کملاثریا کا انتقال

ابن جمال

محفلین
ہندوستان میں انگریزی اور ملیالم زبان کی مشہور و معروف شاعر اور ادیب کملا ثریا عرف کملا داس کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی عمر پچھتر برس تھ اور وہ کچھ دنوں سے بیمار تھیں۔

وہ پونے کے جہانگیر اسپتال میںزیر علاج تھیں۔ جہاں اتوار کی صبح انہوں نے آخری سانسیں لیں۔ کملا ثریا نے اپنے پیچھے دو بیٹے چھوڑے ہیں۔

کملاثریا اکتیس مارچ سنہ انیس سو چونیتیس میں کیرالا کے ایک براہمن خاندان میں میں پیدا ہوئی تھیں ان کا اصل نام کملا داس تھا۔ ان کی رومانی اور نسائی شاعری پر کئی بار فحاشی کا بھی الزام لگایا گیا تاہم دس برس قبل انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کے بعد سے اسلامی شعار کے مطابق وہ پردہ کرتی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی انہوں نے اپنا نام کملا داس کی جگہ کملا ثریا رکھ لیا تھا۔

ان کی رومانوی اور نسوانی شاعری پر کئی بار فحاشی کا بھی الزام لگا تاہم دس برس قبل انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کے بعد سے اسلامی شعار کے مطابق وہ پردہ کرتی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی انہوں نے اپنا نام کملا داس کی جگہ کملا ثریا رکھ لیا تھا
کملاثریا مینیجمنٹ کے ماہر وی ایم نائر اور اس دور کی مشہور ملیالم شاعرہ بالامانیمیمّا کی بیٹی تھیں اور انہیں انگریزی اور ملیالم زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ انہیں ان کے بے باک افسانوں اور محبت بھری نسوانی شاعری کے لیے عوام میں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے افسانے ان کی مادری زبان ملیالم ہیں جبکہ ان کی بیشتر شاعری انگریزی زبان میں ہے۔ ملیالم میں وہ مادھوی کٹّی کے نام سے لکھتی تھیں۔

کملا ثریا کو بچپن سے ہی شاعری میں دلچسپی تھی اور آٹھ برس کی عمر میں انہوں نے وکٹر ہیوگو کی تحریروں کا اپنی مادری زبان میں ترجمہ کیا۔ ادبی دنیا میں انہیں ان کی پہلی کتاب ’سمر ان کلکتہ‘ سے شہرت ملی اور اسی سے انہیں انقلابی ادیبوں کی فہرست میں بھی جگہ مل گئی۔ ان کی بیشتر تحریروں میں مردوں کے تسلط والے سماج میں خواتین کی بے بسی کا تذکرہ ہے اور ان کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی گئی ہے۔

ان کی شاعری خواتین کے جذبات و احساسات سے پر ہے۔ ادیبوں کے مطابق کملا ثریا نے اپنی شاعری میں الفاط کا استعمال کم لیکن بہت معنی خیز انداز میں کیا ہے۔ ایسے وقت جب خواتین کی آزادی پر بات کرنا بھی ممنوع سمجھا جاتا تھا کملا نے ان کی جنسیات پر کھل کر شاعری کی جس کے لیے ان پر نکتہ چینی بھی ہوئی۔


کملا ثریا بہت حساس طبیت کی عورت تھیں جنہوں نے اپنی تحریروں میں اصولوں کی پرواہ نہیں کی
ان کی این اٹروڈکشن، دی ڈیزیڈنٹ، الفابیٹ آف لسٹ، اور '' اونلی سول نوز ہاؤ ٹو سنگ'' جیسی شاعری کی کتابیں عوام میں زبردست مقبول ہوئیں۔ لیکن ان کی خود نوشت ’مائی سٹوری‘ پر تنازع بھی ہوا جس میں انہوں نے شادی شدہ خواتین کے لیے جنسی آزادی کی باتیں کیں۔

سنہ انیس سو نناوے میں انہوں نے جب اسلام قبول کیا تب بھی اپنے بعض بیانات کے سبب وہ بحث کا موضوع بنیں۔ ان سے منسوب ایک بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ کبھی بھگوان کرشن کے گن گان کرتی تھیں لیکن اب انہوں نے اسے اللہ میں تبدیل کر دیا ہے اور انہیں پیغمبر اسلام کے فیچرز سمجھ میں آتے ہیں، پر کافی تنازعہ ہوا تھا۔

کملا ثریا کو ان کی شاعری کے لیے ایشین پوئٹری پرائز، کینٹ ایوارڈ فار انگلش راٹنگ، آسیان ورلڈ پرائز ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور کیرالا ساہتیہ جیسے انعامات سے نوازہ گيا۔

لکھنے پڑھنے کے علاوہ کملا ثریا کو انسانی حقوق کے کاموں میں بھی دلچسپی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے ایک سیاسی پارٹی بھی تشکیل دی تھی۔ پارلیمان تک پہنچنے کے لیے سنہ انیس سو چوراسی میں انہوں نے انتخاب میں بھی حصہ لیا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔
بی بی سی اردو

1999میں انہوں نے استعمال قبول کرلیا۔ان کے قبول اسلام کی داستان بھی دلچسپ ہے انہوں نے دو یتیم مسلم لڑکوں کی کفالت اپنے ذمہ لیا۔ اس کے بعد ان کو محسوس ہوا کہ ان یتیم لڑکوں کو ان کے اپنے مذہب کی تعلیم دینی ہے اوراس کام کیلئے وہ خود تیار ہوئیں۔ لیکن اسلام سے ناواقف تھیں توانہوں نے اسلام کامطالعہ شروع کیا اوراوراسلام کے اصولوں سے متاثر ہوکر اورخاص طور پر اسلام کے پردہ کے اصول سے متاثرہوکر انہوں نے اسلام قبول کیا۔
وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ان کے انتقال پر تعزیت کااظہار کرتے ہوئے کہاہے ان کی موت سے انگریزی اورملیالم شاعری میں ایک خلاپیداہوگیاہے جس کا پرکرنا آسان نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ بھی ہندوستان کے ادیبوں نے ان کے انتقال پر پراثرالفاظ میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیاہے۔
 
Top