کر نہیں سکتا

نوید اکرم

محفلین
جہیز و زر لئے بن جو رفاقت کر نہیں سکتا
وہ عورت کی کبھی بھی دل سے عزت کر نہیں سکتا

سمجھتا ہو جو عورت کو فقط اک جسم اے لوگو!
وہ روحِ زن سے مر کر بھی محبت کر نہیں سکتا

نصیحت کر رہا ہے زن کو کس منہ سے وہ پردے کی
جو خود اپنی نگاہوں کی حفاظت کر نہیں سکتا

یہاں با ریش زانی بھی کھڑا ہوتا ہے منبر پر
مگر بے ریش نیکوکار امامت کر نہیں سکتا

جسے میں نے نہ دیکھا ہو، نہ سمجھا ہو، نہ جانا ہو
اسے اپنا بنانے کی حماقت کر نہیں سکتا

گیا ہے مجھ کو ساری زندگی کا روگ دے کر وہ
مگر اس شخص سے پھر بھی میں نفرت کر نہیں سکتا
 

الف عین

لائبریرین
غزل میں کوئی غلطی تو نہیں۔ لیکن پہلے تین اشعار محض عورت کے اسلامی شعار پر ہیں۔ چوتھا اسلامی معاشرہ پر۔ اور آخری دو اشعار رومانی ہیں۔ اگرچہ غزل میں یہ تو یقیناً اجازت ہے کہ ہر شعر الگ الگ ہو لیکن پھر بھی دو بالکل مختلف موضوعات (یا موضوعات کے گروپ) کھٹکتے ہیں۔
 
Top