کرم ہونے کی ایک مثال

سید رافع

محفلین
آزادی اور میری مرضی صحیح راستہ نہیں، بلکہ قرآن کی حدود و قیود میں رہنا ہی صحیح عمل ہے۔ ایک مولانا صاحب فرماتے ہیں۔

ایک صاحب اس پر کہتے ہیں۔ الله ﷻ ہم سب کو باعمل بننے توفیق عطا فرمائے - آمین۔ اس پر ایک اور صاحب سے ان کا مکالمہ ہوتا ہے۔

پہلے صاحب: عمل کی کیا ضرورت عشق حسین کافی ہے۔

دوسرے صاحب: عشق میں کہاں کوئی خود سے کسی عمل کے قابل رہتا ہے ۔ سحر زدہ تو وہی کرتا ہے جس کا حکم ہوتا ہے ۔ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

عمل سے خوارج اور عشق سے نصیری نکلے ہیں۔

صاحب ضمیر ہوں کتنا میں امیر ہوں...... زندگی کی جیب میں سکہ حسین ہے

غالب بھی سکہ حسین جیب میں رکھتے تھے۔ عمل کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں۔

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا


غالب کا دعویٰ تھا دلیل عمل ہے سکے کے دونوں نقش میں سے ایک معدوم سکہ کھوٹا

غالبا آپ غالب کی شفاعت ہو جانے کی امید نہیں رکھتے؟ غالب جناب حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ ہوں گے جبکہ جو جس سے محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ ہے۔

بھائی یہ وہ ہیں جن سے نجاست دور ہے تو بغیر طہارت نفس یہ قلب میں نہیں آسکتے باقی جو کیفیات مجھ جیسے لوگ اس خواہش پرست نفس کے ساتھ محسوس کرتے ہیں وہ غفلت ہے جبھی ہم مصطفوی و حسینی ہونے کے دعوے کے باوجود اس سمندر کے کنارے پر کھڑے رہتے ہیں، عشق تو بہت بلند منزل ہے ابھی غم تو سمجھ آجائے۔ چھوٹا منہ بڑی بات ہے

بھائی یہ تو آپ نے ناامیدی کی بات کر دی۔

الله ﷻ نہ کرے۔ یہ تو ایسی امید ہے کہ انتہای نفس پرست انسان کے دل کو بھی جھنجھڑتی ہے۔ قربانی ہی اس لیول کی دی ہے۔ ھما رے ایک استاد کہتے ھیں بس راضی رھو... انکی مرضی جو آقا اور آقا زادے چاہیں... بس ھم راضی

کوئی تو نظیر ہو گی جو نفس پرست نہ ہو۔ دیکھیں دشمن بھی کہنے پر مجبور تھے کہ صادق و امین ہیں۔ اب جب کوئی نظیر ہی اس دور میں نہیں تو نفس پرستی کا تو محض شبہ ہی رہے گا۔ اس دور میں آقا زادے کون ہیں؟

ہونگیں کہیں آس پاس

فی الحال تو آپ جس کمرے میں تشریف فرما ہوئے تھے وہیں ہوں۔ آس پاس لیپ ٹاپ ہے، مسہری ہے، الماری ہے اور کمرے سے باہر جانے کا راستہ۔


(مسکرا کر) مشکل موضوع ہے اور واٹسایپ اور بھی مشکل۔ دل کی باتیں انگلیوں سے کرنا مشکل ہے بھائی۔

ایک تو آپ بہت جلد ہار مان جاتے ہیں۔ الماری سے پو چھا کیا مرضی ہے آپکی بس جو آپ کہہ دیں ہم راضی۔ کچھ نہیں بولی۔ نہ ہی کہہ رہی ہے کہ نفس پرست ہوں۔ نہ ہی کوئی حکم دیتی ہے۔ شاید یہ آقا نہیں۔ کیا جو طبعیت کے موافق حکم نہ دے سکے وہ آقا زادہ نہیں؟ یا کوئی اور پہچان ہے آقا زادے کی؟

جو آقا زادے ہیں وہ زمانہ کے پابند نہیں۔

ہم تو ہیں۔

آقا تو نہیں.... ان کا کرم محتاج نہیں....

ہم پر کیوں کرم نہیں؟ یا ہے لیکن اسکا شکر نہیں؟ کیا کرم والی زندگی ریں ریں کرنے والی ہوتی ہے؟ یا مظلومیت والی؟ یا ڈر ڈر کر رہنے والی؟ یا بولڈ اور بھرپور؟

اطمینان والی

اطمینان کے لیے تو عشق حسین ضروری ہے یا پھر اس سے بھی بڑھ کر سنت رسول پر عمل ضروری ہے، صحیح؟

دونوں ایک ہی بات ہیں..

آئیں دائرہ مکمل کریں۔ سکے کے دو رخ۔ رخوں سے نکلنے والی قومیں۔ضمیر سے فیصلہ لیں۔ دعوی اور دلیل میں فرق سمجھیں۔ غالب کی شفاعت نہیں ہو گی حالانکہ عشق حسین کا سکہ جیب میں۔ سکہ کھوٹا ہے۔ نفس پرستی غالب ہے سو دعوی ہی رہے گا نہ کہ کبھی عمل کے ذریعے دلیل۔ بات ناامیدی کی نہیں۔ ہمارے پاس پاک نفس کی نظیر تو اس دور میں نہیں لیکن آپ پاک ہو جائیں۔ کیونکہ استاد کہتے ہیں کہ آقا زادے کی مرضی پر راضی رہو۔ اس دور میں آقا زادے کون ہیں؟ہونگیں کہیں آس پاس۔ فی الحال تو آپ جس کمرے میں تشریف فرما ہوئے تھے وہیں ہوں۔ آس پاس لیپ ٹاپ ہے، مسہری ہے، الماری ہے اور کمرے سے باہر جانے کا راستہ۔ دل کی باتیں انگلیوں سے کرنا مشکل ہے بھائی۔ جو آقا زادے ہیں وہ زمانہ کے پابند نہیں۔آقا تو نہیں.... ان کا کرم محتاج نہیں.... ہم پر کیوں کرم نہیں؟ کیا کرم والی زندگی ریں ریں کرنے والی ہوتی ہے؟ اطمینان والی۔ دونوں ایک ہی بات ہیں...آئیں دائرہ مکمل کریں۔ سکے کے دو رخ۔ رخوں سے نکلنے والی قومیں۔ضمیر سے فیصلہ لیں۔۔۔۔دائرہ میں گھوم بابا۔۔۔۔ جھوم برابر جھوم بابا۔۔۔۔

یہ کس نے کہا کہ غالب شفاعت سے محروم رہیں گے؟ یا اسکی شفاعت ضرور ہو گی۔ بھائی تو اور میں کون۔ راضی رہیں۔ امید رکھیں۔ تاکہ انجام بخیر ہو۔ جو اپنی ڈیوٹی ہے ادا کریں اور مطمئن ہو جائیں۔

ڈیوٹی۔۔۔ تبصرہ فرمائیں کہ کیا ہے؟ کئی ورژن ہیں اور کوئی بھی کارگر نہیں۔ عشق کرنا ڈیوٹی ہے یا عمل کرنا۔ بھائی سمپل بتا دیں۔ مطلب زیادہ پنچائت نہ ہو۔

حلال کی ادائیگی، حرام سے دوری اور شفاعت کی امید۔

کئی ایک بندے زمین پر تھے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیے جاتے تو طبعیت کا لحاظ رکھتے ہوئے کبھی کسی کو نماز کا کہہ دیتے، کسی کو صرف درود دعا کے طور پر پڑھنے کو کہہ دیتے، کسی کو کچھ وظیفہ کسی کو کچھ۔ مطلب حلال و حرام اور شفاعت کی طرف نہ لے جاتے بلکہ کوئی ایک سادہ عمل بتا دیتے تاکہ ابھی تو اس مقام سے نکلے۔ کیونکے حلال و حرام تو لامحدود ہیں بدرجہ علم۔ میں جب اپنے آپ کو اس کفیت میں پاتا ہوں تو سورہ بقرہ کے پہلے رکوع پر عمل کو کافی جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسکی طرف ایک دفعہ توجہ دلائی تھی۔

لو جی نسخہ مل گیا۔ کرم ہو گیا۔ راضی ہو جائیں اور اطمینان پائیں۔

ویسے میں بس اسی لئے اس موضوع پر اسطرح بات کرنے سے بچ رہا تھا، گھوم برابر اور جھوم برابر ہوگیا۔ مختصر یہ کہ عشق تو دور کی بات بے عمل محبت فائدہ نہ دے گی۔ عمل جتنا بھی ہو اس میں خلوص اور تسلسل اور امید اور بہت ساری دعائیں کہ اور محبت بڑھے اور عمل کی توفیق ملے۔ وہی بس جو الحمد کی آخری 2 آیات ہیں

ہاں یہ تو ہے۔ الحمد للہ

پہلا رکوع ہدیہ ہے۔۔۔ 7 آیات ہیں۔ بس قرآن پر یقین کرنے۔ نماز پڑھنے۔ صدقہ کرنے کا حکم ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اس رکوع میں کوئی شبے والی چیز موضوع نہیں یہاں تک کہ منافق جیسے لطیف اور مشکل موضوع کو اگلے رکوع کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان 7 آیات میں سیدھا سادہ نسخہ بتایا گیا ہے۔

الم ( 1 ) بقرہ - الآية 1
الم
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( 2 ) بقرہ - الآية 2
یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ( 3 ) بقرہ - الآية 3
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ( 4 ) بقرہ - الآية 4
اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( 5 ) بقرہ - الآية 5
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( 6 ) بقرہ - الآية 6
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے
خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ( 7 ) بقرہ - الآية 7
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے

بہت عمدہ باتیں بھائی۔ آخری دو آیتیں۔

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ( 6 ) فاتحہ - الآية 6
ہم کو سیدہے رستے پر چلا
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ( 7 ) فاتحہ - الآية 7
ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے

جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھتے تو ان کی وہ کیفیت نہ رہتی جو صحبت میں ہوتی۔ جب اسکا تذکرہ آپ سے کیا گیا تو فرمایا کہ اگر وہ کیفیت برقرار رہے تو فرشتے سلام کرنے کے لیے اتریں۔ بعض اوقات اپنی لاچاری اور معذوری کے تذکرے بھی ضروری ہیں۔ یہ بھی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے اور یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جو ان دنوں گروہوں میں نہ تھے یعنی صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
 
Top