کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں۔ انشاء اللہ خان انشاّ‌کی مشہور غزل

طارق شاہ

محفلین
انشاءاللہ خان انشاء
پروفیسر مرزا سلیم بیگ

”ایسا طباع اور عالی دماغ ہندوستان میں کم ہی پیدا ہوا ہوگا۔ وہ اگر علوم میں سے کسی ایک کی طرف متوجہ ہوتے تو صد ہا سال تک وحید العصر گِنے جاتے، طبیعت ایک ہیولیٰ تھی کہ ہر قسم کی صورت پکڑ سکتی تھی۔“ (محمد حسین آزاد ، آبِ حیات)

انشاءکے دادا سید نُوراللہ خاں نجف میں طبابت کرتے تھے کہ بادشاہ دہلی فرخ سیئر نے اُنھیں اپنے علاج کے لیے ہندوستان کا بُلاوا بھیجا۔ وہ اپنے فرزند میر ماشاءاللہ خاں کے ہم راہ ہندوستان آئے اور بادشاہ کا علاج کیا۔ صحت یابی کے بعد بادشاہ نے اُنھیں خوب نوازا۔ چناںچہ وہ یہیں کے ہورہے۔ ان کے فرزند میر ماشاءاللہ خاں جوانی میں مُرشد آباد چلے گئے تھے وہیں انھوں نے دو شادیاں کیں، انشاءاللہ خاں ان کی دوسری بیوی کے بطن سے تھے۔

ولادت: انشاء1169ھ یا 1170ھ میں پیداہوئے۔ یہ نواب سراج الدولہ کے نہایت مختصر دورہ حکومت کا زمانہ ہے۔
وطن: نواب قاسم علی خاں کے زمانے (1177ھ/ 1736) میں انشاءاپنے والد مخیّر الدولہ، سید الممالک، حکیم میر انشائ خاں اسد جنگ، جعفری الحسینی کے ہم راہ مرشد آباد سے نواب شجاع الدولہ کے دارلحکومت لکھنوآگئے۔ اُس کے بعد جب پایہ تخت (1179ھ) فیض آباد منتقل ہوا یہ لوگ بھی فیض آباد آگئے۔ نواب شجاع الدولہ نے حکیم ماشاءاللہ کو جاگیر سے بھی نوازا۔ یہ انشاءکے بچپن کا زمانہ تھا۔ بعد میں وہ دِلّی اور اُس کے بعد لکھنو میں قیام پذیر رہے۔
قابلیت: کم عمری میں ہی انشاءنے صرف و نحو ، منطق و حکمت، فقہ و حدیث، فلسفہ و طب کے ساتھ ساتھ دیگر علوم متداولہ مثلاً زبان و قواعد، لغت و لسانیات، روز مرّہ و محاورہ ، فن شاعری اور علم عروض کی تعلیم حاصل کی۔ سولہ سال کی عمر میں نواب شجاع الدولہ بہادر علیہ الغفر کے حضور میں داخل جلسہ ہوئے۔ وہاں اپنی خوش تقریری اور حسنِ تکلّم سے جلد ہی ممتاز ہوگئے۔ اِسی زمانے میں اپنا ردیف واراردو دیوان مرتب کیا جس میں کچھ اشعار فارسی اور عربی کے ہیں۔ اُردو شاعری میں انشاءکسی کے شاگرد نہ تھے البتہ فارسی میں مرزا فاخر مکین سے مشورہ کرتے تھے۔ انھیں اُردو، فارسی، عربی اور ترکی زبانوں پر عبور تھا۔ پنجابی، بنگلہ، مارواڑی، کشمیری، پوربی، برج بھاشا، راجستھانی اور مرہٹی سے گہری واقفیت تھی۔ اِن سب کے قدم بہ قدم انگریزی سے بھی نامانوس نہ تھے۔
نہ صرف اُن کی علمی استعداد بہت اچھی تھی، اُن کا حافظہ بھی کمال کا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ انھوں نے یہ تمام صلاحیتیں پیشہ ندیمی کی نذر کردیں۔
دربار سے وابستگی: انشاءمجموعی طور پر تین درباروں سے وابستہ رہے۔ اوّل اوّل جب مرشد آباد سے دِلّی آئے تو شاہ عالم کے دربار سے تعلق بنالیا اور خوب رنگ جمایا۔ مگر دِلّی والوں نے انشاءکو دل سے قبول نہ کیا۔ انشاءبھی ذہین آدمی تھے اِس لیے فوراً بھانپ گئے ۔ دِلّی کی سکونت ترک کرکے عازمِ لکھنوہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غلام قادر روہیلہ شاہ عالم کا نقد بصارت لوٹ کر جاچکا تھا۔ لکھنومیں انھوں نے مرزا سلیمان شکوہ کے دربار سے وابستگی اختیا رکی۔ کلام پر اصلاح بھی د ینے لگے کہ اُن کی شہرت اور نام وری کے قصّے سن کر نواب سعادت علی خان نے انھیں اپنے دربار سے وابستہ کرلیا اور ایسے شیروشکر ہوئے کہ نواب کو انشاءکے سوا کسی کی صحبت میں لطف ہی نہ آتا تھا۔
تصانیف:
(۱) دریائے لطافت: (1222ھ) اِس نثری تالیف کا موضوع اُردو زبان اور اُس کے قواعد ہے۔ اس کے مرتب انشاءاور اُن کے ہم عصر مرزا محمد حسن قتیل ہیں۔ دونوں نے اس کتاب کے دو دو نام تجویز کیے۔ انشاءنے جو دو نام تجویز کیے(۱) ”ارشاد ناظمی“ اور(۲) بحر السعادت“ ہیں۔ یہ دونوں نام رکھنے کا سبب یہ ہے کہ یہ کتاب ناظم الملک بہادر نواب سعادت علی خاں کے حکم پر ترتیب دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ انشاءکے تجویز کردہ دونوں ناموں میں اُن کا نام موجود ہے۔ جب کہ مرزا قتیل نے ”دریائے لطافت“ اور ”حقیقت ِ اردو“ کے نام تجویز کیے۔ قصّہ مختصر یہ کتاب ”دریائے لطافت“ کے نام سے موسوم و مشہور ہے۔
(۲)لطائف السعادت: انشاءنے اِ س کتاب میں نواب سعادت علی خاں کے دربار میں پیش آنے والے روز مرّہ کے دل چسپ واقعات کو یک جا کیا ہے۔اِس کا آغاز دریائے لطافت سے پہلے ہوالیکن اختتام بعد میں۔ اِس کے مطالعے سے دربار کی اندرونی فضا اور نواب موصوف کے مزاج کا پتا چلتا ہے۔
(۳) روزنامچہ:انشاءکا یہ روزنامچہ جو ترکی زبان میں ہے اب ناپید ہوچکا ہے، البتہ اس کے کچھ حصّے متفرق صورتوں میں دست یاب ہیں۔ جن کا اُردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
(۴) مطرالمرام: یہ دراصل ”طور الکلام“ کی نہ صرف فارسی زبان میں شرح کی ہے بلکہ اِس میں نئے نئے واقعات اور متعدد علمی پہلوﺅں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ”طور الکلام“ انشاءنے حضرت علی کی منقبت میں ایک نقط اُردو قصیدہ لکھا تھا۔ اِسی نسبت سے انھوں نے اِس شرح کو یہ نام دیا۔
(۵) کہانی رانی کیتکی اور کنورادے بھان کی (1223ھ) : یہ ایک سادہ اور مختصر کہانی ہے۔ اس کی نوعیت بھی تجرباتی ہے۔ یہ اور اُن کی دوسری کہانی ”سلک گوہر“ دونوں مل کر اُستادشاعر انشاءکو فکشن رائٹر بھی ثابت کرتی ہیں۔
(۶) سلکِ گوہر: یہ انشاءکی دوسری کہانی ہے۔ اِس میں انشاءنے غیر منقولہ نثر لکھنے کا تجربہ کیا ہے۔

آخری زمانہ:
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ انشاءکی طبیعت میں شوخی اور جولانی دونوں تھیں۔ اِ س لیے لطائف اور چٹکلے بھی خوب سُناتے تھے۔ گل افشانی کرکے محفل کولوٹ پوٹ کردیتے تھے۔ کہتے ہیں ”تیراک کی موت پانی میںہوتی ہے‘۔ انشاءکو بھی اُن کی مصاحبت اور بذلہ سنجی لے ڈوبی اور وہ کہاوت سچ ہوگئی کہ حاکم کی اَگاڑی اور پچھاڑی دونوں خطرناک ہوتی ہیں۔ جب نہال ہوئے تو موتی لٹادیے۔ خزانے بخش دیئے اور ناراض ہوئے تو پھانسی پہ لٹکوادیا۔میر نے کہا تھا:
خوش زم زمہ طیور ہی ہوتے ہیں میر اسیر
مجھ پر ستم یہ صبح کی فریاد سے ہوا
انشاءکے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ایک دن حسبِ معمول دربار میں محفل سجی تھی۔ انشاءبلبل کی طرح چہک رہے تھے اور نواب کے ساتھ ساتھ اہلِ دربار بھی خوب لُطف اندوز ہورہے تھے، بعض خاندانی شرفاءکی شرافت و نجابت کے تذکرے ہورہے تھے۔ سعادت علی خاں نے کہا ”کیوں بھئی! ہم بھی نجیب الطرفین ہیں؟“ اَب اِسے تقدیر کہا جائے یا زود گوئی کا نتیجہ، انشاءبول اٹھے۔ ”حضور نجیب الطرفین نہیں بلکہ انجب….“ بس غضب ہوگیا۔ کیوں کہ سعادت علی خاں ایک لونڈی کے بطن سے تھے اور انجب کے دو معنی ہوتے ہیں۔ ایک لونڈی زادے کے اور دوسرے جو ماں باپ اور خاندان، ہر طرف سے اعلیٰ نسب ہو۔ سعادت علی خاں لونڈی کے بطن سے تھے اِس لیے انھوں نے سمجھا کہ انشاءنے اُن پر چوٹ کی ہے۔ جب کہ اُن کا یہ مطلب نہ تھا۔ لیکن اُسی دن سے سعادت علی خاں نے دل میں کینہ پال لیا اور موقع تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح انشاءکو زِچ کیا جائے۔ اَب نواب کے انداز بدلنے لگے۔ انشاءنے بہت چاہا کہ اُن کے دل سے یہ کانٹا نکل جائے۔ لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ اِسی پر بس نہیں۔ ایک دن اور انشاءنے اپنی اِسی زود گوئی کے سبب اپنی بربادی کا سامان کرلیا۔ ہوا یوں کہ انشاءنے نواب کو پھڑکتا ہوا لطیفہ سنا دیا۔ نواب نے کہا ”انشاءجب کہتا ہے ایسی ہی بات کہتا ہے کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی۔“ انشاءجذبات میںآکر بولے۔”حضور کے اقبال سے قیامت تک ایسے ہی کہے جاﺅں گا کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو۔“ نواب تو تاک میں تھے، فوراً بولے”بس زیادہ نہیں دو لطیفے روز سنا دیا کیجیے۔ مگر شرط یہی ہے کہ نہ دیکھے ہوں نہ سنے ہوں۔ نہیں تو خیر نہ ہوگی۔“ انشاءسمجھ گئے کہ یہ انداز اور ہیں۔ گلیوں بازاروں میں پھرتے تھے اور ایک ایک سے کہتے تھے کہ کوئی نیا لطیفہ سنا دو۔ پھر”مرے پہ سو دُرّے“ یہ ہواکہ نواب نے ایک دن انھیں بلوایا۔ مگر یہ کہیں اور گئے ہوئے تھے۔ نواب کو جب پتا چلا کہ وہ کسی اور امیر کے ہاں گئے تھے تو فوراً بلوایا اورحکم دیا کہ ہمارے علاوہ کسی اور کے ہاں مت جایا کرو۔ گھرسے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔ اِسی دوران اُن کا جوان بیٹا مر گیا۔ اِس صدمے سے حواس مختل ہوگئے۔ پھر نواب نے اُن کی تنخواہ بھی بند کردی۔ نواب سعادت یار خاں رنگین، انشاءکے جگری یار تھے۔ آزاد نے آب حیات میں اُن کے حوالے سے کئی دل خراش واقعات نقل کیے ہیں:
”رنگین لکھنؤ کی کسی سرائے میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ معلوم ہوا قریب ہی کہیں مشاعرے کا اہتمام ہے۔ یہ بھی شریک ہوگئے۔ اچانک ایک شخص میلی کچیلی روئی کی مرزئی پہنے آیا، سلام کرکے بیٹھ گیا، پوچھا کہ وہ مشاعرہ کیوں نہیں ہوا۔ کسی نے جواب دیا ابھی اور لوگ جمع ہوجائیں تو شروع ہوگا۔ وہ بولے ہم تو اپنی غزل پڑھ دیتے ہیں یہ کہہ کر غزل نکالی اور کاغذ پر دیکھ کر پڑھنی شروع کردی۔

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب تیار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری، راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں

بسانِ نقش پائے رہ رواں، کوئے تمنّا میں
نہیں اُٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے اُفتادگی سے اَب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں

کہاں صبر و تحمل آہ، ننگ و نام کیا شئے ہے
میاں رو پیٹ کر اِن سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اِس دور میں یارو
جہاں پوچھو، یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

یہ مشہور غزل پڑھ کر کاغذ پھینک کر سلام کرکے چلے گئے، مگر زمین و آسماں میں سنّاٹا چھا گیا۔ مقطع سے پتا چلا کہ یہ سید انشاءتھے۔ رنگین نے بھی غزل سُن کرانھیں پہچانا۔ حال معلوم کیا تو بہت دُکھی ہوئے۔ پھر آخری بار جب اُن کے گھر گئے تو دیکھا، جس دروازے پر ہاتھی جھولتے تھے، وہاں خاک اُڑ رہی ہے اور کتّے لوٹ رہے ہیں۔ رنگین اَندر گئے تو اُن کی بیوی نے بتایا ”کہ اُن کی عجب حالت ہے۔“ دیکھا تو ایک کونے میں بیٹھے ہیں، سرزانو پر رکھا ہے۔ آگے راکھ کا ڈھیر تھا۔ ایک ٹوٹا ہوا حقّہ پاس رکھا تھا۔ کہاں وہ شان و شوکت ، کہاں یہ حالت جو دیکھی نہ جاتی تھی۔رنگین دیر تک دوست کی حالت دیکھ کر روتے رہے اور پوچھا ”انشاء! کیا حال ہے؟“ انھوں نے سرزانو پر رکھ لیا اور پھر نہ اُٹھایا۔اِتنا قادر الکلام شاعر جس نے ہر صنفِ سخن کو آزمایا، اَن گنت شعر کہے، ایسے وقت میں جب وہ اپنے مطالعے اور مشاہدے کو اپنی زندگی کے تجربات سے ہم آمیز کرکے اِظہار کی اعلیٰ ترین شکل میں ڈھال کر اپنے پڑھنے والوں کے سُپرد کرسکتا تھا یوں خاموش ہوا کہ حسرت و یاس کی تصویر بن گئی۔
 

جیہ

لائبریرین
مضمون معلوماتی ہے مگر تحقیقاتی نہیں۔ بس آب حیات سے معلومات لے کر لکھ دی گئی ہیں۔
آب حیات انداز و بیان کے لحاظ سے تو شاہ کار ہے مگر ۔۔۔بڑھا دیا ہے بہت کچھ زیب داستان کے لئے۔۔۔
ویسے آب حیات میرے پسنیدہ ترین کتب میں سے ہے
 

طارق شاہ

محفلین
آپ شاید یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ یہ مستند نہیں ۔
کیونکہ ہرکہی، سنائی بات جو خاص طور سے کسی اور یعنی تیسرے
شخص کے لئے، کسی نے کہی یا لکھی ہو، تو وہ سُننے ، پڑھنے والے
کے لئے، تحقیقاتی ہی ہوتی ہے ۔ تا کوئی محقق بن کر تحقیقِ صداقت
یا لغو پن کی سند، اُس قصّے یا لکھے کو عطا نہ کردے۔
میری معلومات بھی آب حیات یا مولانا محمد حسین آزاد کے ارد گرد
تک کی ہی ہے ،
مواد تو اس سلسلے میں وافر ہےلیکن کیونکہ قصّہ گوئی یا بذات خود کہانی،
constructive ، یعنی کسی صنفِ تخلیق میں پیش رفت کا موجب نہیں ، اس لئے
کسی محقق نے اس پر وقت لگانا مناسب نہیں سمجھا ،
خیال آرائی ، قیاس اور نکتہ دانی و بیانی بہت سوں نے کی، جو زیادہ تر دوسروں کو
fascinate کرنے کے زمرے میں ہی آتا ہے

یہاں جوں کا توں پیش کرنا، محض انشاء الله خاں انشاء پر تازہ شائع کردہ مواد
برائے معلومات اور دلچسپی ہی مدِنظر تھا :)

تشکّر اظہار خیال پر ۔
بہت خوش رہیں صاحبہ :)
 

جیہ

لائبریرین
نہیں جی میرا مطلب یہ نہیں کہ یہ لکھا مستند نہیں۔ اور نہیں آپ نے اسے یہاں پیش کر کے کوئی غلطی کی ہے۔ میں تو بس یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس مضمون مے فاضل مضمون نگار نے انشا کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں کی۔ آب حیات میں ہم سن یہ پڑھ چکے ہیں :)
 
Top