کسوٹی #24

بہوؤں ڈاڈھی لگدی جے بھئی۔
لگدا نوا فارمیٹ بوہت بورنگ ہے تو میں ہلکی پھلکی ڈھولکی سے انٹرٹینمنٹ کا انتظام کئے رکھتا ہوں۔

گئے دنوں کی بات ہے ادارہ غالباً ساتویں یا آٹھویں میں تھا ۔ تب مار نہیں پیار ٹائپ جیسے نعروں نے ابھی تک پنجاب کے سکولوں تک رسائی حاصل نہ کی تھی اور یوں بھی غالباً یہ مشہور تھا کہ "ہڈیاں ساڈیاں تے کھلڑی تہاڈی" ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دن نکے اور راتیں لمبی ہوتی تھیں لیکن پھر بھی نجانے کیوں ہمارے اک استادِ محترم کی نیند مکمل نہ ہوتی تھی تو وہ باقی کی کوٹہ کلاس میں پورا کرتے تھے۔ تو ایسے ہی نکے دن میں کافی دنوں بعد سورج دھند کی دبیز تہوں میں سے درشن کروائے تو استاد جی فرماتے کہ سب اپنی تشریف کی ٹوکریاں اور ذراعت کی کتاب اٹھا کر گراؤنڈ پہنچ جائیں اور ایک بندہ میری کرسی بھی لے چلے۔ سب گراؤنڈ میں پہنچے تو استاد محترم نے ایک کونا تلاش کیا جہاں وٹامن ڈی براہ راست انکے چہرہ انور کو مل رہا تھا ہمیں کچھ لائنیں بتائیں رٹا مارنے کو اور خود خراٹے مارنے لگے۔ کچھ لمحوں کے بعدرٹوں کا شور آپسی باتوں اور نہ معقول کھی کھی میں بدل گیا۔ ایسی ہی ایک بدنصیب گھڑی میں استاد جی کی آنکھ کھل گئی جس پر انہیں خوب طیش آیا ہے۔ پہلے تو وہ خوب گرجے کہ یار اکھ وی نہیں جے لگن دیندے فئیر کچھ خیال آیا تو اپنا ڈنڈا ڈھونڈنے لگے لیکن وہ کلاس مانٹیر کلاس سے لایا ہی نہ تھا تو سب نے سوچا چلو بچت ہو جائے گی لیکن غالباً اس دن وہ بیوی سے لڑ کر آئے تھے کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ کرسی سے اُٹھے اور ہٹ قریبی سفیدے کے درخت سے لٹکی نکی جئی "چھمک" کو توڑا اور لگے برسانے جو بھی سامنے آیا۔ یوں تو شاید کوئی ہی اس فیض سے محروم رہا ہو لیکن ادارہ چونکہ سب سے پیچھے اور سب سے پہلا ٹارگٹ تھا اور اس وقت قوت بھی بحال تھی تو باوجود ایک اندرونی اور بیرونی جرسی کے کمر سے نشان ہفتہ بھر نہ گئے تھے۔ وغیرہ وغیرہ
 

یاز

محفلین
چھمکاں ہیر نے وی بہوت ماریاں رانجھے نوں ۔جدوں پہلی واری ملے سی۔
خواجہ غلام فرید صاحب نے وی کہیا کہ:
اچیاں لمیاں لال کھجوراں
تے پتر جنہاں دے ساوے
ننگے پنڈے میکوں چھمکاں ماریں
تے میرے روندے نین نمانے
غلام فریدا! دل اوتھے دیئے
جتھے اگلا قدر وی جانے
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہوؤں ڈاڈھی لگدی جے بھئی۔
لگدا نوا فارمیٹ بوہت بورنگ ہے تو میں ہلکی پھلکی ڈھولکی سے انٹرٹینمنٹ کا انتظام کئے رکھتا ہوں۔

گئے دنوں کی بات ہے ادارہ غالباً ساتویں یا آٹھویں میں تھا ۔ تب مار نہیں پیار ٹائپ جیسے نعروں نے ابھی تک پنجاب کے سکولوں تک رسائی حاصل نہ کی تھی اور یوں بھی غالباً یہ مشہور تھا کہ "ہڈیاں ساڈیاں تے کھلڑی تہاڈی" ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دن نکے اور راتیں لمبی ہوتی تھیں لیکن پھر بھی نجانے کیوں ہمارے اک استادِ محترم کی نیند مکمل نہ ہوتی تھی تو وہ باقی کی کوٹہ کلاس میں پورا کرتے تھے۔ تو ایسے ہی نکے دن میں کافی دنوں بعد سورج دھند کی دبیز تہوں میں سے درشن کروائے تو استاد جی فرماتے کہ سب اپنی تشریف کی ٹوکریاں اور ذراعت کی کتاب اٹھا کر گراؤنڈ پہنچ جائیں اور ایک بندہ میری کرسی بھی لے چلے۔ سب گراؤنڈ میں پہنچے تو استاد محترم نے ایک کونا تلاش کیا جہاں وٹامن ڈی براہ راست انکے چہرہ انور کو مل رہا تھا ہمیں کچھ لائنیں بتائیں رٹا مارنے کو اور خود خراٹے مارنے لگے۔ کچھ لمحوں کے بعدرٹوں کا شور آپسی باتوں اور نہ معقول کھی کھی میں بدل گیا۔ ایسی ہی ایک بدنصیب گھڑی میں استاد جی کی آنکھ کھل گئی جس پر انہیں خوب طیش آیا ہے۔ پہلے تو وہ خوب گرجے کہ یار اکھ وی نہیں جے لگن دیندے فئیر کچھ خیال آیا تو اپنا ڈنڈا ڈھونڈنے لگے لیکن وہ کلاس مانٹیر کلاس سے لایا ہی نہ تھا تو سب نے سوچا چلو بچت ہو جائے گی لیکن غالباً اس دن وہ بیوی سے لڑ کر آئے تھے کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ کرسی سے اُٹھے اور ہٹ قریبی سفیدے کے درخت سے لٹکی نکی جئی "چھمک" کو توڑا اور لگے برسانے جو بھی سامنے آیا۔ یوں تو شاید کوئی ہی اس فیض سے محروم رہا ہو لیکن ادارہ چونکہ سب سے پیچھے اور سب سے پہلا ٹارگٹ تھا اور اس وقت قوت بھی بحال تھی تو باوجود ایک اندرونی اور بیرونی جرسی کے کمر سے نشان ہفتہ بھر نہ گئے تھے۔ وغیرہ وغیرہ
مریم افتخار ہُن لگی سمجھ چھمکاں دی؟
 
Top