کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے ۔تہذیب حافی

کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے

عجیب دکھ ہے ہم اُس کے ہو کر بھی اُس کو چھونے سے ڈر رہے ہیں
ؔعجیب دکھ ہے ہمارے حصے کی آگ اوروں میں بٹ رہی ہے

میں اُس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو ۔ یہاں کوئی مسئلہ ہے تمھاری آواز کٹ رہی ہے

مجھ ایسے پیڑؤں کے سوکھنے اور سبز ہونے سے کیا کسی کو
یہ بیل شاید کسی مصیبت میں ہے جو مجھ سے لپٹ رہی ہے

یہ وقت آنے پہ اپنی اولاد اپنے اجداد بیچ دے گی
جو فوج دشمن کو اپنا سالار گروی رکھ کر پلٹ رہی ہے

سو اس تعلق میں جو غلط فہمیاں تھیں اب دور ہو رہی ہیں
رُکی ہوئی گاڑیوں کے چلنے کا وقت ہے دھندھ چھٹ رہی ہے

تہذیب حافی
 
Top