کس کس طرح سے چلتی ہے باد بہار مست

کس کس طرح سے چلتی ہے باد بہار مست
زاہد بھی دیکھ ہو گیا جوں بادہ خوار مست
پہنچے ہے مئے پرست کو تجھ چشم کے کہیں
بلبل اگر ہو ساغر گل سے ہزار مست
ساقی اگر دے اک مئے ارغواں کا جام
ایسی غزل پڑھوں کہ ابھی سب ہوں یار مست
دامن تلک ہو چاک گریبان گل اگر!
سنبل کی طرح جیب کریں تار تار مست
اب کے چمن میں آئی ہے وہ نو بہار مست
گل مست، غنچہ مست اور خار خار مست
بھرتی ہے یہ بھی بط مئے اپنی لہر میں
ہر ایک عندلیب ہے گویا ہزار است
پی پی کے پڑھ میں ہے یہ پپیہا نشہ کے بیچ
قمری جدی ہے کوکو میں ایک خاکسار مست
یاقوت کا ہے جام ہر ایک گل کے ہاتھ میں
سکتہہے سب چمن پہ جو ہو لالہ زار مست
فوارہ بات بات میں پڑتا ہے اب اچھل
دیکھو جو آبشار کو بھی اشکبار مست
مطرب ترانہ سنج ہے موج ہوا کو دیکھ
ابر سیاہ آوے ہے بے اختیار مست
مینائے سرد سے جو دوبالا ہوئی ہے کیف
بیٹھے ہیں جور بار کے اب دار یار مست
چشمک زنی حباب کی ہوتی ہے دم بدل
یعنی ہے عالم آب کاہو اک بار مست
ایماؔن آج اور ہے کیفیت چمن!!
دیوار ودر ہیں مست ہراک برگ و بار مست


شیر محمد خان ایماؔن اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف دوم میں حیدر آباد کے استاد سخن تھے۔۱۷۷۰میں آصف جاہ ثانی علی خان کے عہد میں، سلطنت آصفیہ کا دارالحکومت اورنگ آباد سے قطب شاہوں کے تاریخی پایۂ تخت، حیدرآباد کو منتقل ہوا تھا۔ ارسطو جاہ سلطنت کے وزیر اعلیٰ تھے، جن کے تدبرو فراست، علم دوستی اور ادب نوازی اور دادودہش کی داستانیں، حیدرآباد کی تاریخ کا جزو بن چکی ہیں۔ایماؔن کو ارسطو جاہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ ایماؔن اپنے زمانے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی تھے۔ وقائع نگاری کی خدمت پر مامور تھے، اور اپنی تہذیبی شائستگی اور مجلسی رکھ رکھاؤ کی وجہ سے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں مغلیہ حکومت تیزی سے زوال کے مراحل طے کر رہی تھی۔ دہلی پر پے درپے تباہیاں نازل ہو رہی تھیں۔ سوؔدا، میرحسنؔ اور مؔیر اس اجڑےدیار کو خیر باد کہہ کر لکھنؤ آ بسے تھے۔ لسانی اعتبار سے وہ دور ختم ہو چکا تھا جب کہ شعرائے دہلی، دکنی اردو کو معیاری زبان تسلیم کرتے تھے اور اسی میں شعر کہتے تھے۔ مرزا مظہؔر کی تحریک کے زیر اثر، دہلی کی بولی معیاری اردو قرار پا چکی تھی، اور اہل دکن نے بھی تدریجی طور پر، دہلی کی زبان کو معیار کے طور پر قبول کر لیا تھا، ایماؔن دہلی کی معیاری اردو میں شعر کہنے والے، اولین شعرائے حیدرآباد میں شمار ہوتے تھے۔ اپنے زمانے میں وہ استاد وقت سمجھے جاتے تھے۔ ان کی شخصیت اور شاعرانہ مرتبہ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حیدرآباد میں مشاعروں کا اس وقت تک آغاز نہ ہوتا، جب تک ایماؔن تشریف نہ لے آتے۔ مشہور ریختی گو شاعر قؔیس، ماہ لقا بائی چؔندا، اور ملک الشعراء شیخ حفؔیظ دہلوی، ایماؔن کے شاگردوں میں تھے۔(کلیات ایماؔن:۷)
 
اس دیوان کی پی ڈی ایف میرے پاس موجود ہے۔ کیا کوئی صاحب فورم میں پی ڈی ایف فائل شامل کرنے کے طریقے کی طرف رہ نمائی فرما سکتے ہیں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس دیوان کی پی ڈی ایف میرے پاس موجود ہے۔ کیا کوئی صاحب فورم میں پی ڈی ایف فائل شامل کرنے کے طریقے کی طرف رہ نمائی فرما سکتے ہیں؟

بہت عمدہ غزل ہے شریکِ محفل کرنے کا بہت شکریہ جاوید صاحب۔ امید ہے ایمان کی مزید غزلیں بھی پوسٹ کرتے رہیں گے۔ کلیاتِ ایمان آرکائیو ڈاٹ او آر جی پر اس لنک سے بھی ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے۔
ربط یہ ہے۔
 
Top