کسی کے پیار کو ایسے بھلایا جا نہیں سکتا ----برائے اصلاح

الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
خلیل الرحمن
------------------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
-------
کسی کے پیار کو ایسے بھلایا جا نہیں سکتا
دیا روشن جو دل میں ہو بجھایا جا نہیں سکتا
-----------
جو گِر جاتے ہیں نظروں سے انہیں سب بھول جاتے ہیں
دلوں میں مرتبہ پھر سے وہ پایا جا نہیں سکتا
--------------یا
انہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
---------
بتا دے حل مجھے کوئی میں روکوں کس طرح ان کو
خیالوں پر تو تالا بھی لگایا جا نہیں سکتا
--------------
سدا دل میں جو رہتی ہے تری تصویر آویزاں
میں چاہوں بھی اگر اس کو ہٹایا جا نہیں سکتا
--------------------
ابھی تک گونجتی ہے وہ تری آواز کانوں میں
ترے الفاظ کا جادو بھلایا جا نہیں سکتا
------------
مقدّر میں جدائی تھی اسے میں روکتا کیسے
لکھا ہوتا ہے قسمت میں مٹایا جا نہیں سکتا
-------------
ملاقاتوں کا وہ منظر سمایا ہے جو آنکھوں میں
میں کیسے بھول سکتا ہوں بھلایا جا نہیں سکتا
-------------
جوانی کی یہ باتیں ہیں بھلا دے اب انہیں ارشد
جو لمحہ بیت جاتا ہے وہ لایا جا نہیں سکتا
------------
 
مکرمی ارشد صاحب، آداب۔ تفصیلا شاید نہ لکھ پاوں، صرف سامنے کے کچھ نکات کی نشاندہی کئے دیتا ہوں۔

کسی کے پیار کو ایسے بھلایا جا نہیں سکتا
دیا روشن جو دل میں ہو بجھایا جا نہیں سکتا
دوسرا مصرعہ اچھا ہے، مگر پہلے سے مربوط نہیں جس کی وجہ سے بیان مبہم ہے۔ علاوہ ازیں، مصرعہ ثانی میں الفاظ کی ترتیب ذرا سی بدل دیں اور پھر کچھ اور گرہ لگا کر دیکھیں۔
دیا جو دل میں روشن ہو، بجھایا جا نہیں سکتا

جو گِر جاتے ہیں نظروں سے انہیں سب بھول جاتے ہیں
دلوں میں مرتبہ پھر سے وہ پایا جا نہیں سکتا
--------------یا
انہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
مصرعے باہم مربوط نہیں ہیں۔ دوسری صورت جو آپ نے لکھی ہے، ربط کے لحاظ سے وہ بہتر ہے مگر مزید بہتری کی گنجائش ہے۔
بہتر ہے شعر میں دوبارہ فکر کریں۔

بتا دے حل مجھے کوئی میں روکوں کس طرح ان کو
خیالوں پر تو تالا بھی لگایا جا نہیں سک
درست محاورہ زبان پہ تالا لگانا ہے۔ سوچ یا خیالات پر پہرا بٹھایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ واضح نہیں ہورہا کہ کن خیالات سے پیچھا چھڑانے کی بات ہورہی ہے؟ دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں۔
کہ یادوں پر تو پہرا بھی بٹھایا جا نہیں سکتا

سدا دل میں جو رہتی ہے تری تصویر آویزاں
میں چاہوں بھی اگر اس کو ہٹایا جا نہیں سکتا
یہی مضمون، الفاظ کی ذرا سی تبدیلی سے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔
تری تصویر آویزاں رہے گی تا ابد دل میں
مرے جیتے جی تو اس کو ہٹایا جا نہیں سکتا

ابھی تک گونجتی ہے وہ تری آواز کانوں میں
ترے الفاظ کا جادو بھلایا جا نہیں سکتا
پہلے مصرعے میں "وہ" بھرتی کا معلوم ہوتا، صرف وزن پورا کرنے کے لئے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
تری آواز اب تک گونجتی رہتی ہے کانوں میں
دوسرے مصرعے میں الفاظ کے جادو سے کچھ بہتر لانے کے بارے میں سوچیں، جیسے لہجے یا الفاظ کی شیرینی، اپنائیت وغیرہ

مقدّر میں جدائی تھی اسے میں روکتا کیسے
لکھا ہوتا ہے قسمت میں مٹایا جا نہیں سکتا
پہلے مصرعے کے اجزا کی ترتیب بدل دیں، یعنی
میں کیسے روکتا اس کو، مقدر میں جدائی تھی
دوسرا مصرعہ فصیح نہیں ہے۔ اصولا یہ کہنا چاہیئے کہ "جو قسمت میں لکھا ہو وہ مٹایا نہیں جا سکتا" ۔۔۔ مصرعے کو یوں کرکے دیکھیں؟
جو قسمت میں لکھا ہو وہ مٹایا جا نہیں سکتا

ملاقاتوں کا وہ منظر سمایا ہے جو آنکھوں میں
میں کیسے بھول سکتا ہوں بھلایا جا نہیں سکتا
پہلا مصرعہ بنت میں کمزور ہے۔ علاوہ ازیں جب آپ "ملاقاتوں" کہہ رہے ہیں تو اصولا اس کے مقابل "مناظر" لانا چایئے کیونکہ یہاں تذکرہ ایک شخص کی دوسرے سے مخلتف نشستوں میں ملاقاتوں کا ہے۔ مجھے دوسرے مصرعے کی بنت اچھی لگ رہی ہے، اگر پہلے مصرعے میں مناسب گرہ لگائی جائے تو بہت جاندار شعر تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ فکر آپ کے حوالے :)

جوانی کی یہ باتیں ہیں بھلا دے اب انہیں ارشد
جو لمحہ بیت جاتا ہے وہ لایا جا نہیں سکتا
پہلے مصرعے میں مجھے تعقید محسوس ہو رہی ہے۔ الفاظ کی ترتیب بدل دیں
یہ باتیں ہیں جوانی کی، انہیں اب بھول جا ارشد
یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔ یوں تو غزل تقریباً مسلسل ہی ہے، تاہم ’’یہ باتیں‘‘ پر سوال اٹھ سکتا ہے کہ ’’کون سی باتیں‘‘؟؟؟ یعنی مفہوم کی وضاحت زیرِ سوال آسکتی ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے
جوانی کی حکایاتِ مسرت بھول جا ارشدؔ
دوسرے مصرعے میں "دوبارہ" کسی طرح لانے کی کوشش کریں، اس کے بغیر بات نہیں بن رہی۔

دعاگو،
راحل
 
آخری تدوین:
محمّد احسن سمیع :راحل:
---------------
راحل بھائی غزل کو ریوائز کیا ہے ، سرخ رنگ کے مصرعے تبدیل شدہ ہیں
-----------
کسی کے پیار کو ہرگز بھلایا جا نہیں سکتا
دیا روشن جو دل میں ہو بجھایا جا نہیں سکتا
------------
نظر آ بھی کہیں جائیں ،نظر سے گر گئےہوں جا
اُنہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
------------

چلے آتے ہیں رہ رہ کر ،رکیں گے کب مرے روکے
خیالوں پر تو تالا بھی لگایا جا نہیں سکتا
-----------------

سدا رہتی ہے دل میں اک تری تصویر آویزاں
میں چاہوں بھی ہٹانا تو ہٹایا جا نہیں سکتا
-----------
ابھی تک نغمہ زن ہےوہ تیری آواز کانوں میں
ترے انداز کا جادو بھلایا جا نہیں سکتا

----------------
مقدّر میں جدائی تھی ، مقدّر کی ساہی کو
لہو کے آنسووں سے بھی مٹایا جا نہیں سکتا

----------------
ملاقاتوں کا ہر منظر سمایا ہے نگاہوں میں
بھلانا لاکھ میں چاہوں بھلایا جا نہیں سکتا
-------------

جوانی کی یہ باتیں ہیں بھلا دے اب انہیں ارشد
کہیں سےعہدِ رفتہ بھی تو لایا جا نہیں سکتا

---------------
 

الف عین

لائبریرین
کسی کے پیار کو ہرگز بھلایا جا نہیں سکتا
دیا روشن جو دل میں ہو بجھایا جا نہیں سکتا
------------ ربط تو اب بھی محسوس نہیں ہو رہا

نظر آ بھی کہیں جائیں ،نظر سے گر گئےہوں جا
اُنہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
------------ اولی مصرع سمجھ میں نہیں آیا

چلے آتے ہیں رہ رہ کر ،رکیں گے کب مرے روکے
خیالوں پر تو تالا بھی لگایا جا نہیں سکتا
----------------- درست

سدا رہتی ہے دل میں اک تری تصویر آویزاں
میں چاہوں بھی ہٹانا تو ہٹایا جا نہیں سکتا
----------- تصویر مؤنث ہے، ردیف مذکر۔ ہاں اگر 'کو' استعمال کیا جائے تو درست ہو سکتا ہے
اگر چاہوں بھی میں، اس کو ہٹایا......
پہلا مصرعہ بھی یہ بہتر ہو گا
تری تصویر آویزاں ہے کچھ ایسے مرے دل میں

ابھی تک نغمہ زن ہےوہ تیری آواز کانوں میں
ترے انداز کا جادو بھلایا جا نہیں سکتا
---------------- آواز کا نغمہ زن ہونا عجیب ہے
تری آواز اب تک گونجتی رہتی ہے کانوں میں

مقدّر میں جدائی تھی ، مقدّر کی ساہی کو
لہو کے آنسووں سے بھی مٹایا جا نہیں سکتا
---------------- جدائی والی بات غیر مربوط ہے

ملاقاتوں کا ہر منظر سمایا ہے نگاہوں میں
بھلانا لاکھ میں چاہوں بھلایا جا نہیں سکتا
------------- درست

جوانی کی یہ باتیں ہیں بھلا دے اب انہیں ارشد
کہیں سےعہدِ رفتہ بھی تو لایا جا نہیں سکتا
--------------- درست
 
الف عین
کسی کی یاد آتی ہے بھلایا جا نہیں سکتا
دیا روشن جو دل میں ہے بجھایا جا نہیں سکتا
-------------
چلے آتے ہیں رہ رہ کر ،رکیں گے کب مرے روکے
خیالوں پر تو تالا بھی لگایا جا نہیں سکتا
------------
تری تصویر آویزاں ہے کچھ ایسے مرے دل میں
اگر چاہوں بھی میں اس کو ہٹایا جا نہیں سکتا
------------
مقدّر میں جدائی تھی اسے میں روکتا کیسے
لکھا ہوتا ہے قسمت میں مٹایا جا نہیں سکتا
-------------
 

الف عین

لائبریرین
دو مزید شعر درست قرار دیے گئے تھے.، انہیں شامل نہیں کیا؟
مطلع اب بھی دو لخت لگتا ہے
آخری شعر میں بھی دوسرے مصرعے میں 'جو' ضروری لگتا ہے
نوشتہ تھا جو قسمت کا، مٹایا......
کیا جا سکتا ہے
 
Top