کلیات اسمٰعیل میرٹھی 201 تا 240

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 193
بڑا طبیب ہے گرہو منجم وجفار

نظر بروج وکواکب پہ کرکے دے نسخہ
کہ ہیں دوا پہ موثر نجوم کے آثار

دینا پرست دیندار

ہر ایک علم وعمل میں پڑی ہے یہ پٹکی
ہرایک طرزوروش پرپڑی ہے یہ پھٹکارا

امام وحافظ دواعظ موذن ومفتی
نہ کوئی دین میں پورا نہ ٹھیک دنیادار

زبس کہ دعوت ونذر ونیاز پر ہے معاش
ہوئے ہیں قوم میں پیدابہت سے سپنشن خوار

جو اینڈتے ہیں پڑے کھاکے لقمئہ خیرات
گئی حمیت وغیرت دلوں سے ان کے سدھار

وہ پھولتے ہیں اپھرتے ہیں فخر کرتے ہیں
فقط اسی پہ کہ ھم ہیں بڑے نماز گزار

نہ خلق نیک۔نہ ہمت بجا۔نہ عزم درست
نہ حب قوم۔نہ حب وطن۔نہ حب تبار

لکھیں گے ٹھیک وہی ان کا دفتراعمال
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۱۹۴

یہ دو فرشتے مقرر جو ہیں یمیں ویسار

تھے پہلے صاحب تقوٰی ت خلق کی تصویر
نہ آج کل کے سے ملائے خشک دل آزار

کہاں ہیں دین ودیانت طہارت وتقوٰی
کہاں ہین اگلے زمانہ کے باصفا ابرار

مداردین ہے اس پر کہ جھٹ کتر ڈالیں
جو پائیں ٹخنے سے نیچی ذرا کسی کی ازار

فقط مسائل غسل ووضو استنجا
یہی ہیں وحی الٰہی کے آج کل اسرار

کہیں تو ضاد کی قرئات پہ غل غپاڑہ ہے
کہیں ہے جہرپہ آمیں کے جوتی اور پیزار

کسی گروہ میں ہے ختم فاتحہ پر جنگ
کہیں ہے مجلس میلاد موجب تکرار

کہیں تو کفر کے فتوئوں کا چل رہاہے گراپ
کہیں ہے طعن وملامت کی ہورہی بھرمار

یہ مولوی ہیں کہ بغض ونفاق کے جرنیل!
کہ جاہلوں کو لڑاتے ہیں یہ سپہ سالار!
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 195

بلا سے ان کی اگر مضحکہ کریں ملحد
ہلا سے ان کی اگر دین پر ہنسیں کفار

مناظرہ کی تصانیف قابل نفرت
مباحثہ کی کتابیں سزائے استحقار

جبیں پہ ان کی تو ہتم کا ہے کمپنی تحشقہ
کمر پہ ان کی تعصب کا ہے سدھا زنار

ہیں سنتوں میں یہی سنتیں انھیں مرغوب
نکاح ودعوت وقیلولہ عجلت افطار

گھٹی جو دورمیں ان کے توراستی کی قدر
بڑہی جو عہد میں ان کے توریش کی مقدار

ملے ٹکا توکریں ثبت مہر فتوے پر
غضب ہے انقد علیہ السلام کی جھنکار

بنائیں حیلہ گری سے حلال رشوت کو
یہاں تو مات ہیں ان سے وکیل اور مختار

سنائیں دوزخ وجنت کا حال۔لے کر فیس
ہے اس زمانہ میں چلتا ہوا یہی اوزار

یہی ہے وعظ ونصیحت کی علت عنائی
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 196

کہ بعد کھانے کے ملجائیں نفد بھی دوچار

نہیں ہے جن کو میسرد وعظ کا لاسہ
توکرتے پھرتے ہین وہ اور ہتھکنڈوں سے شکار

دکھ کے فضل قناعت جتاکے صبر جمیل
وہ بھیک مانگتے ہیں بن کے حاجی و زوار

مصافحہ کے لئے ہے یہ پیش دستی کب؟
اسی میں حسن طلب ہے دیا جو ہاتھ پسار

مشایخ

بہت سے راہزنی کررہے ہیں بن کر پیر
غریب قوم کو ہیں مارتے یہ شاہ مدار!

لیا ہے متعصدوکی نجات کا ٹھیکہ
کہ گویا ہیں یہی باغ جناں کے ٹھیکہ دار

ہزاردانہ کی تسبیح گیروا کپڑے
یہی ہیں ان میں علامات اولیائے کبار

کسی نے نقد۔کہیں جنس اور کہیں دعوت
جو بس چلے تو نہ چھوڑیں مرید کا گھربار

یہ مومنوں سے بھی جزیہ وصول کرتے ہیں
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ197

فتوح غیب رکھیں اس کا نام یا اورار

کریں جو ذکر تو پھر ایسی بولیاں بولیں
کہ شب کو چونک پڑیں ساکنان قرب وجوار

جو دعوت ان کی کریں متعقد تو ہے واجب
کہ ان کے کھانے کو ہوشربا بھی چھلہ دار

اگرہیں بادتصوف کی اصطلاحیں چند
تو پہونچا عرش معلی پہ گوشئہ دستار


یہی ہیں آج ابوالوقت اور قطب زماں
یہی ہیں شیخ شیوخ اور زہدئہ احرار

ملا جو گانٹھہ کا پورا کوئی ارادتمند
تو نقد وقت ہیں شغل ووظیفہ واذکار

کبھی جو خواب پریشاں میں وہ لگے اڑنے
تو اپنے زعم میں ہیں مثل جعفر طیار

کبھی جو عالم رویا میں دیکھ لی بیری
مقام سدرہ کو طے کرچکے زہے پندار!!

بنائیں پہلے تو شیطاں کی جھونپڑی دل میں
کریں خیال کا ٹوکا لگاکے پھر فی النار
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 198

اگر ہیں شرع پہ قائم تو ہیں جنید زماں
جو بنگ نوش ہے کوئی تو ہے قلندروار

رجوع خلق کی خاطر ہوئے ہیں گوشہ گزیں
کہ جیسے جھیل پہ بیٹھے سکڑ کے بوتیمار

بنے جو شیخ تو پھر وجدوحال بھی ہے ضرور
دکھائیں رقص جمل وہ کہ دنگ ہوں حضار

یہ ناز ہے کہ بزرگوں کے نام لیوا ہیں
اگرچہ ننگ بزرگاں ہوں آپ کے اطوار

عوام

عوام کی ہے یہ صورت کہ بس خدا کی پناہ
ہرایک پیشئہ بے غیرتی میں کارگزار

ہرایک لہومیں شامل ہر ایک لعب میں شریک
کہیں کا سانگ تماشا کسی کا ہوتہوار

دغافریب ہوچوری ہو یا اچکاپن
نہیں ہے بے باک کسی کام سے انھیں زنہار

اب ان کے واسطے ہیں یہ مدارج اعلٰی
پریس مین قلی۔کوچوان۔ خدمت گار
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 199

انگریزی فیشن والے

رہا وہ جرگہ۔جسے چرگنی ہے انگریزی
سوواں خدا کی ضرورت !نہ انبیا درکار!!

وہ آنکھ ہیچ کے برخود غلط بنے ایسے
کہ ایشیا کی ہر اک چیز پر پڑی دھنکار

جو پوششوں میں ہے پوشش۔توپس درپردہ کوٹ
سواریوں میں سواری تو دم کٹا رہوار

جواردلی میں ہے کتاتو ہاتھ اک بید
بجاتے جاتے ہیں سیٹی لگ رہاہے سگار

وہ اپنے آپ کو سمجھے پوئے ہیں جینٹلمین
اور اپنی قوم کے لوگوں کو جانتے ہیں گنوار

نہ کچھ ادب ہے نہ اخلاق ۔نے خداترسی
گئے ہیں ان کے خیالات سب سمندر پار

وہ اپنے زعم ہیں لبرل ہیں یا رڈیکل ہیں
مگر ہیں قوم کے حق میں بصورت اغیار

نہ انڈین میں رہے وہ بنے انگلش
نہ ان کو چرچ ہیں آنر نہ سجدوں میں بار
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 200

ہے استفادہ مکالی سے جن کو انشامیں
قلم کے زور سے بنتے ہیں قوم کے غم خوار

جوہے بھی کوئی۔تو لاکھوں میں ایک آدھا بسا
کہ نبردرد ہوا ہے جگر میں جس کے دوسار

دگر نہ کس کو یہ غم ہے؟ کہ میری پیاری قوم
ہواہے زرد ہ کیوں تیرا چہرئہ گلنار

یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے میل کچیل؟
یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے گرد وغبار؟

کدھر ہے تیری طبیعت؟ کہاں ہے تیرا دل؟
خموش کیوں ہیں؟یہ تیرے لب شکر گفتار

اٹا ہے خاک سے کیوںَ؟ تیرا یہ دامن دولت
چھبے ہیں کیوں تیرے تلوے میں مفلسی کے خار؟

کہاں ہے وہ تیری عزت کا گوہر رخشاں؟
کہاں ہے وہ تری حشمت کا خلعت زرتار

تری معاش کی کشتی ہوئی ہے طوفانی
نہ باوہاں ہے۔نہ لنگر۔نہ ڈانڈنے پتوار

ہواہے یہ گلشن اخلاق جل کے خاکستہ
چلی ہے کب سے یہ ایسی سموم آتشبار
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 201

بجائے سنبل وریحاں کے اٹھ رہاہے دھواں
بجائے پھول کے شعلئہ عوض کلی کے شرار

یہ تیرے علم کا دارالجلال کیوں ہے خراب؟
چھتوں پہ گھاس تو ٹوٹے ہوئے دردیوار

ترے مرض کی یہاں تک پہنچ گئی نوبت
کہ تیرے حال پہ روتے ہیں بار اور اغیار

رسوم بدلے ترے ہاتھ پاؤں جکڑے ہیں
فضولیوں نے تیرا کردیا ہے سینہ فگار

تری مڑک نے پنپنے دیا نہ تجھ کو حیف
تری اٹک سے تری نائو جاپڑی منجدھار

وہ اہل فضل کہ تھے افتخار ہندوستاں
اب ان کی نسل کو دیکھو تو ہے وہ ٹھیٹ گنوار

وہ جن کے نام سے نامی تھے شہر اور قصبات
گداگری میں ہے مصروف ان کا خیل تبار

وہ دو دمان امارت کے تھے جو چشم و چراغ
اب ان کے ہاتھ مین ڈھولک ہے یا بغل میں س

جو منتخب تھے نجایت میں اور شرافت میں
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۰۲

اب ان کی آل کو دیکھو تو سخت بدکردار

یہ ہانکتے ہیں جو گاڑی کسی مہاجن کی
انھیں کے مورث اعلی تھے صوبہ دار بہار

ہے آج ٹکڑے کو محتاج ان کی ذریت
کہ جن کی دھاک تھی سلہسٹ سے لیکے تا قندھار

امارت اپنی امیروں نے قرض مےںکھودی
عوض میں دس کے دئے سوٰتو سوٰکے ایک ہزار

بہت سے بن گئے عیاش ہوگئے برباد
بہت سے بن گئے اوباش کھیلتے ہیں قمار

قمار میں بھی نہ سیدھا پڑے کبھی پانسہ
یہاں بھی خوبی قسمت سے جائیں بازی ہار

میں کیا کہوں کہ وہ بھرتے ہیں کس کی چلمیں آج
یہ کل جو پھرتے تھے چھیلا بنے سرے بازار

وہ آج کرتے ہیں فاقے جو تھے بڑے ملکی
نہ گھر میں گیہوں کے دانے نہ باجرا نہ جوار

ہے ٹھیکرا وہی روٹی کا پیرزادوں کی
جو گانوں ہے کوئی باقی بطور وقف مزار
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 203

ہوئی تمام بتدریج منتقل جاگیر
کہ جیسے روم کے قبضہ سے صوبہ بلغار

نہ کوئی علم نہ صنعت نہ کچھ ہنر نہ کمال
تمام قوم کے سرپرسوار ہے ادبار

اگرچہ نشوونما پارہی ہے آزادی
کھلا ہے امن و حفاظت کا قیصری دربار

اگرچہ ملک میں علم و ہنر کا ہے چرچہ
حصول عزت و دولت کا گرم ہے بازار

ہر ایک قوم میں گھوڑ دوڑ ہے ترقی کی
درست ساز ویراق اور ویدیاں تیار

لگاکے شوق کا ہنٹر۔امنگ کی مہمیز
سمند جہد کو سرپٹ اڑارہے ہیں سوار

ہے ان کا رخش طلب دوڑ دھوپ میں آندھی
بہت فراخ ہے میداں زمین ہے ہموار

دوران کے ناقہ اہمیت کی ہیں ڈگیں لمبی
اب ان کو طے مراحل نہیں ہے کچھ دشوار

پلٹ گیا ہے زمانہ بدل گئی ہے رت
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ204

نمو کا وقت ہے اور ابتدائے فصل بہار

نہیں بعید کہ ہوجائیں ایک سب جل تھل
برس رہا ہے ترقی کا ابر گوہر بار

ہرایک زاغ نے سیکھا ترانئہ بلبل
بھنیریوں نے اڑائی نوائے موسیقار

غرض کہ سب ہیں صلاح و فلاح کے جویا
دیاہے ولولئہ شوق نے دلوں کو ابھار

زمانہ چونک پڑا ہے پر اے مسلمانو!
جھنجھوڑنے سے بھی ہوتے نہیں ہو تم بیدار

نہیں ہو فہم ودرایت میں تم کسی سے کم
مگرچہ کارکند شیرشرزہ دربن غار

اور ایسا غار کہ بالکل جہاں اندھیرا گپ
پھر اس میں شیر مرے یا جئے بدون شکار

کروں گا اب میں قصیدہ کو اک دعا پر ختم
کہ جس کے طرز بیاں میں ہوں تازہ نقش و نگار

دعا

رہے زمانہ میں جب تک زمین کو گردش
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 205

جنائیں زادیہ تامحور اور سطح مدار

زہے زمین پہ تاایک سال کے اندر
برابری میں سدا امتدادلیل ونہار

رہے زمین میں تافوت کشش باقی
اور اس کشش سے گریں ٹوٹ ٹوٹ کر اثمار

یہ ایک چاند ہے تا زمین کا خادم
جلو میں تازحل ومشتری کے ہوں اقمار

رہے نجوم میں جب تک زمین سیارہ
اور آفتاب رہے مثل نقطئہ پرکار

خدا ہر ایک مسلمان کو کرے روزی
معاش نیک و دل پاک و خوبی کردار

حصول علم درہ مستقیم وفہم سلیم
جمال صورتومعنی کمال عزووقار

(۰۱)تہنیت جشن جوبلی حضوور ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصر ہند دام اقبالہا

ہے خداوند کو سزاوار سپاس
جان نے تن میں کیا حکم سے جس کے اجلاس

پارلیمینٹ کھلی کشور دل کے اندر
عقل بے محنت کی اسبیچ پڑھی پیش حواس

ایسے دربار مقدس میں اسے بار ملا
جس کا دانش کی لونڈر سے معطر تھا لباس
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 206

تہنیت نامہ سنانے کو تعظیم وادب
حاضر بزم ہوئے ذہن وذکا فکر وقیاس

مالک الملک ہے تو اور عزیز وجبار
توہی خلاق ہے رزاق ہے اور رب الناس

صحن عالم میں کیا خیمئہ اطلس برپا
جس میں قدرت نے جڑے گوہر ولعل والماس

دشت وکہسار کودی سبزئہ وگل سے زینت
سامنے جن کے لگیں لعل وزمرد بھی اداس

شاخ اشجار میں لٹکائے ثمررنگار رنگ
جس میں حکمت نے کیا جمع مٹھاس اور کٹھاس

تاکہ وامان زمیں تازئہ وشاداب رہے
تونے رکھا کمر کوہ پہ چشموں کا نکاس

تو نہ مٹی سے اگاتا ہے جو چنے اور گیہوں
خاک سے کرتا مہیا جو نہ سن اور کپاس

کون کرسکتایہ پرذائقہ کھانے طیار
کون بن سکتا یہ پرزیب روا اور لباس

تیری رحمت کے طلبگار ہیں سب شاہ و گدا
تیری حکمت نے حریر اس کو دیا اس کو پلاس

تیری قدرت ہے قوی حکم ہے تیرا ناطق
ہے بھلا نقد بقا تیرے سوا کس کے پاس

آج اورنگ سلیماں ہے نہ تخت بلقیس
کشتی نوح کا تختہ نہ گلیم الیاس

ذکر خیر ان کا زبانوں پہ رہے گا جاری
ہاں مگر عزت ودولت کا یہی ہے مقیاس

بہرہ ورتا جوری سے دہی ذی ہوش ہوا
تیری خلقت کا کیا جس نے کیا دل و جان سے پاس

نیک نامی کی نہ پائی کبھی اس نے خوشبو
چڑھ گیا مغز میں جس شاہ کے غفلت کا ہلاس

سن کے اس نامئہ پر مغز کابین نے مضمون
اور بھی اس کے تممہ میں لکھے شعر پچاس

ہند پر قیصر عادل کو تسلط بخشا
کس زباں سے ہوتری حمدوثنا شکر وسپاس

ملک کو تونے نئے سرسے کیا پھر سرسبز
تیری رحمت سے نہ غمزدہ کوئی بے آس
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 207

دورازیں حال تباہی کی گھٹا چھائی تھی
سیل کی طرح سے طغیان پہ تھے خوف وہراس

بن گیا تھا چمنستان سے چٹیل میدان
بیل بونٹے رتھے نہ پھل پھول نہ ہر یال نہ گھاس

شاہ گلشن تھے میغلاں تو ولی عہد تھے خار
لالئہ وسوسن ونسرین کو ملا تھا بن باس

باغ شاہنشی ہند میں آئی تھی خزاں
چیل کوے تھے مگن بلبل و طوطی تھے اداس

آل تیمور کے خورشید کا تھا وقت غروب
شام ادبار کی ظلمت سے دلوں میں تھی یاس

ضعف پیری سے حکومت کا لبوں پر دم تھا
نہ تو اوسان ٹھکانے تھے نہ قائم تھے حواس

تھے جدا سلطنت ہند کے ریزے ریزے
جیسے چینٹوں کی جماعت میں تقسیم مٹھاس

مرزبانوں کے سروں پر نہ تھا کوئی سرتاج
جان اور مال کا تھا حفظ نہ ناموس کا پاس

مغربی گھاٹ سے اٹتھے تھے جو موجے پیہم
دامن کوہ ہمالیہ سے وہ کرتے تھے تماس

غوری وخلجی وتغلق کے مٹے تھے دستور
شیرشاہی کی روش تھی نہ حصار رہتاس

نام تھا نظم ونسق کا نہ سیاست کا نشاں
اکبری دور کی باقی نہ رہی تھی بوباس

جاٹ گردی تھی کبھی گاہ مرہٹہ گردی
کبھی پنڈاروں کا تھا ڈر کبھی سکھوں سے ہراس

پرتگیز اور ولندیز وفرانسیس بھی تھے
ملک گیری کی جنہیں بھوک تھی اور مال کی پیاس

جب کلایو نے پڑھی سیف وقلم کی سیفی
کچھ گھٹے ہند کے دل سے خفقان ووسواس

فرش ودولت کی لگی ہونے نئی قطع وبرید
پھٹ چلاجنگ پلاسی سے وہ پارینہ پلاس

ہیسٹنگز اور ولزلی نے عجیب کام کئے
نبض دولت کے یہی لوگ تھے رفتار شناس

چارہ فرما ہوئے ڈلہوزی وولیم مینٹنگ
اکی طبع ممالک کو دوا ان کی راس
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۰۸

ہند میں کوکب انگلش نے کیا خوب عروج!
جس کے مشرق تھے یہ کلکتہ وبمبئی بدراس

واں پڑا سائیہ پرچم کہ جہاں بہتے تھے
سلج ورادی وچناب۔اٹک اوربیاس

اس صدی کے گئے جس وقت کہ سینتس برس
فورتھ ولیم کی ہوئی ختم شمار انفاس

ہر مجسٹی دی کوئن وارث تاج ودیہم
تخت برٹش پہ ہوئی زیب فرائے وسواس

عذر کے بعد ہوا دورئہ شاہی آغاز
نیر دولت واقبال چڑھا سمت الراس

پھر نئے سرسے ہوا کاخ حکومت ترمیم
قیصری قصر کی ہونے لگی مضبوط اساس

اے تیرے تاج میں انصاف وعدالت گوہر
اے ترے تخت میں احسان ومحبت الماس

عفو تقصیر کا جاری کیا تو نے منشور
بن گئے جان تن ہند کو تیرے انفاس

تیری دولت کے مدبر تھے فلاطون زمن
کھودیا سب جگر ملک سے دردوآماس

کھل گیا سطح حکومت کا نشیب اور فراز
حسن تدبیر کی جس وقت لگائی کمپاس

کردیا ہند کے اجزائے پریشان بہم
جڑگیا ٹوٹ کے پھر نظم وسیاست کا گلاس

امن وانصاف کا پڑھنے لگے سب مل کے سبق
حاضر اسکول اطاعت میں ہوئی جملہ کلاس

سندھ ہے ایک طرف دوسری جانب برھما
قاعدہ کوہ ہمالہ تو کماری ہے راس

کس دیا ملک کو قانون کی زنجیروں میں
تاشرارت پہ ابھارے نہ کسی کو خناس

عہد دولت سے ترے پائی دلوں نے تسکین
سکہ زر کی طرح چل گیا تیرا قرطاس

میں ہنر تیرے زمانہ کے بغاوت روشن
روغن وموم کی جاجلنے لگی براق وگاس
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۰۹


تار کے سامنے یکساں ہے نہ کچھ دیر نہ جلدی
ریل کے آگے برابر ہے نہ کچھ دور نہ پاس

گاؤں درگاؤں ہوئیں علم کی نہریں جاری
اوکھ سے پینے لگے جن کو لگی زور کی پیاس

فیض تعلیم سے عالم ہوئے جاہل ہندی
کوئی عالم کوئی منشی تو کوئی حرف شناس

دم بدم ابر ترقی ہوا گوہر افشاں
کوئی ایف اے کوئی بی کوئی ایم اے ہی پاس

دور شاہی نے ترے ان کو بنایا انسان
ان میں کھانے کا سلیقہ تھا نہ تمئر لباس

آدمیت کا پڑا ان کے دلوں پر سایہ
بعض قوتیں کہ جو خصلت میں تھیں مثل شناس

اکثر اضلاع میں کھلتی ہین نمائش گاہیں
جمع ہوتی ہیں جہاں ملک کی صنعی اجناس

گائے بکری کی نہ ہوتی تھی جہاں پر بکری
اب وہاں تازی وترکی کے ہیں لگنے نخاس

بحروبر میں سے ترے زیر نگیں جتنا ملک
شاید اس وقت نہیں اور کسی شاہ کے پاس

بحراعظم میں مہابت ہے ترے بیڑے کی
براعظم میں تری فوج سے دشمن کو ہراس

مملکت میں تری چھپا نہیں سورج زنہار
ہے یہ جغرافیہ کی رو سے بہت ٹھیک قیاس

جشن جوبلی کا ہوا غلغلہ برپا گھر گھر
خیر سے تخت نشینی کو ہوئے سال پچاس

تیری دولت کی دعا یوں ہے دلوں سے جاری
جیسے گنگوتری کے چشمے سے گنگا کانکاس

فضل سے اپنے کرے تجھ عطا عمر دراز
جس کی قدرت کی کچہری میں مہ وخور چپراسی
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۰


(۱)جاڑہ اور گرمی


ایک دن جاڑے نے گرمی سے کہا
میں بھی ہوں کیاخوب موسم واہ وا!

ہے بجا گرکیجئے میری صنعت
ہے روا اگر کیجئے میری ثنا

میں جہاں میں ہوں زبس ہر دل عزیز
مانگتے ہیں میرے آنے کی دعا

میرے آنے سے نہ کہو کیوں خررمی
کیا خٹک پانی ہے! کیا ٹھنڈی ہوا

چاندنی ہے بے کدورت بے غبار
آسماں ہے صاف نیلا خوشنما

رات گرمی کی تو کچھ ہوتی نہ تھی
دن کی محنت سب کو دیتی تھی تھکا

میری آمدنے کیا شب کو دراز
میرے آنے نے دیا دن کو گھٹا

لو مسافر کا جھلس دیتی تھی منہ
اور زمیں تلووں کو دیتی تھی جلا

اب ہوا بھی اور زمیں بھی سرد ہے
کھودیا میں نے حرارت کا پتا

مل گئی کتنے بکھیڑوں سے نجات
ٹٹیاں موقوف پنکھا چھٹ گیا

دھوپ کا ڈر ہے نہ لوکا خوف ہے
ان دنوں کی دھوپ ہے گویا غذا

سورج اب کتراکے جاتا ہے نکل
فصل تابستاں میں تھا سرپر چڑھا

ہے خضر میں برج کل عیش ونشاط
ہے سفر بھی ان دنوں راحت فزا

میرے دم سے تندوری بڑھ گئی
پائی مدت کے مریضوں نے شفا

ڈاکٹر صاحب کو فرصت مل گئی
اب شفاخانہ میں کم جمگھٹا
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۱


ضعف معدے کی شکایت مٹ گئی
بے دوا خود بڑھ گئی ہے اشہتا

مکھیاں بھی رہ گئی ہیں خال خال
بے تکلف اب ہے کھانے کا مزہ

گرم پوشاکوں نے اب پایا رواج
میں نے بخشا آن کر خلعت نیا

سل گئے تو شک لبادے اور لحاف
درزیوں نے پایا محنت کا صلہ

میرے ہوتے کون پوچھے برف کو
باسی پانی برف کا بھی ہے چچا

ندی نالوں کا گیا پانی نتھر
جھیل اور تالاب نے پائی صفا

طالب علم اب کریں گے کوشش
کوششوں سے ہوگا پورا مدعا

ٹھیک وقت ان ورزشوں کا ہے یہی
تندرستی کا ہے جن سے فائدہ

کرکٹ اور فٹ بال اور جمناسٹک
کرتے ہیں مضبوط جسمانی قوا

حاکموں نے کردیا دورہ شروع
تاکریں دردرعایا کی دوا

جابجا فوجیں ہوئی ہیں مجتمع
تاکہ میداں میں کریں مشق دغا

سیب۔نارنگی۔بہی۔لیمو۔انار
ذائقہ ہے جن کی صورت پہ فدا

پستئہ وبادام انگور ومویز
میووہ ہر اک قسم کا بکنے لگا

تخم ریزی جنس اعلٰی کی ہوئی
کھیت میں بویا گیا گیہوں چنا

عید کی سی دھوم ہے دیہات میں
پک گئی ایکھ اور کولھو چل پڑا

ہے مٹھائی کی نہایت ریل پیل
چل رہی ہے آج کل میٹھی ہوا

اتس ہے محنت مشقت سے مجھے
کاہلی کو میں نہیں رکھتا روا
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۱۲


محنتی ہین مجھ سے خوش میں ان سے خوش
کاہلوں کا میں نہیں ہوں آشنا

سن کے یہ باتیں ہوئی گرمی بھی تیز
اور جل کریوں جواب اس کو دیا

آپ اپنے منہ میاں مٹھو نہ بن
خود ستائی عیب ہے اوخود ستا

اس کو ہوتا ہی نہیں حاصل کمال
جو کہ اپنے آپ کو سمجھے بڑا

یاسبز تو سرکشی کرتے نہیں
بلکہ سرکو اور دیتے ہیں جھکا

تیری خود بینی ہوئی تجھ کو حجاب
خوبیوں کو میری سمجھا بدنما

تجھ سے عالم میں خزاں کا ہے ظہور
مجھ سے ہے فصل بہاری کی بنا

تونے شاخوں کے لئے پتے کھسوٹ
تونے پیڑوں کو برہنہ کردیا

میرے آنے سے پھلے پھولے شجر
سبز پوشاک ان کو میں نے عطا کی

میں نے شاخوں میں لگائے برگ وبار
ورنہ تھا کیا ان میں ایندھن کے سوا؟

کھیت جاڑے بھر تو کچے ہی رہے
ہاں مگر میں نے دیا ان کو پکا

تو نے رکھے تھے بخیلوں کی طرح
برف کے تودے پہاڑوں میں چھپا

میں پگھلا کر کیا تقسیم اسے
تاکہ پہنچے سب کو فیض وفائدہ

خشک چشمے بھرگئے دریا چڑھے
دیکھ لے میرا کرم میری سخا

تجھ سے تھی مخلوق میں افسردگی
کون خوش تھا؟ جز گروہ اغنیا

میری آمد نے مساوی کردئے
راحت وآرام میں شاہ وگدا

کردیا میں رگوں میں خوں روا
ٹھنڈ سے شل ہوگئے تھے دست وپا
 
Top