گُلِ یاسمیں
لائبریرین
چھمک اور کمرااااااااااااااااااااااااااااا۔۔۔۔ اتنا فرق۔ توبہ توبہ۔ان کی کمر کو کمرے سے تشبیہ دیتے ہوں گے
چھمک اور کمرااااااااااااااااااااااااااااا۔۔۔۔ اتنا فرق۔ توبہ توبہ۔ان کی کمر کو کمرے سے تشبیہ دیتے ہوں گے
غم ناک اور ہمیں اپن ے اور قاری صاحب کے بیشتر واقعات یاد آگئے۔ اساتذہ کو سوتے کم دیکھا مگر ہمارے ایک قاری صاحب ہوتے تھے جو ہم سب کزنز کو سبق دہرانے کا کہہ کر سو جایا کرتے تھے۔ جب وہ گھر آتے تھے تو میرا چچازاد بھائی گیٹ سے سب کو الرٹ کرنے کے لیے اونچی آواز میں کہتا تھا القارعۃ مالقارعۃ!!!!! اور جب قاری صاحب سو رہے تھے ایک دن تو میں نے جان بوجھ کے اپنی کزن کو جس کا نام اقراّ تھا بار بار کہا اقرا بسم ربک الذی خلق۔۔۔اقرا۔۔۔۔اقرا۔۔۔۔اقرا۔۔۔۔قاری صاحب نیند سےجاگ گئے اور وہ کمر میں مکیاں لگائیں کہ بس!!بہوؤں ڈاڈھی لگدی جے بھئی۔
لگدا نوا فارمیٹ بوہت بورنگ ہے تو میں ہلکی پھلکی ڈھولکی سے انٹرٹینمنٹ کا انتظام کئے رکھتا ہوں۔
گئے دنوں کی بات ہے ادارہ غالباً ساتویں یا آٹھویں میں تھا ۔ تب مار نہیں پیار ٹائپ جیسے نعروں نے ابھی تک پنجاب کے سکولوں تک رسائی حاصل نہ کی تھی اور یوں بھی غالباً یہ مشہور تھا کہ "ہڈیاں ساڈیاں تے کھلڑی تہاڈی" ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دن نکے اور راتیں لمبی ہوتی تھیں لیکن پھر بھی نجانے کیوں ہمارے اک استادِ محترم کی نیند مکمل نہ ہوتی تھی تو وہ باقی کی کوٹہ کلاس میں پورا کرتے تھے۔ تو ایسے ہی نکے دن میں کافی دنوں بعد سورج دھند کی دبیز تہوں میں سے درشن کروائے تو استاد جی فرماتے کہ سب اپنی تشریف کی ٹوکریاں اور ذراعت کی کتاب اٹھا کر گراؤنڈ پہنچ جائیں اور ایک بندہ میری کرسی بھی لے چلے۔ سب گراؤنڈ میں پہنچے تو استاد محترم نے ایک کونا تلاش کیا جہاں وٹامن ڈی براہ راست انکے چہرہ انور کو مل رہا تھا ہمیں کچھ لائنیں بتائیں رٹا مارنے کو اور خود خراٹے مارنے لگے۔ کچھ لمحوں کے بعدرٹوں کا شور آپسی باتوں اور نہ معقول کھی کھی میں بدل گیا۔ ایسی ہی ایک بدنصیب گھڑی میں استاد جی کی آنکھ کھل گئی جس پر انہیں خوب طیش آیا ہے۔ پہلے تو وہ خوب گرجے کہ یار اکھ وی نہیں جے لگن دیندے فئیر کچھ خیال آیا تو اپنا ڈنڈا ڈھونڈنے لگے لیکن وہ کلاس مانٹیر کلاس سے لایا ہی نہ تھا تو سب نے سوچا چلو بچت ہو جائے گی لیکن غالباً اس دن وہ بیوی سے لڑ کر آئے تھے کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ کرسی سے اُٹھے اور ہٹ قریبی سفیدے کے درخت سے لٹکی نکی جئی "چھمک" کو توڑا اور لگے برسانے جو بھی سامنے آیا۔ یوں تو شاید کوئی ہی اس فیض سے محروم رہا ہو لیکن ادارہ چونکہ سب سے پیچھے اور سب سے پہلا ٹارگٹ تھا اور اس وقت قوت بھی بحال تھی تو باوجود ایک اندرونی اور بیرونی جرسی کے کمر سے نشان ہفتہ بھر نہ گئے تھے۔ وغیرہ وغیرہ
شاعر سے پوچھنا پڑے گا 😂اور جو محبوب ذرا بھاری بھر کم ہوں ، کیا ان کی کمر کو سوٹی سے تشبیہ دیتے ہیں؟
پہلے تو پوچھ کر نہیں بتایا۔۔۔ اب کیوں پوچھنا ہےشاعر سے پوچھنا پڑے گا 😂
ان کی کمر کو کمرے سے تشبیہ دیتے ہوں گے
اسی سے شعر یاد آیاچھمک اور کمرااااااااااااااااااااااااااااا۔۔۔۔ اتنا فرق۔ توبہ توبہ۔
سمجھ تے ویرے نوں لگی، اسیں تے صبح اٹھ کے پچھنا ہیر بڈھی سی کہ بندہ سی!مریم افتخار ہُن لگی سمجھ چھمکاں دی؟
تاریخی اہمیت تو ہے نہیں، نوعیت کا سوال زیادہ مناسب رہے گااب علمی بھی نہ رہی تو کیا بچا پیچھے۔
آزادی سے بعد والا سوال کر لینا چاہیئے
ہال کہہ دیں پھر؟چھمک اور کمرااااااااااااااااااااااااااااا۔۔۔۔ اتنا فرق۔ توبہ توبہ۔
ساڈے کول بھیجو بیگم نوں۔۔۔ روز 10 ، 10 کلومیٹر چلا کے بس کر دیاں گے۔اسی سے شعر یاد آیا
ڈائٹنگ کھیل نہیں دو چار دنوں کا بیگم
اک مدت چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک
اب کونسی نوعیت پوچھی جائے ؟ بہت سے سوال ضائع ہونے کا احتمال ہے۔تاریخی اہمیت تو ہے نہیں، نوعیت کا سوال زیادہ مناسب رہے گا
کہنے کو تو بلڈنگ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اس میں شاعری والا سواد کوئی ناں۔ہال کہہ دیں پھر؟
ویسے حیران کُن نہ تو بچپن میں سیپارہ پڑھتے اور نہ پچپن میں حفظ کرتے قاری صاب سے کوئی پُر تشدد قسم کی مار نہیں کھائی حالانکہ مدرسوں کی وجہ شہرت یہی رہی ہے۔غم ناک اور ہمیں اپن ے اور قاری صاحب کے بیشتر واقعات یاد آگئے۔
اگر کوئی لیلی کی اصل تصویر دیکھ لے۔۔۔اور ایک اور پتہ نہیں شاید مصر کی پرانی بیوٹی کوئین کی تو لگ سمجھ جائے گی کہ حسن نظر میں ہی ہے، کمریاں ہالاں وچ نئیں!شاعر سے پوچھنا پڑے گا 😂
تیری کمر کو کمرے سے تشبیہہ نہیں دیتااسی سے شعر یاد آیا
ڈائٹنگ کھیل نہیں دو چار دنوں کا بیگم
اک مدت چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک
ٹھیک ہے، لوکیشن پہ فوکس کریں پھر۔اب کونسی نوعیت پوچھی جائے ؟ بہت سے سوال ضائع ہونے کا احتمال ہے۔
لوکیشن پہ نہ فوکس کیا جائے؟
حیران کن۔ویسے حیران کُن نہ تو بچپن میں سیپارہ پڑھتے اور نہ پچپن میں حفظ کرتے قاری صاب سے کوئی پُر تشدد قسم کی مار نہیں کھائی حالانکہ مدرسوں کی وجہ شہرت یہی رہی ہے۔
مجھے قاری صاحب سے ہمیشہ ماریں پڑیں اور وہ بھی شرارتوں پہ، کبھی سبق پہ نہیں۔ویسے حیران کُن نہ تو بچپن میں سیپارہ پڑھتے اور نہ پچپن میں حفظ کرتے قاری صاب سے کوئی پُر تشدد قسم کی مار نہیں کھائی حالانکہ مدرسوں کی وجہ شہرت یہی رہی ہے۔
غمناک و نمناکغم ناک اور ہمیں اپن ے اور قاری صاحب کے بیشتر واقعات یاد آگئے۔ اساتذہ کو سوتے کم دیکھا مگر ہمارے ایک قاری صاحب ہوتے تھے جو ہم سب کزنز کو سبق دہرانے کا کہہ کر سو جایا کرتے تھے۔ جب وہ گھر آتے تھے تو میرا چچازاد بھائی گیٹ سے سب کو الرٹ کرنے کے لیے اونچی آواز میں کہتا تھا القارعۃ مالقارعۃ!!!!! اور جب قاری صاحب سو رہے تھے ایک دن تو میں نے جان بوجھ کے اپنی کزن کو جس کا نام اقراّ تھا بار بار کہا اقرا بسم ربک الذی خلق۔۔۔اقرا۔۔۔۔اقرا۔۔۔۔اقرا۔۔۔۔قاری صاحب نیند سےجاگ گئے اور وہ کمر میں مکیاں لگائیں کہ بس!!
ایک اور قاری صاحب تھے اس سے پہلے جن کے گھر پورے گاؤں کے بچے سیپارہ پڑھنے جاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بچی کو مار پڑ رہی تھی اور میری اس کی جانب پشت تھی، میں سوٹی کی آوازیں گنتی رہی اور جب وہ واپس آ کے برابر بیٹھی تو میں نے کہا بہن، سولہ تھیں! اس نے جا کے روتے ہوئے قاری صاحب کو بتا دیا اور قاری صاحب نے کہا: آ جا پتر، تے ہن گن کنیاں نیں! پھر اس کے بعد وہ دھلائی ہوئی کہ آج تک چراغوں میں روشنی وغیرہ نہیں رہتی۔ قاری صاحب کو ذرا سا مذاق بھی ہضم کیوں نہ ہوتا تھا بھلا!
صحیح کہا۔ حسن تو نظر ہی میں ہوتا ہےکیونکہ یہ کسی چہرے یا جسمانی ساخت کا محتاج نہیں، بلکہ دیکھنے والے کی نظر اور دل کی کیفیت میں چھپا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے خزاں کے زرد پتے بھی شاعری کا استعارہ بن جاتے ہیں، تو کسی کے لیے بہار کے رنگین پھول بھی بے معنی نظر آتے ہیں۔ایسے ہی لیلی جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ بہت کالی تھی۔ لیکن مجنوں تو دیوانہ تھا اس کا۔اگر کوئی لیلی کی اصل تصویر دیکھ لے۔۔۔اور ایک اور پتہ نہیں شاید مصر کی پرانی بیوٹی کوئین کی تو لگ سمجھ جائے گی کہ حسن نظر میں ہی ہے، کمریاں ہالاں وچ نئیں!