عاطف بٹ
محفلین
حسیب نذیر کے توسط سے یہ خبر تو عام ہو ہی چکی ہے کہ ساجد بھائی اور میں اب سے کچھ دیر پہلے لاہور کے مشہور علاقے گوالمنڈی میں مچھلی ’اُڑاتے‘ ہوئے پائے گئے ہیں۔ اب آپ کے لئے اس واقعے کی کچھ تفصیل بمعہ تصاویر حاضر ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ سرِ شام جب میں دفتر پہنچا تو ساجد بھائی کی کال آئی کہ وہ ملاقات کے لئے آنا چاہ رہے ہیں، میں کہا کہ ضرور آئیے اور آج آپ کی معیت میں سردار کی مچھلی کھائی جائے گی۔ پروگرام طے کرنے کے بعد میں نے دفتر کے ایک دو چھوٹے چھوٹے معاملات نمٹائے اور پھر ساجد بھائی کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد ساجد بھائی کی کال آئی کہ وہ اڈے (ہمارے دفتر کی عمارت سے منسلک وہ چائے خانہ جہاں ہم گپ بازی کی غرض سے بیٹھا کرتے ہیں) پر پہنچ چکے ہیں۔ میں نے کہا کہ بندہ بس ایک منٹ میں حاضر ہوا چاہتا ہے۔
اڈے پر پہنچ کر ساجد بھائی سے ملاقات ہوئی اور تھوڑی دیر گپ لگانے کے بعد مچھلی خوری کے لئے گوالمنڈی کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ساجد بھائی نے اپنی موٹر سائیکل کی ڈرائیوری میرے سپرد کردی کیونکہ ان کے خیال میں پولیس ہم صحافیوں کے منہ لگنے سے ڈرتی ہے۔
گوالمنڈی پہنچے تو وہاں جا کر دیکھا کہ ’کرمانوالہ فِش کارنر‘ کے نام سے ایک نئی دکان کا آج افتتاحی روز ہے اور وہاں اچھا خاصا رش لگا ہوا ہے۔ ساجد بھائی کے مشورے سے ہم نے سردار کی مچھلی سے ہاتھ جوڑ کر معذرت کرلی اور کرمانوالے کی دکان کا رخ کیا۔ میں نے ساجد بھائی کو بزرگ سمجھتے ہوئے انہیں ایک طرف بیٹھنے کا کہا اور خود جا کر قطار میں لگ گیا۔ رش کی وجہ سے مچھلی ملنے 25 منٹ لگ گئے اور اس دوران میں نے جیب سے موبائل فون نکال کر کچھ عکسی یادیں آپ لوگوں کے لئے محفوظ کرلیں، جو پیشِ خدمت ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ سرِ شام جب میں دفتر پہنچا تو ساجد بھائی کی کال آئی کہ وہ ملاقات کے لئے آنا چاہ رہے ہیں، میں کہا کہ ضرور آئیے اور آج آپ کی معیت میں سردار کی مچھلی کھائی جائے گی۔ پروگرام طے کرنے کے بعد میں نے دفتر کے ایک دو چھوٹے چھوٹے معاملات نمٹائے اور پھر ساجد بھائی کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد ساجد بھائی کی کال آئی کہ وہ اڈے (ہمارے دفتر کی عمارت سے منسلک وہ چائے خانہ جہاں ہم گپ بازی کی غرض سے بیٹھا کرتے ہیں) پر پہنچ چکے ہیں۔ میں نے کہا کہ بندہ بس ایک منٹ میں حاضر ہوا چاہتا ہے۔
اڈے پر پہنچ کر ساجد بھائی سے ملاقات ہوئی اور تھوڑی دیر گپ لگانے کے بعد مچھلی خوری کے لئے گوالمنڈی کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ساجد بھائی نے اپنی موٹر سائیکل کی ڈرائیوری میرے سپرد کردی کیونکہ ان کے خیال میں پولیس ہم صحافیوں کے منہ لگنے سے ڈرتی ہے۔
گوالمنڈی پہنچے تو وہاں جا کر دیکھا کہ ’کرمانوالہ فِش کارنر‘ کے نام سے ایک نئی دکان کا آج افتتاحی روز ہے اور وہاں اچھا خاصا رش لگا ہوا ہے۔ ساجد بھائی کے مشورے سے ہم نے سردار کی مچھلی سے ہاتھ جوڑ کر معذرت کرلی اور کرمانوالے کی دکان کا رخ کیا۔ میں نے ساجد بھائی کو بزرگ سمجھتے ہوئے انہیں ایک طرف بیٹھنے کا کہا اور خود جا کر قطار میں لگ گیا۔ رش کی وجہ سے مچھلی ملنے 25 منٹ لگ گئے اور اس دوران میں نے جیب سے موبائل فون نکال کر کچھ عکسی یادیں آپ لوگوں کے لئے محفوظ کرلیں، جو پیشِ خدمت ہیں۔
