کلیات اسمٰعیل میرٹھی 201 تا 240

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۳

میں کھولے آن کر تن کے سام
کیونکہ تھا رکنا پسینہ کا برا

پھینک ذی اب دلق کہنہ خلق نے
غلغلہ جو میری آمد کا سنا

رات بھر رہتی تھی خلقت گھر میں بند
کردیا اس بند سے میں نے رہا

ماری پھرتی تھیں بطخیں پردیس میں
میں ہوئی ان کو وطن کی رہنما

لو اٹھا کرلے چلے غلہ کسان
اب کریں گے قرض بینوں کا ادا

میں نے حکمت سے چلائیں آندھیاں
تابدل جائے مکانوں کی ہوا

میں سمندر سے اٹھاتی ہوں بخار
جس سے چھاجاتی ہے ملکوں پر گھٹا

چہرہ گردوں کا یہ گردو غبار
ابر کے آنے کا دیتا ہے پتا

رات پر دن کونہ کیوں ترجیح دوں
رات ہے تاریک دن ہے پرھنیا

ہے ہمیشہ ابتدا میری بہار
ہے سدا برسات میری انتہا

تھیں غرض دونوں کی تقریریں دراز
اور طولانی بیاں ماجرا

سن کے ان دونوں کی یہ کج بحثیاں
ایک دانا نے کیا یوں فیصلہ

کچھ نہیں ہے اس میں جاڑے کا قصور
کچھ نہیں ہے اس میں گرمی کی خطا

جب حقیقت پر نہیں ہوتی نظر
یوں ہی رہتا ہے بہم شکوہ گلا

ہے حرارت کی کمی بیشی فقط
ورنہ جاڑا کون؟ اور گرمی ہے کیا؟
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۴


(۱۲)قصیدہ تہنیت سالگرہ حضور ملکہ معظمہ قیصر ہند دام اقبالہا


ذات خداوند ہے قابل حمدوثنا
جس کی حمایت میں ہیں شاہ سے لے تا گدا

امن جہاں کے لئے اس نے بنائے ملوک
عالم اسباب میں تھی یہی صورت بجا

خدمت فرماں دہی طاعت حق ہے مگر
تھوڑے ہی نکلیں گے جو کرتے ہیں خدمت ادا

ایسے بھی ہیں تاج دارجن میں نہیں عدل ورحم
دیتے ہیں بے بات بھی خون کے دریا بہا

ایسی حکومت مگر جسم پے محدود ہے
قبضہ میں اس کے نہیں کچھ سروتن کے سوا

توپ گرجتی ہوئی تیغ چمکتی ہوئی
لازمہ سلطنت سمجھی گئی ہے سدا

مملکت دل میں ہاں جس کا ہے سکہ رواں
اس کی روش اور ہے اسکا چلن ہے جدا

عدل وہاں توپ ہے اور کرم تیغ ہے
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۵

لشکر شاہنشہی مہر ہے واں اور ولا

جانتے ہیں ہم سبھی کون ہے ایسا سخی
قیصر ہندوستان حضرت وکٹوریا

ایسے شہنشاہ کا سایہ ہو جس ملک پر
اس کے مبارک نصیب ہے وہی عشرت سرا

اپنی رعایا پے یوں فیض ہے اس کا محیط
جوں کرئہ ارض کے چار طرف ہے ہوا

اپنی رعایا اسے ہے دل وجاں سے عزیز
اس کی رعایا اسے دیتی ہے دل سے دعا

ہم نہیں خسرو پرست ہم نہیں اہل غرض
مدح شہنشاہ سے قصد ہے شکر خدا

(۱۳) قصیدہ ناتمام

ناکوئی فرخندہ پے دھوئے قدم
ہیں اسی دھن میں رواں گنگ وچمن

تاکرے گلگشت کوئی خوش نظر
منتظر ہے رونق باغ و چمن

تا معطر ہو کوئی عالی دماغ
دوڑتی ہے نکہت مشک ختن

چاہتی ہے لذت قندونبات
ہو کوئی طوطی منش شکر شکن
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۶

تاکسی نازک گلے کا ہار ہو
قعر دریا سے چلا درعدن

گرتصور میں نہ ہو اک جامہ زیب
کب کرے تیار کاریگر چکن

مل گئی گنگا میں گنگا بن گئی
جب الہ آباد میں پہونچی جمن

قطعات

(۱)آرل آف میو وایسرائے وگورنر جنرل ہندوستان


کیسی آڑی ہے سمت جزائر سے یہ خبر
کیا ہوگیا کہ صر صر غم ہے ہوائے ہند

بیٹھے بٹھائے اس خبر ہولناک نے
ڈالا وہ زلزلہ کہ ہلادی بنائے ہند

کس آفت عظیم نے یارب کیا نزول
ہوتا نہیں بیان غم ماجرائے ہند

اے مرگ ناگہاں تجھے کیوں آگیا پسند
نواب ہندو حاکم کشور کشائے ہند

افسوس اس کا حلقہ تم میں ہے یہاں
تھا بزم عیش ذکر سے جس کے فضائے ہند

وہ نام آج باعث ماتم ہے اے دریغ
جس کا لقب تھا نائب شہ ویسرائے ہند

کس کو کیا ہے خنجر بیداد نے ہلاک
وہ حاکم مدبر وفرماں روائے ہند

کہتے ہیں لوگ آج قتیل ستم اسے
کہتے تھے جس کو مالک تیغ دلوائے ہند

کیا جاں گزا ہے قتل گورنر کا واقعہ
ماتمکدہ ہی چاہئے لکھنا بجائے ہند

واحسر تاکہ قافلہ سالار چل دیا
بے رونق وخراب ہے مہمان سرائے ہند
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۷

رکن رکیں سلطنت ہند اٹھ گیا
دست اجل نے توڑ دیا حیف پائے ہند

کیا انقلاب دورزماں ہے ہوگیا
ہندوستاں برائے غم دغم برائے ہند

اس حادثہ سے ہے جگر خلق پاش پاش
کیوں کر رفوپذیر ہوچاک قبائے ہند

کیا نحس وہ جزیرئہ دریائے شور ہے
جس کے سبب سے اشک مصیبت بہائے ہند

اے کاش جانتے کہ یہ ہے آخری وداع
رخصت ہوئے تھے ہند سے جب وایسرائے ہند

ہاتف نے دی مذاکف افسوس مل کے یوں
بس دل شکن ہے آہ غم وایسراے ہند

(۲) شب برات

محمود شب برات کا سامان ہے یہی
اخبار پھلجڑی تو پٹاخاپیام تار

ہیں عالم خیال میں ہم بھی وہیں کھڑے
ترکان شیر دل ہیں جہاں گرم کارزار

بلگیریا میں ہم کبھی آئے گئے نہیں
نظروں میں ہیں مگر وہی میدان وکوہسار

پھر تاجہاں رسالہ کاسک ہے دوڑتا
اوران کی تاک جھانک میں سرکشین سوار

ہم وار نہ میں دیکھتے ہیں وہ حجوم فوج
تھا جس کے روم ومصر سے آنے کا انتظار

اڑتا ہوانشان ہلالی نظر پڑا
پہنچا جو شوملہ پہ تصور سے آنے کا انتظام

اڑتا ہوا نشان ہلالی نظر پڑا
پہنچا جو شوملہ پہ تصور کا راہوار

گویا کہ دیکھ بھال کے ہم آئے ہیں ابھی
میدان اور مورچے اور خیموں کی قطار

رسچق سے آرہی ہے دنادن کی اک صدا
اور سسٹواکو لوٹ رہے ہیں ستم شعار
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۸

بھاگا ہے ترنوا کونکولاس چھوڑ کر
آتاہے بے دھڑک جو سلیمان ذی وقار

آئی پلیونہ سے نوید ظفر ہمیں
عثمان نے کیا ہے وہاں روس کا شکار

(۳)شب برات

اے شب برات عمر ہے تیری بہت بڑی
میں سن وسال تیرے کہاں تک کروں شمار

ہے ہجرت رسول کو یہ تیرھویں صدی
اور تو ہر ایک سال میں آتی ہے ایک بار

دیکھا ہے تو نے آنکھ سے اسلام کا عروج
تجھ کو خوب یاد ہے تاریخ روزگار

کرتاہوں اک سوال مجھے تو جواب دے
پہلے بھی تھا یہ فرقہ اسلام کا شعار

کیا امت نبی کی یہی رسم وراہ تھی؟
جوفی زماننا ہے مروج بہر دیار

بول اٹھ جو تونے دیکھی ہوا گلے زمانے میں
حلوے کی چاٹ اور اناروں کی یہ بہار

ہے فرض عین آج پٹاخوں کا چھوڑنا
یہ مشغلہ نہ ہووے تو بچے ہیں بے قرار

حلوا نہ کھائے جو وہ مسلمان ہی نہیں
چھوڑے نہ جو انار وہ کاہے کا دیندار

سامان کوئی گھر میں میسر اگر نہ ہو
حلوائی اور بنئے سے لے آتے ہیں ادھار

بھجوائیں دے کے فاتحہ مردوں کے واسطے
اسلام کا ہے اب تو اسی رسم پریدار

بولی شب برات کہ میں کیا جواب دوں
لوگوں کے سر پہ جب سے جہالت ہوئی سوار

اسلام کے طریق سے بس ہوکے منحرف
کر بیٹھے ہیں مراسم بیہودہ اختیار
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۹

یہ قوم آج اہل جہاں کی نگاہ میں
بدرسمیوں سے آپ ہے اپنی ذلیل وخوار

اسلام میں پتا بھی نہیں جن رسوم کا
اصل اصول دیں انھیں کرنے لگے شمار

(۴)تاریخ وفات سرسالار جنگ بہادر مرحوم

وہ دکن کا مدبر یکنا
رکن دولت وزیر نیک خصال

ملک رانی میں وہ بیگانہ عصر
کاردانی میں بے نظیر وہمال

اہل کشور کا وہ محبت دلی
اور نظام دکن کا خیر سگال

یعنی سالار جنگ نام آور
جوکہ مختار ملک تھا فی الحال

قوم کا ملک کا وطن کا دوست
کامل وقدرداں اہل کمال

سلطنت کے رموز کا استاد
مملکت کے عقود کا حلال

اس کے عدل وکرم سے خلقت شاد
اس کے نظم ونسق سے ملک نہال

عام کو چین خاص کو آرام
سلطنت کا خزانہ مالا مال

نہ ہوا اس کے عہد میں زنہار
مفسدوں کے سوا کسی کو زوال

امرا اس کے دور میں خوش دقت
غربا اس کے وقت میں خوشحال

نیک دل نیک خوی ونیک نہاد
صاحب جو دولطف وبزل ونوال

اس سے منسوب عزم اور ہمت
اس سے مخصوص شوکت واجلال
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۰

خرد اس کی محاسب انجام
نظر اس کی دقیقہ سنج مال

اس کی رائے متین نے بخشا
امن اور عافیت کو استقلال

اس کی عقل سلیم نے بخشا
شاہد مملکت کو حسن وجمال

چل بسا وہ وزیر باتدبیر
اٹھ گیا وہ امیر باقبال

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اے بسا مدعا کہ شد پامال

مشرق سے تاممالک مغرب
لے کے دکھن سے تا حدود شمال

ہند سے تا بملک انگلستان
اس کے ماتم میں ہیں پریشاں حال

تو بھی محمود لکھ کوئی تاریخ
جس سے ظاہر وفات کا ہوسال

آہ روشن قیاس ودانشور
آہ دانش ورو بلند خیال


(۵)عید الفطر

تیس دن بھوک پیاس کو روکو
یہ ریاضت ہے آدمی کو مفید

روزہ کیا چیز ہے بتائیں تھیں
حرص کی قید نفس کی تہدید

سب کو بھولو کرو خدا کو یاد
سب کو چھوڑو بجز خدائے وحید

دو جہاں میں اسی کا جلوہ ہے
ہے وہی مثل آفتاب پدید

دل کی آنکھوں سے دیکھئے لیکن
کہ خدارا بچشم نتواں دید
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۱

وحدہ لاالہ الا ہو
کچھ نہیں ہے سوائے رب مجید

تابمقدور کیجئے تہلیل
تابامکان چاہئے تمجید

معتکف خانئہ خدا میں بنو
کچھ تو سیکھو طریقہ تجرید

عید کرتے ہیں اس وتیرہ پر
جو خدا کے ہیں بندگان رشید

امضاں کا مہینہ یوں گزرا
ختم روزے ہوئے لو آئی عید

عید کے دن پڑھو نماز ودعا
عذر تقصبر کی کرو تمہید

کہ خدایا نہ ہوسکی طاعت
نہ ہو اہم سے کوئی کار سعید

نہ ہوئی تیرے حکم کی تعمیل
نہ ہوئی اہل رشد کی تقلید

کوئی خدمت بجانہ لائے ہم
جنس عقبٰی کی کرسکے نہ خرید

جو ہوا تیری مہربانی سے
نوتوانوں کی تونے کی تائد

شکر کی تونے ہم کو دی توفیق
شکر سے تیری نعمتیں ہیں مزید

شکر نعمت بھی تونے سکھلایا
ورنہ تھا ہم سے بہت ہی امید

جاکے حامد سے یہ کہو محمود
اب کے عیدی لکھی گئی ہے جدید

(۶)عیدالضحٰی

عید قرباں یادگار دین ابراہیم ہے
کیا خوشی کا دن ہے یہ بھی رب کعبہ کی قسم
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۲

شوق میں اطراف عالم سے چلی کرتی ہے خلق
روبسوئے کعبہ دل مشتاق آثار حرم

ساکنان ربع مسکوں جمع ہیں مکہ میں آج
روسی وجاوی وہندی ترکی ومصری مہم

مختلف نسب کی زبانیں اور جد اشکل ولباس
پرطواف کعبہ میں سب ہم خیال وہم قدم

سرزمین مکہ تھی ویرانہ بے برگ وبار
قدرت حق نے مگر بخشا اسے جاہ وحشم

کاروان بحروبر اس کی طرف ہیں دوڑتے
مرکز عالم ہے الحق وہ مقام محترم

نسل انسانی بہم ہوتی ہے اس جا روشناس
ہے یہ میدان انتخاب کاملان ذی پیہم

آپ کی عیدی ہے حامد یا کوئی تاریخ ہے
ایسی عجلت میں بھلا ہوتے ہیں یہ مضمون رقم

(۷) عید الضحٰی

عازمان طواف بیت اللہ
ساکنان نواح دور ودراز

کارواں کارواں روانہ ہوئے
شوق حج میں کیا سفر آغاز

ناخدا نے اٹھا دیا لنگر
لے کے نام خدائے بندہ نواز

کرچکے طے محیط اعظم کو
جالگے ساحل عرب پے جہاز

سبارباں نے بٹھادیا ناقہ
ہوگئے داخل حدود حجاز

اشتیاق حریم میں سب نے
باندھا احرام تا کھلے کچھ راز

پھرتے ہیں خانئہ خداکے گرد
باخضوع و خشوع وعجزو نیاز
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۳

کرکے نام خدا پے قربانی
ہوئے فرہان عاشق جانباز

کرکے غسل ووضو چلو محمود
عید گہ کو پے ادائے نماز

اب کے عیدی لکھی گئی کیسی
ہے نیا طرز اور نیا انداز

(۸)نذرانہ پیرجی

جو کچھ نہیں بے کار جو کچھ ہے سو بے سود
نیرنگ دوعالم ہے تماشائے خیالی

اپنے ہی تخیل سے ہیں یہ جملہ طلسمات
نے حق ہے نہ باطل ہے نہ سافل ہے نہ عالی

جب زور ہوا وہم کا سب ہوگئے پیدا
یہ نیک یہ بد۔یہ جلالی۔یہ جمالی

ذکر وطلب وفکر وتمنا ہیں سب اوہام
موجود نہ معدوم مقدم ہے نہ تالی

یاں سے،نہ وہاں سے،نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے
ظاہر ہے نہ باطن ہے نہ حالی ہے نہ قالی

اقرار نہ انکار نہ کچھ علم نہ ادراک
ذاتی نہ صفاتی نہ حقیقی نہ خیالی

ہے روشنی سب ایک نہ تمیز نہ تفریق
گنتی میں ہزاروں ہیں چراغاں دوالی

ہر چند مٹھائی کے بکثرت ہیں کھلونے
سب ایک ہیں جب ٹوٹ گئی شکل مثالی

ہر قسم کا منشا ہے وہی ایک حلاوت
گو مختلف اقسام سے معمور ہے تھالی

نے کشف وکرامت نہ مناصب نہ مراتب
جب کھل گئی آنکھیں تو نہ کھرپا ہے نہ جالی

جو کچھ ہے کم وبیش اسے کیجئے منظور
جاتے ہیں کہیں پیرجی نذرانہ سے خالی
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۴

(۹)خواب راحت

کل رات کی بات ہے کہ مجھ کو
جھونکا سا غنودگی کا آیا

جھٹ پٹ تکیہ پہ رکھ دیا سر
دن بھر کا تھا میں تھکا تھکایا

کچھ آنکھ جپھک گئی تھی لیکن
اتنے میں کسی نے پھر جگایا

دیکھا تو ہوا کا سنسنانا
کچھ اور ہی رنگ روپ لایا

رہ رہ کے تڑپ رہی ہے بجلی
اور ابرہے آسماں پہ چھایا

پڑنے لگیں بوندیاں ٹپاٹپ
سوتے لوگوں نے غل مچایا

ہلڑ جو مچا۔ اچٹ گئی نیند
جوں دھوپ سے بھاگ جائے سایا

سب سوگئے جاگتا رہا میں
تب دل میں خیال یہ سمایا

خواب راحت بھی ہے عجیب چیز
کیا عالم بے خودی ہے چھایا

اے نیند ! نمونئہ قیاست
تونے ہمیں آنکھ سے دکھایا

تو آئی ہوئے حواس بیکار
کیا جانئے تو نے کیا سونگھایا

جس وقت اترگئی گھٹاسی
آنکھیوں کا چراغ ٹمٹمایا

پھر چھوڑ گئی ہمیں جہاں میں
پھر زیست کا ذائقہ چکھایا

پاپا تو کہیں تجھے نہ دیکھا
دیکھا تو کہیں تجھے نہ پایا

ہے تیری عجیب حکمرانی
دنیا کی پلٹ گئی ہے کایا
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۵

رن میں فوجوں کو پچھاڑا
بن میں شیروں کو جا دبایا

دہقان کو کھیت میں کیا چت
گوکھیت کو گیڈروں نے کھایا

ریوڑ کی خبر نہیں کہاں ہے
چرواہے کو گھاس پر لٹایا

لینے کو درخت پر بسیرا
چڑیوں نے پروں میں سر چھپایا

ڈھوڑوں نے بھی چھوڑدی جگالی
چپ ہیں نہیں کان تک ہلایا

جب چور کی آنکھ میں سمائی
اس نے چوری سے جی چرایا

رہزن کی بھی راہ باٹ ماری
رہگیر کو خوف سے بچایا

کھوٹی ہوئی راہ رو کی منزل
پھیلا کے جو پائوں سنسنایا

مائوں کو دیا ہے تو نے آرام
بچوں کو تھپک تھپک سلایا

روتے روتے جھپک گئی آنکھ
جھولے مین جھلارہی ہے دایا

بیگم۔ملکہ۔غریب۔بڑھیا
تیرا آنا سبھی کوبھایا

غم دور ہوا ٹکڑ گدا کا
جھولی ہے نہ جھونپڑی نہ سایا

بیڑی سے رکا نہ ہتکڑی سے
محبوس کو قید سے چھڑایا

شاہوں کی بھی کرو فرمٹادی
نے تاج نہ تخت نے رعایا

زریں پردے نہ فرش مخمل
ایوان ہے گم سجاسجایا

جب سوگئے ہوگئے برابر
کب شاہ وگدا میں فرق پایا

جج کے بھی حواس ہیں معطل
فیصل ہوئے قصئہ وقضایا
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۶


ٹھنڈا ہوا تاجروں کا بازار
سودے کا معاملہ چکایا

ہے نقد کہاں کدھر گئے ٹوٹ؟
ساہو کاروں کو کھک بنایا

لالہ کو نہیں رہی ذرا سدھ
کیا ڈیوڑھا اور کیا ساور کیا سوایا

بینوں کا الٹ دیا پتڑ
روکڑ ہے نہ جنس ہے نہ مایا

بیمار کی آنکھ لگ گئی ہے
دکھ درد کا کرب سب مٹایا

کچھ ہوش نہیں ہے ڈاکٹر کو
پلٹس لگے زخم پر کہ پھایا

اوسان نہیں حکیم جی کو
کیا نیند نے لخلخہ سنگھایا

تبرید پلائے کہ مسہل
سب بھول گئے کیا کرایا

پنڈت بھی ہوئے پخنت ایسے
اشناس کئے ۔نہ جل چڑھایا

ملا کو بھی ہوگیا ہے نسیا ں
بھولا ہے مسائل ہدایا

تعریف نہ کرسکے مہندس
کیا شکل ہے قائم الزدایا

جغرافیہ داں کی راہ گم ہے
لنکا ہے کدھر کدھر ہے ملایا

کچھ یاد نہیں مورخوں کو
کیا کیا برروئے کار آیا

بھولا ہے کتاب طالب علم
الٹاتو نے سبق پڑھایا

مطرب کی عجیب گت بنائی
کھڑاگ جہاں کا بھلایا

عابد۔زاہد۔فقیر۔جوگی
صوفی کا بھی ہوگیا صفایا

چونکا نہیں قافلہ تری کا
ہر چند جہاز ڈگمگایا
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۷

چیتے نہیں ریل کے مسافر
انجن نے ہزار غل مچایا

باقی نہ رہا کوئی تردد
جھگڑوں میں تھا جان کو کپایا

سب مشغلے ہوگئے فراموش
اپنا ہی رہا نہ کچھ پرایا

دنیا کی خبر۔نہ دین کا ہوش
کیا ساغر بے خودی پلایا

تونے کیا نیند کو مسلط
قدرت ہے بڑی تری خدایا

(۱۰)سرسید احمد خان

تن بے سرکی طرح قوم پڑی تھی بیچاں
سر جو پایا تو نے تو اٹھی بہرقیام اور قعود

سروہی (سلمہ اللہ تعالٰی)سید
رہبری جس کو ہے بیرہہ رووں کی مقصود

قوم بدحال کے اندیشہ غمخواری سے
کبھی خالی نہ رہا جس کا دل درد امود

نہ گئی طالب صادق کی تگ وتاز عبث
کھل گیا قوم کی بہبود کا باب مسدود

ڈالی آخر کو دبستان خرد کی مینار
ہوگیا جلوہ نما وہ جو تھا ذہنی معبود

انقلابات زماں سے ہو تحفظ کیوں کر
ناگریز اس کے لئے چاہئیں آئین وحدود

پس مرتب ہوا مجموعہ دستور عمل
تاکہ ہر عہد میں کام آئے پے حل عقود

کثرت رائے سے اب پاس ہوا وہ قانون
جس سے مقصود ہے کالج کا دوام اور خلور
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۸


قوم نے فرط مسرت سے سنا یہ مژدہ
سیدالقیوم کا ہم کار ہے سید محمود

ہوگیا دورتن قوم کو تھا جو خطرہ
للہ الحمد۔کہ ایک اور بھی سر ہے موجود

صدوسی سال رہے زندہ ابھی پیر بزرگ
نوح کی عمر کو پہنچے یہ جو ان مسعود

دوربین فہم وخرد کی ہمیں دکھلاتی ہے
قوم کا نیر اقبال ہے مائل بصعود

خدمت قوم پہ آمادہ ہوا وہ مخدوم
نام کی طرح سے ہیں کام بھی جس کے محمود

جس کے مسلماں نبی نہ صرف اس کو بھلا جانتے ہیں
مانتے ہیں اسے انگریز بھی۔نیز اہل ہنود

حظ وافر ہے اسے نووکہن سے حاصل
ملتقے گنگ وجمن کا ہے مگر اس کا وجود

اس کے سینہ میں ہیں قدرت ودیعت رکھے
علم وحکمت کے گہر فضل وبلاغت کے نقود

یہ سلیماں ہی کرے گا اسے الحق کامل
جس عمارت کی بنا ڈال رہا ہے دائود

ڈالدیںورطئہ نسیاں میں اسے اب احباب
چھڑگئی تھی وہ جو اک بحث بہم رنج آلود

صلح کے ساتھ اگر۔ذکر کریں بھی تو کریں
نہ کہ آپس میں لڑیں مثل نصارٰی ویہود

اتفاقات سے گر ہو بھی گیا کوئی نزاع
بزم قومی میں نہ سلگائو اسے صورت عود

ہرشرارہ سے بچو بھق سے اڑادے نہ کہیں
ایک مخزن ہے جہاں جس میں بھری ہے بارود

زیدہو۔عمر ہو۔یا مادشما۔کوئی ہو
سب کے ممنون ہو جو قوم کی چاہئے بہبود

ہاں مگر ایک جو شوریدئہ دل سوختہ ہے
چارسو گونجتی ہے جس کی فغان پردود

قوم کا قیس ہے اور قیس فنافے اللیلے
نہ وہ حاسد ہے کسی کا نہ کسی کا مجسود

کشتئی نوح کو زنہار نہ توڑو یارو!
پے کرو ناقئہ صالح کو نہ جئوں قوم ثمود
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۹


اور ہی چیز ہے وہ اس کو نہ چھیڑو زنہار
اور ہی شخص ہے وہ اس سے الجھنا بے سود

اس سے تفصیل کا دعوٰی ہو تو دعوٰی ڈسمس
اس کی تذلیل کی خواہش ہو تو خواہش مردود

اس کے حالات سے واقف ہے وہ دانندئہ راز
جس کے قبضہ میں ہے کل کا رگہ غیب وشہود

(۱۱)تہنیت سالگرہ ملکہ وکٹوریہ

سنو حضرات! جب گوئے زمیں نے
لگائے تین سو پینسٹھ ہیں چکر

توانحصال الہی سے مع الخیر
ہوا بار دگر یہ دن میسر

کومین وکٹوریا کا رشتئہ عمر
چوہترواں پڑا آج اس میں گوہر

اسی کی تہنیت کا ہے یہ جلسہ
مسرت اور خوشی ہے جلوہ گستر

محبت خیرخواہی حق شناسی
نظر آتی ہے اس جلسہ کے اندر

مجسم صورتیں مہردوفا کی
اگر ہو تیں ہم سے بہتر

خوشی کا دن ہے اور وہ تہنیت ہے
کہ جس کا جوش ہے سب میں برابر

غرض ہم سب خدا سے چاہتے ہیں
دوام دولت و اقبال قیصر
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۰


(۱۲) قطعہ تاریخ وفات سید اقبال احمد مرحوم

الایا ایہا الاخوان واحباب
کہ تھے ہم بھی تمھاری طرح خوش حال

بہار نوجوانی کا تھا آغاز
قریب ختم تھا بائسواں سال

ہماری آرزو کی تھی روش اور
زمانہ چل رہا تھا اور ہی چال

یکایک صدمئہ باد فنا سے
نہال تن ہوا دم بھرتا میں پامال

قضار اگر سر مدفن گزر ہو
توہاں اے دوستداران خوش اعمال

دعا کرنا کہ ہو سیراب رحمت
ریاض جادواں ہیں جان اقبال

(۱۳)مرثیہ مولوی حافظ رحیم اللہ صبا (اکبر آبادی)

قصہ درد جاں گزا سنئے
ماجرائے الم فزا کہئے

پوچھئے نالہ و فغاں کا سبب
موجب گریہ وبکا کہئے

کیوں سمجھئے فساد آب وہوا
کیوں ستمگارئی وبا کہئے

موت کو دیجئے نہ کچھ الزام
کار فرما ئی قضا کہئے

عمر کو کیجئے سفیہ شمار
دہر کو لجہ فنا کہئے
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۱


ہے عبث عفت ومرض کاپیاں
ہاں فقط مرضی خدا کہئے

وہ جو بھی بزم صحبت احباب
اب اسے مجلس عزا کہئے

کیجئے ماتم رحیم اللہ
نوحئہ رحلت صبا کہئے

اکبر آلہ کا ادیب اریب
کرگیا کوچ ہائے کیا کہئے

فضل ودانش میں علم وحکمت میں
بے بدل فی زماننا کہئے

عربی کے کلام کا انداز
امرء القیس دوسرا کہئے

سخن فارسی کی راہ وروش
آفریں اور مرحبا کہئے

دیکھئے ریختہ کی آن و ادا
ثانی میرو میرزا کہئے

کیجئے شیون سخندانی
علم ودانش کا مرثیا کہئے

کرکے شعر وسخن سے قطع نظر
صاحب صدق وبا صفا کہئے

ہاں زروئے محاسن اخلاق
معدن حلم اور حیا کہئے

پاک دل پاک طبع۔نیک نہاد
مخزن مہر اور وفا کہئے

اے خوشادہ اکہ نیک نام جیا
اس کو مقبول کبریا کہئے

جسم زنداں ہے روح زندانی
ہو رواں تو اسے رہا کہئے

سفر ناگزیر کو الحق
آخریں نعمت خدا کہئے
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۲


(۱۴)ایک گدھا شیر بنا تھا


پایا تھا اک گدھے نے کہیں پوستن شیر
سوچا کہ آڑ خوب ہے کچھ کھیلئے شکار

پہنا اور آدس پاس کے کھیتوں میں جاگھسا
دیکھا جو شیر سہم گئے اس سے کاشتکار

اتنے میں اپنی بولی جو بولا تو کھل گیا
ہے شیر کے لباس میں اک پوشیدہ حمار

جب کھل گیا فریب تو پھر مارے طیش کے
لے لے کے اپنی لاٹھیاں سب پل پڑے گنوار

چاروں طرف سے گھیر کے لی خوب ہی خبر
لوگوں نے ،ارپیٹ میں رکھا نہ کچھ ادھار

مرنے میں کیا رہا مگر خیر ہوگئی
بھاگا دبا کے دم۔تو بچی اس کی جان زار

چھپی نہیں ہے بات بنائی ہوئی کبھی
آخر کو ہوکے رہتی ہے اصلیت آشکار

بچیو سدا تکلف وناراستی سے تم
 
Top