مہ جبین
محفلین
کسی نے بھُول کے دیکھا نہ آنکھ اٹھا کے مجھے
سجا گئے وہ کہاں آئینہ بنا کے مجھے
نسیمِ صبح کا یہ لمس ہو نہیں سکتا
نظر بھی آؤ کہاں چھپ گئے جگا کے مجھے
ستم ظریفیء صورت گرِ بہار نہ پوچھ
بساطِ رنگ اُلٹ دی جھلک دکھا کے مجھے
اُدھر سے تیر جو آئے سجا لئے دل میں
نگاہِ ناز پشیماں ہے آزما کے مجھے
حزیں صدیقی