ہے۔
 
Top