کلیات اسمعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

عمران خان

محفلین

صفحہ - 291

بچنا کہ وبائے صحبت ِبد
اس دور میں عام ہوگئی ہے

حلقہ میں قلندروں کے آکر
تحقیق تمام ہوگئی ہے

جرگہ میں تضدروں کے جاکر
حکمت بدنام ہوگئی ہے

شیریں دہنوں کی طرز ِگفتار
مقبول ِانام ہوگئی ہے

بیجا بھی نکل گئی ہے جو بات
تحسین ِکلام ہوگئی ہے

نامرد کے ہاتھ میں پہنچ کر
شمشیر نیام ہوگئی ہے

تکفیر ِبرادراں ِدیں بھی
شرط ِاسلام ہوگئی ہے

کیا شعر کہیں کہ شاعری کی
ترکی ہی تمام ہوگئی ہے


26

شب ِزندگانی سحر ہوگئی
بہرکیف اچھی بسر ہوگئی

نہ سمجھے کہ شب کیوں سحر ہوگئی
ادھر کی زمیں سب ادھر ہوگئی

زمانے کی بگڑی کچھ ایسی ہوا
کہ بےغیرتی بھی ہنر ہوگئی

عمائد نے کی وضع جو اختیار
وہی سب کو مد ِنظر ہوگئی

گئے جو نکل دام ِتزویر سے
ہزیمت ہی ان کی ظفر ہوگئی

زمیں منقلب آسماں چرخ زن
اقامت بھی ہم کو سفر ہوگئی

مٹاڈالئے لوح دل سے غبار
کسی سے خطا بھی اگر ہوگئی

براہ کرم اس کو طے کیجیئے
جو اَن بَن کسی بات پر ہوگئی
 

عمران خان

محفلین
صفحہ - 292

نہ کرنا تھا بالضد مداوائے غم
بڑی چوک اے چارہ گر ہوگئی

یہ ہنگامہ آرا ہیں سب بےخبر
وہ چپ ہیں جنھیں کچھ خبر ہوگئی

27

میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہیئے
میں ہی میں ہوں پھر مجھے کیا چاہیئے

غرق ِخم ہونا میسر ہو تو بس
چاہیئے ساغر نہ مینا چاہیئے

منحصر مرنے پہ ہے فتح و شکست
کھیل مردانہ ہے کھیلا چاہیئے

بے تکلف پھر تو کِھیوا پار ہے
موج زن قطرہ میں دریا چاہیئے

تیز غیروں پر نہ کر تیغ و تبر
آپ اپنے سے تبٌرا چاہیئے

ہودم ِعرض ِتجلی پاش پاش
سینہ مثل ِطور ِسینا چاہیئے

حسن کی کیا ابتدا کیا انتہا
شیفتہ بھی بےسروپا چاہیئے

پارسا بن اگر نہیں رندوں میں بار
کچھ تو بےکاری میں کرنا چاہیئے

کفر ہے ساقی پہ خِسٌت کا گماں
تشنہ سرگرم ِتقاضا چاہیئے

28

عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
شعبدے ہیں گردش ۔ایام کے

ہمت ِمردانہ تجھکو آفریں
کرکے چھوڑا سِر ہوئی جس کام کے

صبح کے بھولے تو آئے شام کو
دیکھیئے کب آئیں بھولے شام کے

تو ہی کر تکلیف او نپیک ِصبا
منتظِر ہیں وہ مرے پیغام کے
 

عمران خان

محفلین
صفحہ - 293

ھانشا للہ میکدہ کے کاسہ لیس
معتقد ہوں زاہد ِعلام کے

مٹ گئی ہے دل سے آزادی کی یاد
کتنے خوگر ہوگئے ہم دام کے

اب تو چرچے جا بجا ہونے لگے
واعظوں کی بانگ ِبے ہنگام کے

29

درد سے لبریز سینہ چاہیئے
چشم ِپرخوں جائے مینا چاہیئے

ایسے بد افعال پر لاحول پڑھ
آدمی کو بغض و کینہ چاہیئے؟

گھٹ کے مرجانا بھی ہے دوں ہمتی
چار و ناچار اور جینا چاہیئے

بحر ہو تو بحر ِطوفاں خیز ہو
اور بے لنگر سفینہ چاہیئے

ہے رگ ِہر برگ میں رنگ بہار
دیکھنے کو چشم ِبینا چاہیئے

30

مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
کچھ تسلی کچھ اضطراب بھی ہے

ہے تو اغیار سے خطاب مگر
میری ہر بات کا جواب بھی ہے

واں برابر ہے خلوت وجلوت
اس کی بے پردگی حجاب بھی ہے

ہو قناعت تو ہے جہاں دریا
حرص غالب ہو تو سراب بھی ہے

وہ تبختر کہاں ؟تپاک کہاں؟
گرم و روشن تو آفتاب بھی ہے

31

بنتی نہیں بات گفتگو کی
چلتی نہیں چال جستجو کی
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 294

تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ
میں اور مجال آرزو کی

اس کی طلب اور مقام و منزل
احباب کی ہائے بدسلوکی

32
واں زیر کی پسند نہ ادراک چاہیئے
عجزونیاز و دیدہء نمناک چاہیئے

آیئنہ بن کے شاہد و مشہود ایک ہے
اس روئے پاک کو نظر ِپاک چاہیئے

سیر و سلوک جاں نہیں بے جذبہء نہاں
اس راہ میں یہ توسِن چالاک چاہیئے

گزرے امید و بیم سے یہ حوصلہ کسے؟
رند ِخراب و عارف ِبےباک چاہیئے

ہر چشمہ آئنہ ہے رخ ِآفتاب کا
ہاں سطح ِآب بے خس و خاشاک چاہیئے

نشو و نمائے سبزہ و گل میں نہیں درنگ
ابر ِکرم کو تشنگی ِخاک چاہیئے

اصلاح ِحال ِعاشق دل خستہ ہے ضرور
معشوق جور پیشہ و سفاک چاہیئے

جو عین نائے و نوش ہو اس بادہ نوش کو
جام و سبو نہ خُمکدہ و تاک چاہیئے

صیاد کے اثر پہ رواں ہو تو صید ہے
وہ صید ہی نہیں جسے فتراک چاہیئے

متفرقات

دیدوادید کی رخصت ہی سہی
میرے حصٌہ کی قیامت ہی سہی

مہربانی بھی تو کچھ عیب نہیں
دشمنی شرط ِمحبت ہی سہی

نعمت ِخلد تھی بشر کےلئے
خاک چاٹی نظر گزر کے لئے

جب غنچہ کو واشد ہوئی تحریک صبا سے
بلبل سے عجب کیا جو کرئے نغمہ سرائی
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 295

عجب شورش دل ِغمناک میں ہے
مگر درپردہ وہ بھی تاک میں ہے

رباعیات

1-توحید

چکھی بھی ہے تو نے درودجام ِتوحید
یا سُن ہی لیا ہے صرف نام ِتوحید

ہے کفر ِحقیقی کا نتیجہ ایماں
ترک ِتوحید ہے مقنام ِتوحید

2- طلب

گر جورو جفا کرئے تو انعام سمجھ
جس کام سے وہ خوش ہو اسے کام سمجھ

گر کفر کی راہ سے رسائی ہو وہاں
اس کفر کو تو جادہء اسلام سمجھ

3- قرب

مکشوف ہوا کہ دید حیرانی ہے
معلوم ہوا کہ علم نادانی ہے

ڈالا ہے تلاش ِقرب نے دوری میں
مشکل ہے بڑی یہی کہ آسانی ہے

4- بےنشانی

بندہ ہوں تو اک خدا بناؤں اپنا
خالق ہوں تو اک جہاں دکھاؤں اپنا

ہے بندگی وہم اور خدائی پندار
میں وہ ہوں کہ خود پتا نہ پاؤں اپنا

5- آزادگی

کافر کو ہے بندگی بتوں کی غم خوار
مومن کےلئے بھی ہے خدا ئے غفار

سب سہل ہے یہ ولیک ہونا دشوار
آزادہ و بےنیاز و بیکس بےکار
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 296

6- یقین

آیا ہوں میں جانب ِعدم ِہستی سے
پیدا ہے بلند پائگی پستی سے

عجز اپنا بزور کررہا ہوں ثابت
مجبور ہوں میں زبردستی سے

7- عبودیت حجاب ِربوبیت

ڈھونڈا کرئے کوئی لاکھ کیا ملتا ہے؟
دن کا کہیں رات کو پتا ملتا ہے؟

جب تک کہ ہے بندگی خدائی کا حجاب
بندہ کو بھلا کہیں خدا ملتا ہے؟

8- توحید

توحید کی راہ میں ہے ویرانہ سخت
آزادی و بے تعلقی ہے یک لخت

دنیا ہے نہ دین ہے نہ دوزخ نہ بہشت
تکیہ نہ سرائے ہے نہ چشمہ نہ درخت

9- اسلاف پر فخر بیجا

اسلاف کا حصٌہ تھا اگر نام و نمود
پڑھتے پھرو اب ان کے مزاروں پہ درود

کچھ ہات میں نقد ِرائج الوقت بھی ہے
یا اتنی ہی پونجی۔"پدرم سلطا بود"

10- تقریض

حقا کہ بلند ہے مقام ِاکبر
توقیع سخن ہے اب بنام ِاکبر

دیوان ہے لطائف و حکم سے معمور
اکبر کا کلام ہے کلام ِاکبر

11- تنزیہ

تقریر سے وہ فزوں بیان سے باہر
ادراک سے وہ بری گمان سے باہر
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 297

اندر باہر ہے وہ نہ پیدا پنہاں
سرحد ۔مکان و لامکاں سے باہر

12- غیر حق نہیں

حق ہے تو کہاں ہے پھر مجال ِباطل
حق ہے تو عبث ہے احتمال ِباطل

ناحق نہیں کوئی چیز راہ حق میں
باطل کا خیال ،ہے خیال ِباطل

13- لاموجود الا اللہ

ساقی و شراب و جام و پیمانہ کیا
شمع و گل و عندلیب و پروانہ کیا

نیک و بد و خانقاہ و مے خانہ کیا
ہے راہ یگانگی میں بیگانہ کیا

14- مظاہر

مجموعہء خار و گل ہے زیب ِگلزار
نیکی و بدی ہے جلوہ گاہ ِاظہار

ہے مخمصہ اختیار حق و باطل
ہے وسوسہ اعتبار یار و اغَیار

15- عجز ادراک

ہر خواہش و عرض و التجا سے توبہ
ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ

از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا
جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ

16- ترک فضولی

دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہرگز
ڈھونڈا تو کہیں پتا نہ پایا ہرگز

کھونا پانا ہے سب فضولی اپنی
یہ خبط نہ ہو مجھے خدایا ہرگز

17- اختلاف خیالی ہے
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 298

دراصل کہاں ہے اختلاف ِاحوال
کچھ رنج نہ راحت نہ مسرت نہ ملال

قربت ہے نہ بُعد ہے نہ فرقت نہ وصال
یہ بھی ہے خیال اور وہ بھی ہے خیال

18- فاعل ِحقیقی حق ہے

شیطان کرتا ہے کب کسی گمراہ
اس راز سے ہے خدائے غالب آگاہ

ہے کام کسی کا اور کسی پر الزام
لاحول ولا قوہ الا باللہ

19- ذات کو تغٌیر نہیں

پرشور الست کی ندا ہے اب بھی
جو تھی وہی آن اور ادا ہے اب بھی

ہوتی نہیں سنت ِالہی تبدیل
جس شان میں ہے وہی خدا ہے اب بھی

20- تٌجلیات حجاب میں

اِخفا کےلئے ہے اس قدر جوش و خروش
یاں ہوش کا مقتضا ہے بننا مدہوش

حسن ِازلی تو ہے ازل سے ظاہر
یعنی ہے تجٌلیوں میں اپنی روپوش

21- مشاہدہ

اے بار ِخدا یہ شور و غوغا کیا ہے؟
کیا چیز طلب ہے اور تنہا کیا ہے؟

ہے کم نظری سے اشتیاق ِدیدار
جو کچھ ہے نظر میں یہ تماشا کیا ہے؟

22- کسی خاص کیف کی پابندی غلط ہے

افسردگی اور گرم جوشی بھی غلط
گم گشتگی اور خود فروشی بھی غلط

کچھ کہیئے اگر تو گفتگو ہے بےجا
چپ رہیئے اگر تو ہے خموشی بھی غلط
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 299

23- شہود ِحق میں غیر معدوم

الحق کی نہیں ہے غیر ہرگز موجود
جب تک کہ ہے وہم غیر ِحق ہے مفقود

حق یہ ہے کہ وہم کا بھی ہونا حق ہے
حق ہے تو ہر طرح سے حق ہے مشہود

24- فُقر

کیفیت و ذوق اور ذکر و اوراد
دین و اسلام اور کفرو الحاد

ہر رنگ ہے محو،ہر تعلق برباد
ہے فُقر تمام عِلتوں سے آزاد

25- وحدت

نقاش سے ممکن ہے کہ ہو نقش خلاف
ہیں نقش میں جلوہ گر اسی کے اوصاف

ہر شے میں عیاں ہے آفتاب ِوحدت
گر وہم دوئی نہ ہو تو ہے مطلع صاف

26- غفلت

اک عالم ِخواب خلق پر طاری ہے
یہ خواب میں کارخانہ سب جاری ہے

یہ خواب نہیں یہی سمجھنا ہے خواب
گر خواب کا علم ہے تو بیداری ہے

27- راہ ِخدا کی انتہا نہیں

جو تیز قدم تھے وہ گئے دور نکل
دکھے بھالے بہت مقامات و محل

اس راہ کا پر کہیں نہ پایا انجام
یعنی ہے وہی ہنوز روز ِاول

28- خود شناسی

اکثر نے ہے آخرت کی کھیتی بوئی
اکثر نے ہے عمر جستجو میں کھوئی
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 300

آخر کو اگر پتا ملا تو یہ ملا
ملنے کا نہیں سوائے اپنے کوئی

29- مظہر

بدلا نہیں کوئی بھیس ناچاری سے
ہر رنگ ہے اختیار ِسرکاری سے

بندہ شاہد ہے اور طاعت زیور
یہ سانگ بھرا گیا ہے عیاری سے

30- کثرت لازم ِوحدت ہے

ہے عشق سے حسن کی صفائی ظاہر
رندی سے ہوئی ہے پارسائی ظاہر

وحدت کا ثبوت ہے ظہور ِکثرت
بندہ ہی کے دم سے ہے خدائی ظاہر

31- طلب بے نشانی

یارب کوئی نقش مدعا بھی نہ رہے
اور دل میں خیال ماسوا بھی نہ رہے

رہ جائے تو صرف بےنشانی باقی
جو وہم میں ہے سو وہ خدا بھی نہ رہے

32- ہستی واحد ہے

ہم عالم ِخواب میں ہیں یا ہم میں خواب
ہم خود سائل ہیں خود سوال اور جواب

آئی نہیں کوئی شے کہیں باہر سے
ہم خود ہیں مسبٌب اور خود ہیں اسباب

33- ہر شان میں حق ء تجلی ہے

ہے شکر درست اور شکایت زیبا
ہے کفر درست اور ہدایت زیبا

گیسوئے سیاہ اور جبین ِروشن
دونوں کی بہار ہے نہایت زیبا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 301

32- تنزبھ

مقصود ہے قید ِجستجو سے باہر
وہ گل ہے دلیل ِرنگ و بو سے باہر

اندر باہر کا سب تعیٌن ہے غلط
مطلب ہے کلام و گفتگو سے باہر

33- توحید

معلوم کا نام ہے نشان ہے نہ اثر
گنجائش ِعلم ہے بیان یے نہ خبر

علم اور معلوم میں دوئی کی بو ہے
اس واسطے علم ہے حجاب الاکبر

34- ترک ِذکر و فکر

ہوتی نہیں فکر سے کوئی افزائش
چپکے رہنے میں ہے بڑی آسائش

کہنا سننا تو ہے نہایت آساں
کہنے سننے کی ہو اگر گنجائش

34- ترک ۔خودی

برہان و دلیل عین گمراہی ہے
نفی و اثبات محض جاں کاہی ہے

اس رہ میں عبادت و اشارت ہے گم
یاں ترک ۔خودی اصول ِآگاہی ہے

35- دین و دنیا

دین اور دنیا کا تفرقہ ہے مہمل
نیت ہی پہ موقوف ہے تنقیح ِعمل

دنیا داری بھی عین دیں داری ہے
مرکوز ہو گر رضائے حق عزو جل

36- وحدت

خاک ِنمناک اور تابندہ نجوم
ہیں ایک ہی قانون کے یکسر محکوم
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 302

یکسانی ِقانون کہے دیتی ہے
لاریب کہ ہے ایک ہی رب ِقیٌوم

37- استقلال

تیزی نہیں منجملہءاوصاف کمال
کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال

خرگوش سے لےگیا ہے کھچوا بازی
ہاں راہ ِطلب میں شرط ہے استقلال

38- ایک واقعہ

کیا کہتے ہیں اس میں مفتیان ِاسلام
جب بیع ِمساجد سے نہیں چلتا کام

تو وجہ ِکفاف کےلئے مومن کو
جائز بھی ہے یا نہیں خدا کا نیلام

39- اصلاح ِقوم دشوار ہے

پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار
بہتے دریا کو پھی لانا دشوار

دشوار سہی،مگر نہ اتنا جتنا
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار

40- ہر کام کا نتیجہ اپنے لئے ہے

گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے
یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے

اپنے ہی لئے ہےسب نہ اوروں کے لئے
اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے

41- مراسم میں فضولی

اب قوم کی جو رسم ہے سو اوُل جلُول
فاسد ہوئے قاعدے تو بگڑے معمول

ہے عید مہذب، نہ محرم معقول
ہنسنا محمود ہے نہ رونا مقبول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 303

42- نیچر انسان کی محکوم ہے

فطرت کے مطابق اگر انساں لے کام
حیوان تو حیوان ،جمادات ہوں رام

مٹی، پانی،ہوا، حرارت،بجلی
دانشمندوں کے ہیں مطیع احکام

43- وقت رائیگاں نہیں کرنا چاہیئے

بے کار نہ وقت کو گزارو یارو
یوں سست پڑے پڑے نہ ہمت ہارو

برسات کی فصل میں ہے ورزش لازم
کچھ بھی نہ کرو تو مکھیاں ہی مارو

44- اتفاق میں کامیابی ہے اور نااتفاقی میں تباہی

جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا
بستی میں ہر ایک شخص دل شاد رہا

جب رشک وحسد نے پھوٹ ان میں ڈالی
دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا

45- ہمت

جس درجہ ہو مشکلات کی طغیانی
ہو اہل ہمم کو اور بھی آسانی

تیراک اپنا ہنر دکھاتا ہے خوب
ہوتا ہے جب اس کے سر سے اونچا پانی

46- فنا عینِ وصال ہے

کس طور سے کس طرح سے کیونکر پایا
دل نذر کیا سراغ دلبر پایا

باقی رہا مدعا نہ دعوٰٰی نہ دلیل
کھوئے گئے آپ ہی تو سب بھر پایا

47- دنیا پرست دین دار

دنیا کےلئے ہیں سب ہمارے دھندے
ظاہر طاہر ہیں اور باطن گندے
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 304

ہیں صرف زبان سے خدا کے قائل
دل کی پوچھو تو خواہشوں کے بندے

48- محب ِدنیا نشان ِخامی ہے

یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے

چھوڑی نہیں جس نے حب ِدنیا دل سے
گوریش سفید ہو مگر بچہ ہے

ابیات

1- اچھی بات

جو بات کہو صاف ہو،ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو،کھٹی نہ ہو،مصری کی ڈلی نہ ہو

2- وقت سے کام لو

وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے بڑھتی ہے چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ

3- بری صحبت سے بچو

بد کی صحبت میں مت بیٹھو،اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے،بد اچھا بدنام برا

4- خیال ِمحال

کیا کیا خیال باندھے ناداں نے اپنے دل میں
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 305

پر اونٹ کی سمائی کب ہو چوہے کے بل میں

5-

بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حٌجت

6- اعتدالِ خیال

نہ حلوہ بن،کہ چٹ کرجائیں بھوکے
نہ کڑوا بن،کہ جو چکھے سو تھوکے

7- اعتدال ِغذا

نہ کھاؤ اتنا زیادہ کہ ڈال دے بیمار
نہ اتنا کم ہو کہ ناطاقتی ہی ڈالے مار

8- راستی

راستی سیدھے سڑک ہے جس میں کچھ کھٹکا نہیں
کوئی رہرو آج تک اس راہ میں بھٹکا نہیں

9-

گلستان ِجہاں میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی
مگر جو گل کے جویا ہیں انہیں کیا خار کا کھٹکا

10- اپنی حفاظت

جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ

11-

تاسحر وہ بھی نہ چھوڑی تونے اے باد صبا
یادگار ِرونق ِمحفل تھی پروانہ کی خاک
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 306

12

تم نہ چوکو کبھی نکوئی سے
کرنے دو گر خطا کرئے کوئی

13

ہر چند اس کے مال سے کوئی واسطی نہ ہو
پھر بھی برا ہی کہتی ہے خلقت بخیل کو

14

ساغر ِزریں ہو یا مٹی کا ہو ایک ٹھیکرا
تو نظر کر اس پے جو کچھ اس کے اندر ہے بھرا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 307

منظومات فارسی

آفتاب عالم تاب

صبح شد خواہد برآمد آفتاب
دیدہ می مال و ہیفگن رخت ِخواب

خیزو درجائے بندے کُن قیام
برفراز ِکوہکے یا طرف ِبام

کن نگہ در گنبد ِنیلو فری
تا تماشائے غریبے بنگری

رو مشرق ساعتے استادہ باش
جلوہء خورشید را آمادہ باش

اوٌلاآ یک گوئے زریں سرزند
بعد ازاں خطٌ ِشعاعی ِدرزند

اندک اندک پرضیا گردو جہاں
بٌروبحر و کوہ و دشت و آسماں

لطفہا برخاک ِظلمانی کند
روشنی و گرمی ارزانی کند

گلبن و زرع و نخیل و مرغزار
ہر یکے از فیض ِاوُپر برگ و بار

گرنتا بد آفتاب ِپُرضیا
نے پرِکاہے بیابی نے گیا

بسکہ افتادہ ست ازمادور تر
قرص ِخور کوچک نماید در نظر

چوں زمیں طوفے کند برگردآں
عرصہ ء سالے ہمیگردد عیاں

چرخ ِدیگر میز ندبر خود زمیں
تا پدید آید شعب و روزے چنیں

توہمی بینی کہ پوید آفتاب
فہم کن خود و اژ گونست ایں حساب
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 308

2- مناظرہء میدان باکوہ


شنیدم کہ میدان سخن ساز کرد
بکوہے در ِگفتگو باز کرد

کہ اے کوہ ِبارفعت و فرٌوجاہ
توئی از بزرگان ِایں کارگاہ

سرت برفراز ِہوا بردہء
بہ زیر ِزمیں پائے افشردہء

نہیب آورد سرفرازی ِتو
بہ حیرت درم از درازی ِتو

ترا قُلٌہ از ابر بالا ترست
مد امت کلاہ ِمہی برسرست

ولے فکر تم درتو حیرانی ست
کہ آخرچہ سود از تو ارزانی ست

یکے تودہء سنگ بالائے سنگ
شدست ازوجود ِتوبس عرصہ تنگ

بدیں پیکر ِسخت و پہن و گراں
چہ نفعے رسد از تو بادیگراں

چہ داری جُز ایں درہ و سنگلاخ
نشیب و فراز و بلند و فراخ

صدا باز گر دید از کوہسار
نخست انچہ سرمایہ داری بیار

بگو پیش ِمن از ہنر ہائے خویش
کہ دانندہ ترہست دانائے خویش

بگفتانہ بینی کہ تقدیر ِپاک
ودیعت نہاد ست در زیر ِخاک

گل و سبزہ و غلہ ہاو شکر
غذا ہائے مرعوب ِہر جانور

بسا خوردینہا و پوشیدنی
شراب و عرقہائے نوشیدنی

کشاورزیا بدزمن دست رنج
وہم مایہء زندگی گنج گنج
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 309

صلاد ادہ امازپےء خاص و عام
زخوانم رُبایند آب و طعام

خرد اسپ وگاوان وآہوومیش
کنند از گیاہم پُرانبان ِخویش

چرد گلہ گوسفند وبرہ
علفائےشیرین وبرگ ِترہ

اگر بلبل وطوطی وفاختہست
ہم ازدانہ ام طمعہء ساختہ ست

سپہرم بسر سائباں می تند
ہوا بارد وبرق نوبت زند

زبحر ِمحیط ابر آید دواں
کندرودوجوہا برویم رواں

بسے چشمہ سارو بسے آبگیر
کشادہ بسرابیم جوئے شیر

ہمی نفع خیزدزآب و گلم
ذخیرہ نہدہر کسے حاصلم

برند آدمی غلہ خروارہا
کشدکشتی از خرمننم بارہا

چہ می پُرسی اے کوہ از سود ِمن
جہانیست پرمایہ از جود ِمن

اگر دیدہ سبتیدہ بودے ترا
چوخورشید سودم نمودےترا

جبل دادپاسخ بہ حلم ووقار
جدل مہتراں رابو دننگ و عار

کہ اے سادہ میداں براہ ستیز
سمند ِتفاخر مران تُندو تیز

متاعے کہ اینک بدامان ِتست
الاٌتانگوئی کہ از آن ِتست

رسدارمغانم زدریائے ژرف
کنم اندک اندک ازاں برتوصرف

نہ بینی کہ برگرد ِمن سال وماہ
زند خیمہ یا رندہ ابر ِسیاہ

زہر جانبے روکند سوئے من
ہجوم آورد پشت و پہلوئے من
 

عمران خان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی۔۔صفحہ- 291 تا 330

صفحہ - 310

گہے ژالہ بارد گہے آب ِپاک
گہے برف ریزد بغاردمغاک

زندازدردن ِدلم چشمہ جوش
زدیبائے خضرم کند سبزہ پوش

برسم ِکریمانہ پیش از سوال
بہ پستی کنم نفقہ آب ِزلال

نم جود و لطفم بہ ہر جا رسد
بسے سیلہاتا بصحرا رسد

بسے رود خانہ بسے آبداں
زرشحات ِفیضم شودتردہاں

ہر آں نہروجدال کہ سقائے تست
ہر آں حوض وچاہے کہ درپائے تست

دہد آبت از آبیاری ِمن
بیاد ببیں خیر ِجاری ِمن

مراکارہموارہ بخشندگی ست
وجودم ترا مایہء زندگی ست

گراز من نہ بذل ونوالت رسد
زیان ِعظیمے بحالت رسد

بمانی یکے دشت ویرانہ
نہ یک پٌرکا ہے نہ یک دانہ

اگر من نمان بمانی خراب
نہ یک شاخ ِسبزے نہ یک بےخواب

نہ خنددبہ امان تویک ِگلُے
نہ خواند بہ بستان ِتو بُلبُلے

نہ یک قرص ِناں خیز داز کشت ِتو
نہ بیند کسے طلعت ِزشت تو

نہ دیار بینی تو از بحرداں
مگر بینی آوارہ خلیل وداں

تودر کنہ قدرت مبیں سرسری
کند ذرٌہ با ذرٌہ یار یگری
 
Top