کروں بات سچی یہ جرئت ملی ہے

کروں بات سچی یہ جراٰت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے
--------
نہیں کچھ خبر کب مجھے موت آئے
گنہ بخشوانے کی مہلت ملی ہے
----------
مجھے مطمئن دل دیا میرے رب نے
ملا چین دل کو ہے راحت ملی ہے
--------
خدا نے کیا ہے بہت فضل مجھ پر
زمانے میں مجھ کو جو عزّت ملی ہے
---------
بگڑتا نہیں ہے مرا کام کوئی
خدا سے مجھے ایسی قسمت ملی ہے
---------
مجھے امّتی جو بنایا نبی کا
یوں آقا سے کوئی تو نسبت ملی ہے
---------
مری بات سنتی ہے دنیا خوشی سے
زباں کو مری وہ حلاوت ملی ہے
---------
سدا سچ ہی کہنے عادت ہے جن کو
مجھے ان بزرگوں کی قربت ملی ہے
---------
نہیں بات کہتا جو کرتا نہیں ہوں
خدا سے مجھے اس کی ہمّت ملی ہے
--------
یہ ارشد پہ اس کے خدا کا کرم ہے
اسے دوستوں میں یہ عزّت ملی
------
 
آخری تدوین:
کروں بات سچی یہ جرئت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے
---------دوست بتا دیں کہ جرئت کا صحیح تلفّظ لکھنے میں کون کون سی کی استمال کرنی ہے
جرأت جرأت۔۔۔۔۔۔جرأت
پہلے الف لکھیں اور پھر شفٹ کے ساتھ 7 دبائیں الف کے اوپر ہمزہ آجائیگا۔
 
کروں بات سچی یہ جرأت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے۔۔۔مجھے اپنے رب سے یہ عادت ملی ہے
نہیں کچھ خبر کب مجھے موت آئے
گنہ بخشوانے کی مہلت ملی ہے
مجھے مطمئن دل دیا میرے رب نے۔۔۔۔۔۔دلِ مطمئن دے دیا مجھ کو رب نے
ملا چین دل کو ہے راحت ملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں کی طلب سے فراغت ملی ہے
خدا نے کیا ہے بہت فضل مجھ پر
زمانے میں مجھ کو جو عزّت ملی ہے
بگڑتا نہیں ہے مرا کام کوئی
خدا سے مجھے ایسی قسمت ملی ہے
مجھے امّتی جو بنایا نبی کا
یوں آقا سے کوئی تو نسبت ملی ہے
مری بات سنتی ہے دنیا خوشی سے
زباں کو مری وہ حلاوت ملی ہے
سدا سچ ہی کہنے کی عادت ہے جن کو۔۔۔۔سدا سچ ہی کہنے کی عادت ہے جن کو/سدا جن کو سچ بولتے میں نے دیکھا
مجھے ان بزرگوں کی قربت ملی ہے۔۔۔۔مجھے اُن بزرگوں کی صحبت ملی ہے/مجھے بس اُنھی کی رفاقت ملی ہے
نہیں بات کہتا جو کرتا نہیں ہوں۔۔۔۔نہیں کرسکوں جو وہ کہتا نہیں ہوں/نہ جو کرسکوں وہ میں کہتا نہیں ہوں
خدا سے مجھے اس کی ہمّت ملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا سے مجھے یہ طبیعت ملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ارشد پہ اس کے خدا کا کرم ہے
اسے دوستوں میں یہ عزّت ملی

شکیل احمدخان
از کراچی۔
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
کروں بات سچی یہ جراٰت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے
--------
نہیں کچھ خبر کب مجھے موت آئے
گنہ بخشوانے کی مہلت ملی ہے
----------
مجھے مطمئن دل دیا میرے رب نے
ملا چین دل کو ہے راحت ملی ہے
--------
خدا نے کیا ہے بہت فضل مجھ پر
زمانے میں مجھ کو جو عزّت ملی ہے
---------
بگڑتا نہیں ہے مرا کام کوئی
خدا سے مجھے ایسی قسمت ملی ہے
---------
مجھے امّتی جو بنایا نبی کا
یوں آقا سے کوئی تو نسبت ملی ہے
---------
مری بات سنتی ہے دنیا خوشی سے
زباں کو مری وہ حلاوت ملی ہے
---------
سدا سچ ہی کہنے عادت ہے جن کو
مجھے ان بزرگوں کی قربت ملی ہے
---------
نہیں بات کہتا جو کرتا نہیں ہوں
خدا سے مجھے اس کی ہمّت ملی ہے
--------
یہ ارشد پہ اس کے خدا کا کرم ہے
اسے دوستوں میں یہ عزّت ملی
------
کروں بات سچی یہ جراٰت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے

دیکھیئے عادت ملنے کا روز مرہ میں مطلب ہوتا ہے کسی جیسی عادت ہونا - جیسے کہا جاتا کہ اسے سیر کرنے کی عادت اس کے والد سے ملی ہے - تو رب عادت دیتا ہے رب سے عادت ملتی نہیں ہے کیونکہ روز مرہ میں عادت ملنے کا اور مطلب ہوتا ہے -

مجھے امّتی جو بنایا نبی کا
یوں آقا سے کوئی تو نسبت ملی ہے

دیکھئے کوئ تو کی اصطلاح کا مطلب ہوتا زیادہ نہ صحیح کم از کم کچھ نہ کچھ - تو اگر آپ کہہ رہے ہیں آپ امتی ہیں تو یہ تو سب سے بڑی نسبت ہوئ اسکو کوئ تو نسبت ملنا نہیں کہہ سکتے ہیں -
 

عظیم

محفلین
کروں بات سچی یہ جراٰت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے
-------- قادری صاحب کی بات میں دم ہے، عادت ملنا عجیب لگ رہا ہے، فطرت ملی ہے شاید قبول کر لیا جائے

نہیں کچھ خبر کب مجھے موت آئے
گنہ بخشوانے کی مہلت ملی ہے
----------ٹھیک

مجھے مطمئن دل دیا میرے رب نے
ملا چین دل کو ہے راحت ملی ہے
--------شکیل احمد خان کا مشورہ بہتر ہے، آپ کے شعر کا دوسرا مصرع الفاظ کی نشست کی وجہ سے اچھا نہیں لگ رہا، بطور خاص "ہے راحت"

خدا نے کیا ہے بہت فضل مجھ پر
زمانے میں مجھ کو جو عزّت ملی ہے
---------درست

بگڑتا نہیں ہے مرا کام کوئی
خدا سے مجھے ایسی قسمت ملی ہے
---------یہ بھی

مجھے امّتی جو بنایا نبی کا
یوں آقا سے کوئی تو نسبت ملی ہے
--------- اس پر بات ہو چکی ہے

مری بات سنتی ہے دنیا خوشی سے
زباں کو مری وہ حلاوت ملی ہے
---------ٹھیک

سدا سچ ہی کہنے عادت ہے جن کو
مجھے ان بزرگوں کی قربت ملی ہے
---------پہلے میں کوئی لفظ لکھنے سے رہ گیا ہے، شاید 'کی'
شعر درست ہے

نہیں بات کہتا جو کرتا نہیں ہوں
خدا سے مجھے اس کی ہمّت ملی ہے
--------یہ بھی ٹھیک

یہ ارشد پہ اس کے خدا کا کرم ہے
اسے دوستوں میں یہ عزّت ملی
یہ عزت کون سی عزت ہے یہ واضح نہیں
 

الف عین

لائبریرین
سدا سچ ہی کہنے عادت ہے جن کو
مجھے ان بزرگوں کی قربت ملی ہے
شعر درست تو ہے، لیکن درست تر محاورہ سچ کہنا نہیں، سچ بولنا ہوتا ہے شکیل میاں کی اصلاح بہتر ہے، یعنی یہ صورت
سدا جن کو سچ بولتے میں نے دیکھا
مجھے اُن بزرگوں کی صحبت ملی ہے
دوسری تجاویز میں شکیل میاں نے الفاظ کے ساتھ مفہوم بھی بدل دیا ہے، جو میرا طریقہ نہیں ہے
باقی عظیم کی اصلاح سے متفق ہوں
 
الف عین
شکیل احمد خان23
عظیم
-----------
اصلاح
------------
مطلع
----
عبادت کی مجھ کو جو عادت ملی ہے
خدا کی طرف سے سعادت ملی ہے
-----------یا
برائی سے مجھ کو جو نفرت ملی ہے
یہ اپنے بزرگوں سے عادت ملی ہے
----------یا
مجھے سر اٹھانے کی جراٰت ملی ہے
خدا کے کرم سے یہ ہمّت ملی ہے
----------
دلِ مطمئن دے دیا مجھ کو رب نے
جہاں کی طلب سے فراغت ملی ہے
-----------
یہ ارشد پہ اس کے خدا کا کرم ہے
کہ محبوبِ رب کی محبّت ملی ہے
----------یا
خدا کی حضوری میں رہتا ہے ارشد
اسی کے کرم سے یہ عادت ملی ہے
----------
 

الف عین

لائبریرین
'عادت ملی ہے' پر قادری صاحب کا اوپر کا مراسلہ دیکھیں۔
مطلع، پہلے متبادل میں ایطا کا سقم ہے
دوسرے میں وہی عادت،
تیسرے میں جرات اور ہمت تقریباً ہم معنی الفاظ اور ایک ہی بات کہی گئی ہے
محبت ملی ہے والا شعر قابل قبول ہے
لیکن معذرت کہ پھر وہی بات کہوں گا، کہ یہ محض درست بنا دیے جانے پر بھی قابل قبول اشعار کب تک کہیں گے؟
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
'عادت ملی ہے' پر قادری صاحب کا اوپر کا مراسلہ دیکھیں۔
مطلع، پہلے متبادل میں ایطا جا سقم ہے
دوسرے میں وہی عادت،
تیسرے میں جرات اور ہمت تقریباً ہم معنی الفاظ اور ایک ہی بات کہی گئی ہے
محبت ملی ہے والا شعر قابل قبول ہے
لیکن معذرت کہ پھر وہی بات کہوں گا، کہ یہ محض درست بنا دیے جانے پر بھی قابل قبول اشعار کب تک کہیں گے؟
محترم
قطع نظر اس کے کہ یہ کیسا شعر ہے
کروں بات سچی یہ جراٰت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے
میں یہ جاننا چاہوں گا کہ جرات اور عادت میں ایطا کیسے ہے ؟
 
میں یہ جاننا چاہوں گا کہ جرات اور عادت میں ایطا کیسے ہے ؟
استادِ محترم نے چوہدری صاحب کے دئیے گئے کئی مطلعوں سے اِس مطلع میں ایطاء کا
سقم بتایا ہے:
عبادت کی مجھ کو جو عادت ملی ہے
خدا کی طرف سے سعادت ملی ہے
 
آخری تدوین:
عبادت کی مجھ کو جو عادت ملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبادت کی مجھ کو سعادت ملی ہے
خدا کی طرف سے سعادت ملی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کے کرم سے ہدایت ملی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مطلع ثانی:۔۔۔۔۔۔۔۔کروں بات سچی یہ جرأت ملی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے شر سے لڑنے کی ہمت ملی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔
برائی سے مجھ کو جو نفرت ملی ہے
یہ اپنے بزرگوں سے عادت ملی ہے
۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سر اٹھانے کی جراٰت ملی ہے
خدا کے کرم سے یہ ہمّت ملی ہے
۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلِ مطمئن دے دیا مجھ کو رب نے
جہاں کی طلب سے فراغت ملی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ارشد پہ اس کے خدا کا کرم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ارؔشد پہ اُس کے خدا کا کرم ہے
کہ محبوبِ رب کی محبّت ملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ محبوبِ حق کی محبت ملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ﷺ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
خدا کی حضوری میں رہتا ہے ارشد
اسی کے کرم سے یہ عادت ملی ہے
 
آخری تدوین:
محترم
قطع نظر اس کے کہ یہ کیسا شعر ہے
کروں بات سچی یہ جراٰت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے
میں یہ جاننا چاہوں گا کہ جرات اور عادت میں ایطا کیسے ہے ؟
یہ ایطائے خفی ہے، جیسے غالب کا شعر ہے
بس کہ دشوار ہے ... الخ
اس میں انسان اور آسان قافیہ آئےہیں،
یا پھر دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے...
چونکہ دیگر اشعار کے قوافی میں "آدت" کی پابندی نہیں کی گئی، اس لیے یہاں ایطائے خفی واقع ہوگیا.
استاد محترم کا اشارہ عادت اور سعادت کی طرف ہے.
 
محترم
قطع نظر اس کے کہ یہ کیسا شعر ہے
کروں بات سچی یہ جراٰت ملی ہے
مجھے میرے رب سے یہ عادت ملی ہے
میں یہ جاننا چاہوں گا کہ جرات اور عادت میں ایطا کیسے ہے ؟
عادت اور سعادت میں ایطائے خفی ہے، الف عین صاحب نے ایک متبادل کی طرف اشارہ کیا تھا. جرأت اور عادت میں ایطا نہیں ہے.
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
یہ ایطائے خفی ہے، جیسے غالب کا شعر ہے
بس کہ دشوار ہے ... الخ
اس میں انسان اور آسان قافیہ آئےہیں،
یا پھر دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے...
چونکہ دیگر اشعار کے قوافی میں "آدت" کی پابندی نہیں کی گئی، اس لیے یہاں ایطائے خفی واقع ہوگیا.
استاد محترم کا اشارہ عادت اور سعادت کی طرف ہے.
جناب میں اس گروپ میں نیا ہوں اس لیئے میں کسی کے بھی ادبی مقام سے واقف نہیں ہوں اس لئے کوئ بات غلط لکھ جاؤں تو پیشگی معذرت -
جنا ب الف عین صاحب نے دوستاں اور بزدلان پر میرے اعتراض کے جواب میں لکھا تھا
===تکنیکی طور پر قافیہ غلط ہے، اگرچہ میں بطور قافیہ اسے قبول کر لیتا( کہ حرف روی والی پابندیاں میری حلق سے نہیں اترتیں==

تو اگر الف عین صاحب حرفِ روی پہ ہی یقین نہیں رکھتے تو کیا ایطا ئے جلی کیا خفی - قافیہ تو بنتا ہی آخری اصلی حرف اور اس سے پہلے والی آخری حرکت کے مجموعے سے -یہ نکال دیں تو لفظ کیسے ہم قافیہ بنیں گے یہ میری تو سمجھ سے باہر ہے -

دوسری اہم ترین بات یہ ہے اگر روی (آخری اصلی حرف اور اس سے پہلے کی حرکت ) نکالنے کے بعد بھی کوئ حرف دونوں قافیوں میں یکساں آ جائے تو کیا وہ قافیہ میں شمار ہوگا یا نہیں ؟
اس پر علمائے عروض کے دو واضح موقف ہیں - پہلے کے نزدیک ہوگا دوسرے کے نزدیک نہیں ہوگا - پہلے گروپ والے ہی اس وجہ سے غالب کے مندرجہ بالا شعر پہ ایطا کا الزام دھرتے ہیں - میری اپنی رائے دوسرے گروپ کے ساتھ ہے - جو کہتے ہیں کہ قافیہ کے اصول لگا کر جو قافیہ بنے اس سے پہلے جو یکساں حروف ہیں وہ لازمی نہیں سمجھے جائیں گے بلکہ اضافی خوبصورتی تصور کیئے جائیں گے - یعنی بعد میں آئیں تو ٹھیک نہ آئیں تو ٹھیک - یہ اصول اپنا لیں تو نہ غالب کا قافیہ غلط ہے اور نہ عادت اور سعادت میں کوئ غلطی ہے -
غالب استاد شاعر تھے میں تو انکی رائے کو ہی فوقیت دوں گا اور وہ سب لوگ بھی جو غزل کی بے جا پابندیوں کا رونا روتے ہیں اس دوسری رائے ہی کے حامی ہونے چاہییئں
لہٰذا میرے نزدیک عادت اور سعادت بلا شبہ مطلع کے قافئے ہو سکتے ہیں ان میں کوئ ایطا نہیں -
 
کیا آپ ہُوا کو hua نہیں بلکہ hawa پڑھتے ہیں؟ میرا نہیں خیال کہ ہوا اور دوا میں ایطا ہے.
ہَوا تو خیر نہیں پڑھتا، اب اتنی پتلی حالت بھی نہیں :)
ہُوا اور دوا میں واؤ کا تلفظ عربی کے مطابق کریں یا اردو کے، وا کی آواز ایک ہی نکلے گی ... میرے خیال میں تو یہاں ایطائے خفی واقع ہوتا ہے. میرے خیال میں درست تلفظ ہُ+وا ہے، ہُ+آ نہیں. مقتدرہ والوں کی لغت میں بھی یہی تلفظ دیا ہے.
 
یہ اصول اپنا لیں تو نہ غالب کا قافیہ غلط ہے
غالب کے قوافی غلط نہیں، متنازع ہیں ... غالب کے مرتبے سے کس کو انکار کی مجال ہے، لیکن ہر استاد کے کچھ تفردات ہوتے ہیں جو مستثنیات ہی رہتی ہیں.
ویسے ایطائے خفی غزل کے معمولی عیوب میں شمار ہوتا ہے. اس کی بابت اساتذہ کی اصل رائے یہی ہے کہ اس سے بچا جا سکے تو احتراز کرنا بہتر ہے. وہ اس لیے کہ اس میں ایطا کا شائبہ ہوتا ہے، اصلا ایطا نہیں ہوتا. جیسا کہ غالب کی مذکورہ غزلیات کو پورا دیکھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں باقی اشعار میں قافیہ آزاد رکھے ہیں.
 

ارشد رشید

محفلین
ہَوا تو خیر نہیں پڑھتا، اب اتنی پتلی حالت بھی نہیں :)
ہُوا اور دوا میں واؤ کا تلفظ عربی کے مطابق کریں یا اردو کے، وا کی آواز ایک ہی نکلے گی ... میرے خیال میں تو یہاں ایطائے خفی واقع ہوتا ہے. میرے خیال میں درست تلفظ ہُ+وا ہے، ہُ+آ نہیں. مقتدرہ والوں کی لغت میں بھی یہی تلفظ دیا ہے.

یاد رکھیں - غالب کے زمانے میں یہ لفظ ہو وا لکھا جاتا تھا لہٰذا یہ آخری والا "وا" دوا کی "وا" کا بالکل ہم قافیہ ہے اور اسمیں کوئ ابہام یا ایطا نہیں ہے -
اس لفظ میں مسئلہ یہ ہے کہ ہ پر پیش ہے اور واو بھی پیش ہی کی آواز دیتا ہے - اسے بعد میں ہؤا لکھا جانے لگا یعنی ؤ - ہمزہ کے ساتھ - اب یہ بالکل ہوا کی طرح لکھا جاتا ہے - لہذا یہ سار اکھیل اس کے لکھنے کا ہے اسکے تلفظ کا نہیں - جس کی وجہ سے غالب کو ایطا کا الزام دینا زیادتی ہے -
 
ا
لہذا یہ سار اکھیل اس کے لکھنے کا ہے اسکے تلفظ کا نہیں - جس کی وجہ سے غالب کو ایطا کا الزام دینا زیادتی ہے
آپ پھر تلفظ کو املا کے ساتھ خلط کر رہے ہیں، قافیہ ملفوظی ہوتا ہے اور غالب کی غزل پر اعتراض بھی تلفظ کی وجہ سے ہی ہے.
 
Top