کنگ چانگ صفحہ نمبر 130 تا 139

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
دھویں کا حصار - صفحہ 130 سے 139

"حضور۔۔۔ جناب عالی۔۔۔ میں بالکل بے قصور ہوں! فراگ پاگل ہو گیا ہے۔"
"کیا پھر کوئی حماقت کر بیٹھا۔۔۔؟"
"جی حضور!۔۔۔ وہ تو حماقتوں کا پتلا ہے۔ پتہ نہیں کہاں سے پرنسز ٹالا بو آ کا معتمد خصوصی ہاتھ لگ گیا تھا۔ مجھ سے کہا کہ میں تمہیں اس کے ساتھ متہم کر کے دونوں کو گھر سے نکال دوں گا۔ تم اس کے ساتھ بنکاٹا جانا۔۔۔ اور وہاں میری منتظر رہنا۔"
"واقعی! اس کی نیت خراب ہو گئی ہے۔" کنگ چانگ بولا۔ "مجھ سے بہتیری باتیں چھپانے لگا ہے۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس نے موکارو کے دو آدمی پکڑ لیے ہیں۔۔۔؟"
"وہی واقعہ تو فساد کی جڑ بنا ہے یور آنر۔! وہ دونوں فراگ کو بیہوش کر کےکہیں لے جانا چاہتے تھے۔ فراگ کو اسپینی نہیں آتی۔ لیکن ٹالابو آ کا ملازم اسپینی ہی ہے۔ اس نے اسے بروقت آگاہ کر دیا اور وہ دونوں پکڑے گئے۔ فراگ موکارو جانا چاہتا ہے۔ اپنی دانست میں وہ پرنس ہربنڈا ہے۔ اسی لیے مجھے پہلے ہی سے بھجوا دینا چاہتا تھا۔۔۔ میں شاہی محل میں قیام کرتی۔ اور پھر عمران کے ذریعے ہربنڈا پر قابو پانے کی کوشش کرتی۔ اب فراگ کا پاگل پن بھی سن لیجیئے۔ جب ایک بات طے ہو گئی تھی تو ہمیں گھر سے نکالا جا چکا تھا تو پھر واپس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟"
"کیا مطلب۔۔۔؟"
ام بینی نے فرار کی پوری کہانی دہرائی۔ "کنگ چانگ" کی آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔"تو یہ ٹالابو آ کا ملازم ہے جو تمہیں اٹھائے ہوئے تھا۔"
"مجھے تو ہوش ہی نہیں تھا جناب عالی۔۔۔!"
"ہاں وہ تمہیں اٹھائے ہوئے ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ۔۔۔ میری کشتی ادھر سے گزری۔ میں عرشے پر دوربین لیے کھڑا تھا۔! میں نے تمہیں پہچان لیا۔ ایک بار پہلے بھی دیکھ چکا تھا نا۔۔۔ وہ آدمی کشتی ہی پر موجود ہے لیکن اس نے اپنے بارے میں کچھ بتانے سے انکفار کر دیا ہے۔ ویسے تمہیں اپنی بیوی بتاتا ہے۔ کہہ رہ تھا کہ مرگی کی مریضہ ہے، دورہ پڑ گیا تھا۔"
"مردود کہیں کا۔۔۔!"
"لیکن میری خواہش ہے کہ تم یہ ڈرامہ جاری رکھو! اب تم یہ کا فراگ کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے کرو گی۔۔۔!"
"آپ کی خدمت کرنا اپنی خوش نصیبی سمجھوں گی جناب!"
"میں تم دونوں کو بنکاٹا کے ساحل پر اتار دوں گا۔۔۔!"
"پھر مجھے کیا کرنا ہو گا۔۔۔؟"
"فراگ کی بجائے میری منتظر رہنا شاہی محل میں۔۔۔!"
"بہت بہتر جناب عالی! اب میں خود کو بالکل محفوظ سمجھ رہی ہوں۔"
"شاباش!مجھے ایسے ہی یقین اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ اور فراگ کی تو اب میں کھال کھینچ لوں گا۔۔۔!"
ام بینی کچھ نہ بولی۔ کنگ چانگ نے کہا۔ "تھوڑی دیر بعد میں اسے تمہارے پاس بھجوا دوں گا۔ کھیل جاری رکھو!"
"بہت بہتر جناب عالی۔۔۔!"
وہ چلا گیا اور ام بینی اپنے دل میں بڑھتی ہوئی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔

پندرہ بیس منٹ بعد عمران کی شکل دکھائی دی۔ چہرہ ہونقوں کا سا ہو رہا تھا۔ آتے ہی بولو۔
"دیکھو! میں نے انہیں بتایا ہے کہ تم میری بیوی ہو اور مرگی کی مریضہ ہو! میرے بیان کی تردید نہ ہونے پائے۔ وہ ازراہ ہمدردی ہمیں بنکاٹا میں اتار دیں گے۔۔۔!"
ام بینی ہنس پڑی اور اس کے چہرے کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولی۔ "شکل تو دیکھو شوہر کی۔۔۔!"
"کک۔۔۔ کیوں۔۔۔ شکل کو کیا ہوا ہے۔۔۔؟"
"ایسا لگتا ہے جیسے کسی گدھے کو باندھ کر ڈنڈوں سے پیٹا گیا ہو۔۔۔!"
"بدتمیزی کرو گی تو جا کر کہہ دوں گا۔۔َ!"
"کیا کہہ دو گے۔۔۔؟!
"یہی کہ بیوی نہیں ہے مجھے بہلا پھسلا کر نکال لائی تھی۔۔۔!"
وہ ہنس پڑی اور پھر یک بیک سنجیدہ ہو کر غرائی۔ "تم نے میری کنپٹیاں دبا کر مجھے بیہوش کیوں کر دیا تھا۔ اگر مر جاتی تو۔۔۔؟"
"مر جاتیں تو مجھے دکھاوے کےلیے رونا بھی پڑتا اور مجھے ٹھیک سے رونا نہیں آتا۔ بڑی دشواری میں پڑ جاتا۔"
"مجھے تم بھی فراگ کی طرح پاگل معلوم ہوتے ہو۔"
"وہ پاگل نہیں بڑا عقلمند ہے کہ خود پیچھا چھڑا کر تمہیں میرے سر منڈھ دیا۔۔۔ اب ۔۔۔۔۔ کرے تم کشتی کے مالک کو پسند آ جاؤ اور وہ تمہیں مجھ سے چھین لے بدصورت ضرور ہے لیکن دل کا برا نہیں۔"
"کون ہے۔۔۔؟"
"میں نہیں جانتا۔ نام پوچھا تھا، کہنے لگا تمہیں اس سے کیا سروکار، بہرحال تم دونوں کو حفاظت سے بنکاٹا پہنچا دیا جائے گا۔"
"کہیں اس سے بھی نہ الجھ بیٹھنا۔"
عمران نے اپنے دونوں کان پکڑے اور پھر گالوں پر تھپڑ لگانے لگا۔
"تمہارے یہی معصوم انداز تو مجھے بے چین کر دیتے ہیں۔" وہ ہنس کر بولی۔
"وہ سب ٹھیک ہے! لیکن میں پرنسز کو تمہارے بارے میں کیا بتاؤں گا۔۔۔؟"
"اس سے بھی کہہ دینا بیوی ہے، تابیتی میں شادی کر لی تھی۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔ نہیں! میں پرنسز سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔۔۔!
"میں سمجھتی ہوں! ہربنڈا کی عدم موجودگی میں اس نے تم جیسے درجنوں پالے ہوں گے۔"
"سن اے بیوقوف لڑکی! میں تیری گردن مروڑ دوں گا۔ اگر تو نے پرنسز کے تقدس پر حملہ کیا۔۔۔!"
"بس بگڑ گئے۔ میں تو صرف اندازہ لگانا چاہتی تھی کہ محل میں تمہاری کیا حیثیت ہے۔؟"
"ٹالابو آ کا ایک ادنٰی زر خرید غلام ہوں۔"
"خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ تم کچھ بھی ہو! میں تو تمہاری مھبت میں پاگل ہوئی جا رہی ہوں۔"
"تمہیں بھی دیکھ لوں گا۔۔۔!" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"کہا مطلب۔۔۔؟"
"مجھے لفظ محبت، گالی معلوم ہونے لگا ہے۔"
"کیسی بیوقوفی کی باتیں کر رہے ہو، چلو ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔۔۔!"
"سچ مچ شادی تو نہیں ہوئی۔"
"اچھا دفع ہو جاؤ گدھے کہیں کے۔" وہ چڑھ گئی۔
دوسرے دن سہ پہر کو لانچ بنکاٹا کے ایسے ساحل سے جا لگی تھی جہاں دور دور تک کوئی کشتی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ وہ دونوں لانچ سے اتار دیئے گئے۔
لانچ پھر وہاں سے کہیں اور روانہ ہو گئی تھی۔ ام بینی نے مایوسی سے چارون طرف نظر دوڑائی اور مضمحل سی آواز میں بولی۔" پھر وہی مصیبت! شاید پیدل ہی چلنا پڑے گا۔"
"ہر گز نہیں۔ لانچ سے وائر لیس کے ذریعے بنکاٹا اطلاع بھجوا دی گئی تھی۔۔۔ بڑے اچھے لوگ تھے بیچارے۔"
"تو پھر اب کیا ہو گا۔۔۔؟"
"تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی آئے گی اور ہمیں شہر پہنچا دے گی۔"
پھر شاید پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک چمچماتی ہوئی لمبی سی کار وہاں آ رکی جسے ایک باوردی فوجی ڈرائیو کر رہا تھا اور برابر والی سیٹ پر جیمسن موجود تھا۔۔۔ اس نے ام بینی کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھا اور عمران کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔
"آپ کی تعریف حضور والا۔۔۔؟" اس نے عمران کو اردو میں مخاطب کیا۔
"انعام الرحمن۔۔۔!"
"میں نہیں سمجھا۔۔۔؟"
"نام نہیں ہے! مطلب تھا رحم کرنے والے کی طرف سے انعام۔" عمران نے ام بینی کے لیے گاڑی کی پچھلی نشست کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
"تت تم کس زبان گفتگو کر رہے تھے۔۔۔؟ ام بینی سے اس سے پوچھا۔
"اسپینی میں۔۔۔"
"یہ داڑھی والا کون ہے۔۔۔؟"
"پرنس کا باڈی گارڈ ! کچھ دیر زبان کو آرام بھی کرنے دو۔۔۔!"
گاڑی واپسی کے لیے مڑی۔
"کیا میں بھی ان خاتون سے فرانسیسی میں گفتگو کر سکتا ہوں یور مجسٹی!" جیمسن نے عمران سے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تمہیں زکام ہو جائے گا۔ بہت ٹھنڈے مزاج کی ہے۔"

ظفر اور جیمسن متحیر تھے۔ حیرت کی بات بھی تھی۔ عورت کے نام پر بدکنے والا جوزف ام بینی سے اس طرح گفتگو کرتا تھا۔۔۔ جیسے قربان ہوا جا رہا ہو۔۔۔ ایسے مواقع پر وہ ان دونوں کو شہزادوں ہی کی سی شان سے ڈانٹ ڈپت کر کمرے سے باہر نکال دیا کرتا تھا۔

ٹالابو آ نے بھی بالآخر اس کا نوٹس لیا اور ان دونوں کو طلب کر کے بیحد غصیلے لہجے میں بولی "یہ تمہارا باس کون سی بلا اٹھا لایا ہے آخر اس کا مقصد کیا ہے۔۔۔؟"
"باس کہہ رہا تھا کہ وہ اس کی منگیتر ہے۔۔۔" ظفر نے بڑے ادب سے جواب دیا۔
"لیکن وہ تو پرنس پر دھاوا بول بیٹھی ہے۔۔۔!"
"ہم ایسا نہیں سمجھتے یور ہائی نس! باس ہی کے حکم کے مطابق وہ صرف پرنس کا دل بہلاتی ہے۔ باس کا خیال ہے کہ اس طرح پرنس کے مزاج میں نرمی پیدا کر کے انہیں شاہ سے معافی مانگنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔"
"لیکن میرا خیال ہے کہ اس کوشش میں شاید میں ہی ڈوب جاؤں۔۔۔" ٹالابو آ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
"مایوسی کی باتیں نہ کیجیئے یورہائی نس۔۔۔!"
"آخر اب تمہارا باس کہاں غائب ہو گیا۔۔۔؟"
"انہیں خدشہ ہے کہ کہیں کنگ چانگ پھر کوئی شرارت نہ کرے۔ اس لیے وہ محل سے دور ہی رہ کر نگرانی کر رہے ہیں۔"
"کیا لوئیسا بھی اس کے ساتھ گئی ہے؟ کل سے نہیں دکھائی دی۔۔۔"
"اس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں۔۔۔!"
"خدا ہی جانے کیا ہو رہا ہے۔۔۔!"
"آپ بے فکر رہیے۔ بہتر ہی ہو گا۔۔۔!"
"ہربنڈا تو ایسا نہیں تھا۔۔۔!"
"واقعی وہ ایسے نہیں ہیں! حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں بھی اصل معاملے کا علم نہیں ہے۔ ورنہ ہم آپ کو مطمئن کر دیتے۔"
"اچھا جاؤ۔ میں اب آرام کرنا چاہتی ہوں۔" وہ تھکی تھکی سی آواز میں بولی۔
دوسری طرف ام بینی اب براہ راست "کنگ چانگ" کے احکامات وصول کر رہی تھی اور انہیں احکامات کے مطابق اپنی دانست میں جوزف اور عمران پر اپنی گرفت مضبوط کرتی جا رہی تھی۔ یہاں اسے فرانسیسی لڑکی لوئیسا بھی دکھائی دی تھی جو عموما عمران سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہتی تھی۔ نہ جانے کیوں ام بینی کو اس پر بہت غصہ آتا تھا۔ اس وقت بھی جب وہ جوزف کے کمرے میں جا رہی تھی لوئیسا سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔۔۔ وہ تو نکلی چلی گئی ہوتی لیکن لوئیسا ہی نے اس کا راستہ روکا تھا۔۔۔
"یہ بیوقوف آدمی تمہیں کہاں سے پکڑ لایا ہے؟" اس نے مضحکانہ انداز میں ام بینی سے پوچھا۔
"ہوش کی دوا کرو، وہ میرا شوہر ہے۔"
"لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ تم سے بھاگا بھاگا پھرتا ہے۔"
"شاید بنکاٹا کا یہی رواج ہے!" ام بینی تلخ لہجے میں بولی۔ "یہی چیزیں میں پرنس اور پرنسز کے درمیان بھی محسوس کرتی ہوں۔"
"کچھ بھی ہو! تمہارا مصرف میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔" لوئیسا نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
"ہٹو سامنے سے مجھے جانے دو۔۔۔!" ام بینی کو غصہ آ گیا۔
لوئیسا نے شانے سکوڑے اور راستے سے ہٹ گئی، ٹھیک اسی وقت عمران ایک کمرے سے برآمد ہوا اور لوئیسا چہک کر بولی۔ "تم جتنے خوش مزاج ہو اتنی ہی نکچڑی بیوی تم نے تلاکی ہے۔!"
"آج کل کنٹراسٹ ہی کا فیشن چل رہا ہے۔" عمران نے لاپرواہی سے کہا۔ ام بینی ان کی گفتگو سننے کے لیے نہیں رکھی تھی۔
"سوال یہ ہے کہ اس لڑکی کا مصرف کیا ہے۔۔۔؟" لوئیسا عمران کو گھورتی ہوئی بولی۔
"گلے پڑ گئی ہے تو کیا کروں۔۔۔؟" کوڑے کے ڈھیر پر تہ پھینکی نہیں جا سکتی۔ آدمی کا بچہ ہے ۔۔۔ تم فکر نہ کرو مصرف نکال لینا میرا کام ہے۔"
ٹالابو آ اس کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔۔۔ اور وہ کلوٹا یا تو اتنا خشک مزاج تھا یا اٹھارویں صدی کے عشاق کی طرح عقل سے خارج ہوا جا رہا ہے۔۔۔!
"وہ بھی آدمی کا بچہ ہے۔۔۔!"
"تم کیا بلا ہو۔۔۔؟" وہ جھنجھلا گئی۔
"اپنے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہین کہہ سکتا۔"
"اگر لڑکی اپنے لیے پسند کی تھی تو اس کلوٹے کے حوالے کیوں کر دی۔۔۔؟"
"ماموزئیل لوئیسا۔۔۔ میں نے اتنا طویل سفر عشق کرنے کے لیے نہیں کیا ہے۔۔۔ میرے ملک میں قدم قدم پر اس کے مواقع موجود ہیں۔"
لوئیسا کچھ کہنے ہی والی تھی کہ جوزف دہاڑتا ہوا اپنے کمرے سے نکلا اور عمران کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس کے پیچھے ام بینی تھی۔
"یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔!" جوزف عمران کی طرف ہاتھ اٹھا کر ہکلایا۔ "مجھے آخر پاگل ہونے جانے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔۔۔؟"
"کیا ہوا، یور ہائی نس؟" عمران نے آگے بڑھ کر کہا۔
"کیا یہ لڑکی اسی لیے لائی گئی ہے کہ مجھے بہکائے۔۔۔!"
"یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟"
"یہ بھی کہی کہہ رہی ہے کہ اپنے باپ سے معافی مانگ لوں۔۔۔!"
"ہر شریف آدمی یہی کہے گا۔۔۔!"
"یہ ناممکن ہے۔!" جوزف دھاڑا۔ "اس سے بہتر تو یہ ہو گا کہ میں سمندر میں چھلانگ لگا دوں۔"
"نہیں یور ہائی نس! میں کبھی نہ چاہوں کگا کہ بحرالکاہل بحر اسود بن جائے۔۔۔!"
"میں نے آگاہ کر دیا ہے۔" جوزف ہاتھ اٹھا کر دہاڑا۔
پھر تو اچھا خاصہ ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ محل کے ہر فرد کو یہ بات معلوم ہو گئی کہ ہربنڈا اپنے باپ سے معافی نہیں مانگے گا۔ دو گھنٹے بعد ٹالابو آ نے انتہائی سراسیمگی کے عالم میں عمران کو بتایا کہ یہ خبر بادشاہ بنکاٹا تک جا پہنچی ہے۔
"میں اپنے طور پر پرنس کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ " وہ روہانسی ہو کر بولی۔ " کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ ہربنڈا بادشاہ سے معافی نہ مانگنے پر اصرار کر رہا ہے۔"
"تت۔۔۔ تو۔۔۔ پھر اب کیا ہو گا؟ عمران خوفزدہ لہجے میں ہکلایا۔
"شاہی خاندان میں نافرمانی کی سزا اذیت ناک موت ہے! تم دیکھ لینا، کچھ دیر بعد شاہی مہلت یہاں پہنچ جائے گا۔"
"یہ کیا ہوتا ہے؟"
"وقت کا تعین کر دیا جائے گا۔ اگر اس مدت میں ہربنڈا نے معافی نہ مانگی تو پھر۔۔۔ خدا جانے کیا ہو۔۔۔؟" "سمجھاؤ ہربنڈا کو۔۔۔!"
"میرا خیال ہے کہ آپ پرنس کو مر ہی جانے دیجئے۔"
"اپنی زبان کو لگام دو۔" ٹالابو آ تیز لہجے میں بولی۔
"یور ہائی نس۔ بکری انڈے دے سکتی ہے لیکن وہ اپنی بات سے نہیں ہٹ سکتے۔"
اتنے میں لوئیسا بھی آ گئی اور اسے بھی مشاورت میں شریک کر لیا گا۔۔۔ اس نے پُر تشویش لہجے میں کہا۔ "یہ تو بہت برا ہوا یور ہائی نس۔۔۔ اب کیا ہوگا۔ بنکاٹا فرانس کے زیرنگیں ہے لیکن بادشاہ اپنے خاندان کے سلسلہ میں ذاتی قوانین نافذ کر سکتا ہے۔ اس میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ فرانس کی حکومت اس میں دخل اندازی نہیں کر سکے گی۔"
"تو پھر خدارا۔۔۔ اسے یہاں سے نکال لے جاؤ۔۔۔" ٹالا بو آ گڑگڑائی۔
"تم ہی لوگ ہائے تھے۔۔۔ لہٰذا اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لو۔"
"ہاں۔۔۔ آں۔" عمران پُر تفکر لہجے میں بولا۔ "اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔"
"جو کچھ بھی سوچنا ہے جلدی سوچو۔۔۔!"
"مہلت نامہ اور وارننگ آ جانے دیجیئے۔ اسی کی مناسبت سے کام کیا جائے گا۔" عمران بولو۔
"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ میری تو عقل ہی خبط ہو کر رہ گئی ہے۔"
عمران اور لوئیسا باہر نکلے۔ وہ اسے عجیب سے نظروں سے گھورے جا رہی تھی۔ دفعتا بولی۔ "اوپر سے اُلو اور اندر سے بالکل لومڑی ہو۔"
"کیوں؟ کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے۔۔۔؟"
"بالآخر اسی کی زبان سے کہلوا لیا کہ ہربنڈا کو یہاں سے نکال لے جاؤ۔"
"اس کے تعاون کے بغیر نکال لے جانا آسان نہ ہوتا۔۔۔"
"لیکن وہ اس پر ہرگز تیار نہ ہو گی کہ تم اسے موکارو لے جاؤ۔۔۔!"
"اسے ظاہر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔؟"
لوئیسا چند لمحے کچھ سوچتی رہی پھر بولی۔ "مناسب یہ ہو گا کہ اس سے پوچھ ہی لیا جائے۔ شاید وہ خود ہی کوئی جگہ بتا سکے۔ اس طرح ہم اس جگہ کے بہانے نہایت اطمینان سے ۔۔۔۔۔ کو موکارو لے جا سکیں گے۔"
"تمہاری تجویز اچھی معلوم ہوتی ہے۔" عمران بولا۔
"شکریہ!" وہ مسکرائی۔ "شاید پہلی بار تم کسی امر پر مجھ سے متفق ہوئے ہو۔"
"اتفاق ہے۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لی۔
اس لڑکی میں کیا رکھا ہے۔۔۔؟"
"ہائیں۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے، کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔"
"میں آدمی بھی تو ہوں۔۔۔ احساسات و جذبات سے یکسر عاری تو نہیں۔"
"میں صرف فرائض کی ادائیگی میں مشین ہوں! احساسات و جذبات ہی نے دنیا کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔"
"کیا بات ہوئی۔۔۔؟"
"کچھ بھی نہیں۔۔۔ جاؤ اپنا کام دیکھو! اسٹیمر کے کپتان سے کہو کہ ہر وقت روانگی کے لیے تیار رہے۔۔۔!"
"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔" وہ برا سا منہ بنا کر بولی اور آگے بڑھ گئی۔

چاندنی رات تھی اور سمندر معمول کے مطابق پرسکون تھا۔ فراگ کی لانچ موکارو سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی لیکن اس کا رخ بندرگاہ کی طرف نہیں تھا۔
لانچ کیا تھی، ایک پُرتکلف عشرت گاہ تھی۔ اس وقت فراگ کے کیبن میں جشن برپا تھا۔ للی ہاروے گا رہی تھی، اور فراگ کا غیر ملکی قیدی گیت کی لے پر تھرک رہا تھا۔ فراگ کی آنکھوں میں شرارت آمیز چمک لہرا رہی تھی۔
"بس کرو، بیٹھ جاؤ!" وہ ہاتھ ہلا کر قیدی سے بولا۔ "تھک جاؤ گے بہت کام کرنا ہے۔"
"جو حکم یور آنر۔۔۔!" قیدی نے کہا اور فراگ کے سامنے بیٹھ گیا۔
"للی! تم بھی خاموش ہو جاؤ۔"
"او کے باس!" اس نے کہا اور گیٹار ایک طرف رکھ دیا۔
"تم جا سکتی ہو! اب ہم باتیں کریں گے۔" فراگ بولا۔
للی احتراما خم ہوئی اور گیٹار وہیں چھوڑ کر کیبن سے باہر نکل گئی۔
فراگ قیدی کو ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔
"اگر تم نے مجھ سے کوئی چال چلنے کی کوشش کی تو بھگتو گے۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا آہستہ سے بولا۔
"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یور آنر۔۔۔ میں آپ کا احسان مند ہوں، آپ نے مجھے ویسی ہی لڑکی بخش دی ہے جیسی میں چاہتا تھا۔"
"یقینا للی اب تمہاری ہے! لیکن کام کے اختتام تک وہ لانچ ہی پر رہے گی۔ ہمارے ساتھ نہیں جائے گی۔۔۔!"
"کک ۔۔۔ کیوں۔۔۔؟"
"میں احمق نہیں ہوں! شاید تمہاری نیت میں فتور آ جائے! پہلے کام پھر انعام۔۔۔!"
"اگر آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں تو یہی سہی۔" قیدی نے کہا۔ "لیکن ایک بار پھر آپ کو آگاہ کر دوں کہ دھوئیں کے اس حصار کو پار کرنا ممکن نہ ہو گا۔"
"دراصل اس وقت میں اسی کے بارے میں تفصیل سے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔"
"لیکن میں کیا عرض کروں، یور آنر۔۔۔ میں اس راستے موکارو سے باہر ضرور نکلا تھا لیکن مجھے اس کا ہوش نہیں کہ دھوئیں کی دیواریں میں نے کیسے پار کی تھیں؟"
"کیا بات ہوئی۔۔۔؟"
"گھر پر بیہوش ہوا، اور آنکھیں اس چٹان پر کھلیں جس سے ایک لانچ لگی کھڑی تھی۔۔۔!"
"پہلی بار ایسا ہوا ہے۔۔۔؟"
"نہیں! بارہا میں دوسرے کاموں کے سلسلے میں اسی طرح موکارو سے باہر جا چکا ہوں۔۔۔!"
(ختم شد صفحہ 139)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top