کرسمس کا تہوار اور مبارکباد -- کس کھاتے میں ؟؟

اس سے تو پتا چلتا ہے کہ اسلام لانے کیلئے کوئی سختی نہیں ہے نہ کسی کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔ کسی ذمی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جبرا اسلام قبول کرے اور یہی آپ ٌصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ تھے کہ انہیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے پر عبادت کریں تاکہ وہ تنگ نظری محسوس نہ کریں بلکہ سوچ سمجھ کر اور حق جان کر دین اسلام کو قبول کریں۔ اس سے یہ تو سمجھ میں نہیں آتا محموداحمدغزنوی بھائی کہ ان کی عبادت و تہوار میں خود بھی شریک ہوجاؤ۔
فی الحقیقت آپ نے آخری جملہ لکھ کر فقہائے اسلام پر بڑا ظلم کیا ہے۔ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ فقہاء تنگ نظر تھے ؟ یا دین اُن کا تھا ؟ بلاشبہ دین اللہ کا ہے اور تمام انبیاء علیھم السلام ایک ہی دین اسلام کے داعی و پیروکار تھے۔ فقہائے اسلام نے اپنی زندگیاں صرف کرکے اس دین کو ہمارے لیے آسان کیا کیونکہ انہوں نے اپنے سے پہلے لوگوں سے علم دین حاصل کیا جو بالعموم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمھم اللہ تھے۔ فقہاء نے آنے والے لوگوں کیلئے آسانی پیدا کردی اور پورا ایک نظام مرتب کرکے دنیا سے رخصت ہوئے کیونکہ جن سے انہوں نے فیض حاصل کیا تھا ، کیا ان کے بعد آنے والے ویسی ہستیوں کو پا سکتے تھے ؟
ٹھنڈے دل سے سوچیے گا۔ ہم سب اکثر باتیں بغیر سوچے سمجھے بیان کردیتے ہیں ۔
دیکھئے وہ 60 عیسائیوں کا وفد جو نجران سے آیا تھا، وہ ذمّی نہیں تھے۔ اور میرا پوائنٹ جس پر آپ نے غور نہیں کیا وہ فقط اتنا تھا کہ اسلام اتنا تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہے۔ اگر نبی کریم عیسائیوں کو جنہوں نے دعوتِ اسلام ٹھکرا دی اور جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے یعنی شرک میں غرق تھے، ان سب کو اپنی پاک مسجد مین اپنے طریقے سے نماز ادا کرنے کی اجازت عطا فرما دی تو اس میں ہم مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ ہم بھی کم از کم اتنی رواداری اور Tolerance اور تالیفِ قلوب کا جذبہ اپنے اندر رکھیں۔
نبی کریم نے تو بیت اللہ کا طواف بھی اس ماحول میں کیا ہے کہ جب اسکے اندر 360 بت پڑے ہوئے تھے اور مشرکینِ مکّہ بھی آپکے ہمراہ اسی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔ دیکھنے والوں کو تو ظاہری عمل کے اعتبار سے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا لیکن کس کا طواف درحقیقت کس کے لئے ہے، اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ظاہر پرستی کے اعتبار سے تو دیکھیں تو متشدد فقہاّ اگر اس زمانے میں کسی اتھارٹی پر فائز ہوتے تو معاذ اللہ نبی کریم کے اس عمل کو بھی غلط قرار دے دیتے۔ اسکی ایک مثال بھی ہے کہ جب نبی کریم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک اسی قسم کے شخص نے آپکے اس عمل پر اعتراض کیا اور کہہ اٹھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) !اللہ سے ڈرو اور عدل کرو۔۔۔استغفراللہ۔
میں نے اگر یہ کہا کہ فقہاء تنگ نظر تھے تو یہ سب کیلئے نہیں ہے۔ میں نے خود فقہ کے بعض "احکام " میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ مسلمان اگر ایک تنگ راستے سے گذر رہا ہو اور سامنے سے کوئی ذمی کافر آرہا ہو تو مسلمان کو چاہئیے کہ خوب چوڑا ہوکر اور اکڑ کر چلے تاکہ اس ذمی کو سمٹ کر بالکل دیوار کے ساتھ لگ کر گذرنا پڑے۔۔۔اور حکمت انہوں نے اس عمل کی یہ لکھی تھی کہ حکمت اس میں یہ ہے کہ اسلام کی عزت اور کفر کی ذلت کا اظہار ہو۔۔۔
اور نبی کریم تو یہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو سلام کرو (Greetings) خواہ تم انہیں جانتے ہو یا نہیں جانتے۔۔۔لیکن فقہاء فرما رہے ہیں کہ پہلے اس شخص کے عقیدے پر غور کرو،اگر وہ مسلمان ہے تو سلام کرو اور اگر کسی نے سلام میں پہل کردی، تب بھی جواب دینے سے پہلے دوسرے کے عقیدے پر غور کرو، اگر وہ مسلمان ہے تو ٹھیک ورنہ السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ کہہ دیا جائے۔۔۔
نبی کریم نے تو عورتوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی اور وہ نماز ادا بھی کرتی تھیں، لیکن ہمارے بعض فقہاء نے منع کردیا کہ جی اس سے فتنہ پھیلتا ہے۔ یہاں عرب ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کیلئے جگہ مختص ہوتی ہے اور وہ بھی مساجد میں نماز ادا کرتی ہیں، یہاں تو کوئی فتنہ نہیں پھیلتا۔۔۔۔۔۔۔
دین اللہ کا ہے فقہاء کا نہیں۔۔۔
 

باباجی

محفلین
بہت شکریہ کفایت ہاشمی بھائی کہ آپ نے خاکسار کو اس قابل جانا

میں سب سے پہلے مکمل دھاگہ پڑھا تاکہ مجھے یہ پتا چل سکے کہ ہوا کس رُخ چل رہی ہے
اور یہ دیکھ کر مجھے کوئی خاص خوشی یا غم نہیں ہوا کہ یہاں وہی ہو رہا ہے جو شروع سے ہوتا آرہا ہے
فصاحت و علمیت کی فضاء ہے
زیادہ تر بحث برائے مخالفت ہورہی ہے
اور مخالفت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو شروع سے ہی بے سروپا باتیں کرتے آئے ہیں جن کے لیئے ہمیشہ سے مرغ کی ایک ٹانگ رہی ہے
چاہے انہیں آپ زندہ مرغا دکھا دیں ۔

اب آتے ہیں موضوع کی طرف
تو جناب بات یہ ہے کہ عیسائی 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کے طور پر مناتے ہیں
خدا کے بیٹے کے طور مانتے ہیں جو سراسر غلط ہے ، ان کے اس باطل سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہے
بطور انسانیت ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی غریب مسیحی ہے تو اس کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے اس تہوار کو منا سکے
لیکن ان کے ساتھ شریک ہونا غلط ہے ۔
اور عارف کریم صاحب کی باتوں کو میں انٹرٹینمنٹ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا وہ ایوایں ای بے پر کی اڑاتے ہیں
وہ 25 دسمبر کو کہتے ہیں کہ یہ پیدائش عیسیٰ سے پہلے سے یورپ میں لوگ اسے yule کہتےہیں او میرے بھائی 25 دسمبر عیسوی سال سے شروع ہوا
ہے ۔ آپ اپنا پیڈیا بدل لیں اب

اور پھر آپ نے پوچھا آجکل کے ڈراموں کے حوالے سے تو جناب آجکل تو لٹیا دوب گئی ہے ّ معاشرے کی ان کی وجہ سے ، پہلے انڈین ڈراموں نے
گھریلو تعلقات کا ستیاناس کیا اور پھر ہمارے نام نہاد لوکل میڈیا نے اپنے ڈرامہ کلچر کا بیڑا غرق کیا اور اس کے بعد ترکی کے ڈراموں نے جلتی پر تیل
کا کام کیا اور بگاڑ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔رشتوں کا تقدس پامال کیا
جن عیبوں کی پردہ پوشی کا حکم ہے انہیں فاش کیا اور لوگوں میں خوفناک حد تک بے غیرتی پیدا کی اور کر رہا ہے
ہم لوگوں کو چاہیئے کہ اس کا بائیکاٹ کریں سختی و نرمی ہر دو طریقے سے

اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
 

متلاشی

محفلین
محمود احمد غزنوی
دیکھئے وہ 60 عیسائیوں کا وفد جو نجران سے آیا تھا، وہ ذمّی نہیں تھے۔ اور میرا پوائنٹ جس پر آپ نے غور نہیں کیا وہ فقط اتنا تھا کہ اسلام اتنا تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہے۔ اگر نبی کریم عیسائیوں کو جنہوں نے دعوتِ اسلام ٹھکرا دی اور جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے یعنی شرک میں غرق تھے، ان سب کو اپنی پاک مسجد مین اپنے طریقے سے نماز ادا کرنے کی اجازت عطا فرما دی تو اس میں ہم مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ ہم بھی کم از کم اتنی رواداری اور Tolerance اور تالیفِ قلوب کا جذبہ اپنے اندر رکھیں۔
محترم غزنوی بھائی۔۔۔۔! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عملی طور پر اسلام کی اتباع کر کے دکھائی ہے ۔۔۔! میرا آپ سے صرف ایک ہی سوال ہے ۔۔۔؟
کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام نے کسی عیسائی کو میری کرسمس کہا ۔۔۔ یا کسی کو کرسمس کی مبارک باد دی ۔۔۔ یا ان کی تقریبات میں شرکت کی ۔۔۔۔؟
تاریخ میں سے ایک حوالہ بھی اگر آپ پیش کر دیں ۔۔۔! فقیر آپ کو موقف درست جان لے گا۔۔۔!


نبی کریم نے تو بیت اللہ کا طواف بھی اس ماحول میں کیا ہے کہ جب اسکے اندر 360 بت پڑے ہوئے تھے اور مشرکینِ مکّہ بھی آپکے ہمراہ اسی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔ دیکھنے والوں کو تو ظاہری عمل کے اعتبار سے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا لیکن کس کا طواف درحقیقت کس کے لئے ہے، اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ظاہر پرستی کے اعتبار سے تو دیکھیں تو متشدد فقہاّ اگر اس زمانے میں کسی اتھارٹی پر فائز ہوتے تو معاذ اللہ نبی کریم کے اس عمل کو بھی غلط قرار دے دیتے۔ اسکی ایک مثال بھی ہے کہ جب نبی کریم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک اسی قسم کے شخص نے آپکے اس عمل پر اعتراض کیا اور کہہ اٹھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) !اللہ سے ڈرو اور عدل کرو۔۔۔ استغفراللہ۔
میں نے اگر یہ کہا کہ فقہاء تنگ نظر تھے تو یہ سب کیلئے نہیں ہے۔ میں نے خود فقہ کے بعض "احکام " میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ مسلمان اگر ایک تنگ راستے سے گذر رہا ہو اور سامنے سے کوئی ذمی کافر آرہا ہو تو مسلمان کو چاہئیے کہ خوب چوڑا ہوکر اور اکڑ کر چلے تاکہ اس ذمی کو سمٹ کر بالکل دیوار کے ساتھ لگ کر گذرنا پڑے۔۔۔ اور حکمت انہوں نے اس عمل کی یہ لکھی تھی کہ حکمت اس میں یہ ہے کہ اسلام کی عزت اور کفر کی ذلت کا اظہار ہو۔۔۔

اور دوسری بات یہ کہ اسلام ہر جگہ ہر اوقات کے علیحدہ علیحدہ اصول مقرر کیے ہیں۔۔۔! مسلمانوں کے جب خواص قرآن میں بیان کئے گئے تھا کہا گیا ۔۔۔۔ رحماء بینھم ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اشداء علی الکفار۔۔۔! کہ آپس میں تو رحم اور بھائی چارہ جبکہ ۔۔۔ کافروں کے ساتھ شدت اور سختی سے پیش آنا چاہئے ۔۔۔! اس تناظر میں اگر کسی فقیہ نے ایسا کچھ لکھ دیا ۔۔۔۔ تو بالکل درست لکھا ہے ۔۔۔! آپ بلاوجہ اس فقیہ پر اعتراض نہ لگائیں۔۔۔!


اور نبی کریم تو یہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو سلام کرو (Greetings) خواہ تم انہیں جانتے ہو یا نہیں جانتے۔۔۔ لیکن فقہاء فرما رہے ہیں کہ پہلے اس شخص کے عقیدے پر غور کرو،اگر وہ مسلمان ہے تو سلام کرو اور اگر کسی نے سلام میں پہل کردی، تب بھی جواب دینے سے پہلے دوسرے کے عقیدے پر غور کرو، اگر وہ مسلمان ہے تو ٹھیک ورنہ السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ کہہ دیا جائے۔۔۔
میرے محترم یہاں پر آپ فقہاء پر اعتراضات کے انبار لگا رہے ہیں ۔۔۔!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا ۔۔۔! اور کیا نہیں کہا۔۔۔۔! یہ آپ تک کیسے پہنچا۔۔۔۔؟ ۔۔ کیا آپ پر فرشتہ نازل ہوا ۔۔۔ جس نے آپ کو آکر یہ سب بتایا ۔۔۔۔ یقنا نہیں ۔۔۔۔ تو پھر یہ انہیں فقہاء اور علماء کا صدقہ ہے جو آج ہم اسلام کو کچھ جانتے ہیں ۔۔۔! اور آپ انہی فقہاء پر اعتراضات پر اعتراضات لگائے جا رہے ہیں ۔۔۔! میرے محترم انہیں فقہاء نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کیں ۔۔۔ دین کو سمجھا۔۔۔ اور پھر ہم تک پہنچایا ۔۔۔ ہمارا یہ حال ہے کہ دو کتابیں ادھر سے پکڑیں ۔۔۔ دو اُدھر سے اور بزعمِ خود مفسرِ قراآن و حدیث بن کر فقہاء پر اعتراضات جڑ دئیے۔۔۔!

نبی کریم نے تو عورتوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی اور وہ نماز ادا بھی کرتی تھیں، لیکن ہمارے بعض فقہاء نے منع کردیا کہ جی اس سے فتنہ پھیلتا ہے۔ یہاں عرب ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کیلئے جگہ مختص ہوتی ہے اور وہ بھی مساجد میں نماز ادا کرتی ہیں، یہاں تو کوئی فتنہ نہیں پھیلتا۔۔۔ ۔۔۔ ۔
دین اللہ کا ہے فقہاء کا نہیں۔۔۔
میرے محترم خواتین کو مسجد جانے سے منع فقہاء نے نہیں بلکہ امام الفقہاء ، افضل الصحابۃ بعد الصدیق یعنی حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ۔۔۔!
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں ۔۔۔ ! کیا آپ سیدنا عمر فارق رضی اللہ عنہ پر تو یہ اعتراض نہیں لگا رہے ۔۔۔!
 
دیکھئے وہ 60 عیسائیوں کا وفد جو نجران سے آیا تھا، وہ ذمّی نہیں تھے۔ اور میرا پوائنٹ جس پر آپ نے غور نہیں کیا وہ فقط اتنا تھا کہ اسلام اتنا تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہے۔ اگر نبی کریم عیسائیوں کو جنہوں نے دعوتِ اسلام ٹھکرا دی اور جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے یعنی شرک میں غرق تھے، ان سب کو اپنی پاک مسجد مین اپنے طریقے سے نماز ادا کرنے کی اجازت عطا فرما دی تو اس میں ہم مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ ہم بھی کم از کم اتنی رواداری اور Tolerance اور تالیفِ قلوب کا جذبہ اپنے اندر رکھیں۔
دین اللہ کا ہے فقہاء کا نہیں۔۔۔
آپ کے ان شکوک کی اساس نجران کے عیسائی وفد کی مسجد میں نماز کی ادائیگی پر ہے۔عرض ہے کہ بعد از تحقیق پتہ چلا کہ یہ روایت منقطع یعنی ضعیف ہے اور اس سے استدلال بالکل درست نہیں ہے نہ اس سے دلیل پکڑی جا سکتی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ وہ مباہلہ کیلئے آئے تھے، اس سے آگے کی روایت صحیح نہیں ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ اس پر مزید گفتگو نہ کریں۔@شمشاد بھائی کو بھی مطلع کردیتا ہوں۔
پھر آپ نے ایسے ہی کسی بدبخت کی بات نقل کردی جو آپ کو ہرگز نہ کرنی چاہیے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و احترام کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کسی بدبخت کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ یقیناً کہنے والے نے تو اپنی آخرت بربادکرلی ، آپ کو کیا ضرورت تھی اسے نقل کرنے کی ! سامحك اللہ و إيانا آمین۔
آخر میں آپ پھر فقہاء پر برس پڑے۔ اس کیلئے آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ باقاعدہ طور پر دین کا علم حاصل کریں ، کسی فقیہہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں اور اپنے اشکالات کو اس کے سامنے رکھ کر جواب طلب کریں۔ خود سے پڑھ کر انسان الٹا بھی سمجھ جاتا ہے اور اس میں گمراہی کے بھی زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ براہ کرم بغیر علم کے امت کے جلیل القدر لوگوں پر طعنہ زنی نہ کریں۔ یہ انکی روحوں کے ساتھ مذاق ہے۔
 
براہ کرم بغیر علم کے امت کے جلیل القدر لوگوں پر طعنہ زنی نہ کریں۔ یہ انکی روحوں کے ساتھ مذاق ہے۔
بھائی میں نے کن جلیل القدر ہستیوں کا نام لیا ہے اور کن جلیل القدر ہستیوں پر طعنہ زنی کی ہے؟۔۔۔میں نے ایک لفظ استعمال کیا ہے "تنگ نظر فقہاء"۔۔اگر آپ تنگ نظر فقہاء کو جلیل القدر سمجھتے ہیں تو پھر بات اور ہے۔ اور میں نے اپنی پوسٹ میں پہلے ہی یہ کلئیر کردیا تھا کہ میں سب فقہاء کی بات نہیں کر رہا۔۔۔
باقی جہاں تک آپکا یہ ارشاد ہے کہ نجران کے عیسائیوں والی روایت ضعیف ہے، تو اس سلسلے میں میں کسی تحقیق کے بعد ہی جواب دینا پسند کروں گا۔ والسلام
 
محمود احمد غزنویمحترم غزنوی بھائی۔۔۔ ۔! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عملی طور پر اسلام کی اتباع کر کے دکھائی ہے ۔۔۔ ! میرا آپ سے صرف ایک ہی سوال ہے ۔۔۔ ؟
کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام نے کسی عیسائی کو میری کرسمس کہا ۔۔۔ یا کسی کو کرسمس کی مبارک باد دی ۔۔۔ یا ان کی تقریبات میں شرکت کی ۔۔۔ ۔؟
تاریخ میں سے ایک حوالہ بھی اگر آپ پیش کر دیں ۔۔۔ ! فقیر آپ کو موقف درست جان لے گا۔۔۔ ! !
نبی کریم کے زمانے میں عیسائی لوگ کرسمس مناتے ہی نہیں تھے۔۔اور دوسری بات یہ کہ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام 25 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔ اوپر ایک دو محفلین نے اس حوالے سے پوسٹ بھی کیا ہے۔
میرا پوائنٹ تو فقط اتنا ہے بھائی کہ اگر کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں (کسی بھی تاریخ کو)، اور وہ لوگ ہمارے آس پاس رہتے ہیں ، کام کرتے ہیں ہماری خوشیوں میں وہ بھی Greetings پیش کرتے رہتے ہیں، تو کوئی حرج نہیں کہ ہم بھی انکو مبارکباد دے دیں۔ کیونکہ ہم انکو اس بات کی مبارک نہیں دے رہے ہونگے کہ مبارک ہو آپ کا خدا آج پیدا ہوا۔۔۔ہماری مبارک توفقط اس قسم کی ہوگی کہ مبارک ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش یقیناّ ایک خوشی کی بات ہے ہمارے لئے۔۔۔That's it. براہِ کرم فرقہ وارانہ ذہنییت سے باہر نکل کر بھی کسی کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرلیا کیجئے۔
جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر Greetingsکا معاملہ ہے تو خود قرآن میں سورہ مریم میں ہے کہ:
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيّاً
یعنی حضرت عیسی علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ "سلام ہے مجھ پر اس دن جب مین پیدا ہوا، اور جس دن میں وفات پا جاؤں گا اور جس دن زندہ مبعوث کیا جاؤں گا۔
 

باباجی

محفلین
میری گزارش ہے کہ
براہ مہربانی موضوع سے ہٹ کوئی بات نہ کی جائے
خاص طور سے فرقہ واریت پر کوئی بات نہ کی جائے کہ اس سے بدمزگی زیادہ پیدا ہوتی ہے
لہٰذ ٌاصل موضوع پر توجہ مرکوز رکھیں
شکریہ
 

مقدس

لائبریرین
بھیاززز ہم یہاں اپنا اپنا پوائنٹ آف ویو بتاتے ہیں ناں ۔۔۔ اب ہر ایک کو اس کی آزادی ہے ناں تو غصہ نہیں ہونا چاہیے اور اپنے ویو کو دوسروں پر زبردستی نہیں تھوپنا چاہیے۔۔ اس لیے نو مور آرگومنٹس پلیز
جس کو وش کرنا ہے وہ ضرور کرے اور جن کو نہیں وہ ناں کریں۔۔۔ بات ختم :)
 
نبی کریم کے زمانے میں عیسائی لوگ کرسمس مناتے ہی نہیں تھے۔۔
میرا پوائنٹ تو فقط اتنا ہے بھائی کہ اگر کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں (کسی بھی تاریخ کو)، اور وہ لوگ ہمارے آس پاس رہتے ہیں ، کام کرتے ہیں ہماری خوشیوں میں وہ بھی Greetings پیش کرتے رہتے ہیں، تو کوئی حرج نہیں کہ ہم بھی انکو مبارکباد دے دیں۔ کیونکہ ہم انکو اس بات کی مبارک نہیں دے رہے ہونگے کہ مبارک ہو آپ کا خدا آج پیدا ہوا۔۔۔ ہماری مبارک توفقط اس قسم کی ہوگی کہ مبارک ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش یقیناّ ایک خوشی کی بات ہے ہمارے لئے۔۔۔ That's it. براہِ کرم فرقہ وارانہ ذہنییت سے باہر نکل کر بھی کسی کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرلیا کیجئے۔
جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر Greetingsکا معاملہ ہے تو خود قرآن میں سورہ مریم میں ہے کہ:
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيّاً
یعنی حضرت عیسی علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ "سلام ہے مجھ پر اس دن جب مین پیدا ہوا، اور جس دن میں وفات پا جاؤں گا اور جس دن زندہ مبعوث کیا جاؤں گا۔

بھائی میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے اپنی پہلی پوسٹ میں حوالہ بھی سورہ مریم کا دیا تھا کہ یہ عقیدہ اللہ کو کتنا ناپسند ہے۔ پھر عرض کیا تھا کہ Greetings پیش کرنے کا معاملہ اتنا ہلکا نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں اور میری یا آپ کی Greetings دیتے ہوئے کیا سوچ ہے، اس سے سامنے والے کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، الٹا وہ بھی آپکو اپنے عقیدے کا ہمنوا سمجھے گا۔ پھر ایک اور بات کہ کرسمس کی Greetings کفار کا طرزعمل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی مشابہت سے منع فرمایا ہے بلکہ مشابہت اختیار کرنے والے کو انہی میں سے قرار دیا ہے لہذا Greetings کا جواز بھی ختم ہوجاتا ہے۔یہ کوئی فرقہ وارانہ ذہنیت نہیں ہے۔ یہ موحدانہ ذہنیت ہے۔
جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ "سلام ہے مجھ پر اس دن جب میں پیدا ہوا، اور جس دن میں وفات پا جاؤں گا اور جس دن زندہ مبعوث کیا جاؤں " ، اس سے Greetings کا جواز نہیں نکلتا۔
انبیاء علیھم السلام کی بعثت اور ان کی تشریف آوری تو سراپا سلامتی اور انسانیت کیلئے نعمتِ کبریٰ ہے اور بلاشبہ ان کی ولادت اور مبارک زندگی تو ہمارے لیے باعثِ ہدایت اور سرچشمہ نور ہے۔
 
بھائی میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے اپنی پہلی پوسٹ میں حوالہ بھی سورہ مریم کا دیا تھا کہ یہ عقیدہ اللہ کو کتنا ناپسند ہے۔ پھر عرض کیا تھا کہ Greetings پیش کرنے کا معاملہ اتنا ہلکا نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں اور میری یا آپ کی Greetings دیتے ہوئے کیا سوچ ہے، اس سے سامنے والے کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، الٹا وہ بھی آپکو اپنے عقیدے کا ہمنوا سمجھے گا۔ پھر ایک اور بات کہ کرسمس کی Greetings کفار کا طرزعمل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی مشابہت سے منع فرمایا ہے بلکہ مشابہت اختیار کرنے والے کو انہی میں سے قرار دیا ہے لہذا Greetings کا جواز بھی ختم ہوجاتا ہے۔یہ کوئی فرقہ وارانہ ذہنیت نہیں ہے۔ یہ موحدانہ ذہنیت ہے۔
جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ "سلام ہے مجھ پر اس دن جب میں پیدا ہوا، اور جس دن میں وفات پا جاؤں گا اور جس دن زندہ مبعوث کیا جاؤں " ، اس سے Greetings کا جواز نہیں نکلتا۔
انبیاء علیھم السلام کی بعثت اور ان کی تشریف آوری تو سراپا سلامتی اور انسانیت کیلئے نعمتِ کبریٰ ہے اور بلاشبہ ان کی ولادت اور مبارک زندگی تو ہمارے لیے باعثِ ہدایت اور سرچشمہ نور ہے۔
میں بھی آپکی رائے کا احترام کرتا ہوں، لیکن اس سے غیر متفق ہوں۔۔۔
 
محمود احمد غزنوی

محترم غزنوی بھائی۔۔۔ ۔!
اور دوسری بات یہ کہ اسلام ہر جگہ ہر اوقات کے علیحدہ علیحدہ اصول مقرر کیے ہیں۔۔۔ ! مسلمانوں کے جب خواص قرآن میں بیان کئے گئے تھا کہا گیا ۔۔۔ ۔ رحماء بینھم ۔۔۔ ۔ اور۔۔۔ ۔ اشداء علی الکفار۔۔۔ ! کہ آپس میں تو رحم اور بھائی چارہ جبکہ ۔۔۔ کافروں کے ساتھ شدت اور سختی سے پیش آنا چاہئے ۔۔۔ ! اس تناظر میں اگر کسی فقیہ نے ایسا کچھ لکھ دیا ۔۔۔ ۔ تو بالکل درست لکھا ہے ۔۔۔ ! آپ بلاوجہ اس فقیہ پر اعتراض نہ لگائیں۔۔۔ !



!

یہ جتنے اولیائے کرام اور صوفیائے کرام جو اپنے اپنے وطنوں سے نکل کر کافروں کے علاقوں میں جا کر رہنا شروع ہوئے کیا وہ بھی آپکی اس تشریح اور تفسیر کے مطابق کافروں کے ساتھ سختی، شدت اور درشتی کے ساتھ پیش آتے رہے تھے؟ کیا اس قسم کے رویے سے کوئی مسلمان ہوسکتا ہے؟۔۔۔یہ جو سینکڑوں کی تعداد میں مبلغین یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جاتے ہیں اور لیکچرز دیتے ہیں کیا یہ انکے ساتھ سختی، درشتی اور دشمنی کے ساتھ بات کرتے ہیں؟۔۔۔ارے بھائی کفات کی بھی قسمیں ہیں، کوئی حربی کافر ہے تو کوئی غیر حربی، کوئی دیارِ کفر کا ساکن ہے تو کوئی دیارالمسلمین کا رہائشی۔۔۔آپ اندھا دھند ہر کسی کے ساتھ اسی کافر جیسا سلوک کریں گے جو میدانِ جنگ میں آپکے مدمقابل ہو؟۔۔کچھ سوچ سمجھ لیا کریں :)
 

دوست

محفلین
ہم نے تو کرسمس کی مبارکباد دی تھی اور اگلی بار بھی دیں گے عیسائیوں کو۔ اس سے یہ تھوڑے سمجھ لیا کہ عیسی علیہ اسلام نعوذ باللہ اللہ کے بیٹے ہیں۔ ہاں فتوے باز و پکے مسلمان سمجھتے رہیں۔ ان کے سمجھنے سے کونسا ہم ایسا سمجھنے لگ جائیں گے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اس معاملے میں بہرحال احتیاط کی ضرورت ہے ۔۔۔ مبارک باد نہ بھی دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔۔۔ ہماری دانست میں اگر کوئی مسلمان کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارک باد دے رہا ہو تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا بھی درست نہیں ہے کہ وہ "عیسائی" ہو چکا ہے ۔۔۔
 
آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ باقاعدہ طور پر دین کا علم حاصل کریں ، کسی فقیہہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں اور اپنے اشکالات کو اس کے سامنے رکھ کر جواب طلب کریں۔ خود سے پڑھ کر انسان الٹا بھی سمجھ جاتا ہے اور اس میں گمراہی کے بھی زیادہ امکانات ہوتے ۔
یہ "باقاعدہ " طور پر دین کا علم حاصل کرنا کیا ہوتا ہے؟۔۔کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ باقاعدہ دین کا علم حاصل کرنے کا مطلب صرف یہی ہوتا ہے کہ مروجہ دینی مدارس سے درسِ نظامیہ یا اسی قسم کی سند کی جائے۔ اگر ایسا ہے تو کیا وجہ ہے کہ "باقاعدہ" طور پر اس طرح علم حاصل کرنے کے باوجود وہی لوگ آپس میں بیشمار معاملات پر اختلاف بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف کفر و ضلال کے فتوے بھی جاری کرتے ہیں۔ سر پھٹول بھی کرواتے ہیں۔ ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں "باقاعدہ علم" حاصل کرنے والوں نے جتنی کنفیوژن اور نفرت پھیلائی ہے، اتنی بے قاعدہ طالب علموں نے نہیں۔
معذرت چاہتا ہوں کہ میں آپ کے اس قاعدے سے متفق نہیں ہوں۔
 

ساجد

محفلین
اراکین کو یاد دلا دوں کہ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے دوسروں کے عقائد کو رگیدنا لازمی نہیں ہوتا۔
 
دیکھئے وہ 60 عیسائیوں کا وفد جو نجران سے آیا تھا، وہ ذمّی نہیں تھے۔ اور میرا پوائنٹ جس پر آپ نے غور نہیں کیا وہ فقط اتنا تھا کہ اسلام اتنا تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہے۔ اگر نبی کریم عیسائیوں کو جنہوں نے دعوتِ اسلام ٹھکرا دی اور جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے یعنی شرک میں غرق تھے، ان سب کو اپنی پاک مسجد مین اپنے طریقے سے نماز ادا کرنے کی اجازت عطا فرما دی تو اس میں ہم مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ ہم بھی کم از کم اتنی رواداری اور Tolerance اور تالیفِ قلوب کا جذبہ اپنے اندر رکھیں۔
نبی کریم نے تو بیت اللہ کا طواف بھی اس ماحول میں کیا ہے کہ جب اسکے اندر 360 بت پڑے ہوئے تھے اور مشرکینِ مکّہ بھی آپکے ہمراہ اسی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔ دیکھنے والوں کو تو ظاہری عمل کے اعتبار سے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا لیکن کس کا طواف درحقیقت کس کے لئے ہے، اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ظاہر پرستی کے اعتبار سے تو دیکھیں تو متشدد فقہاّ اگر اس زمانے میں کسی اتھارٹی پر فائز ہوتے تو معاذ اللہ نبی کریم کے اس عمل کو بھی غلط قرار دے دیتے۔ اسکی ایک مثال بھی ہے کہ جب نبی کریم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک اسی قسم کے شخص نے آپکے اس عمل پر اعتراض کیا اور کہہ اٹھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) !اللہ سے ڈرو اور عدل کرو۔۔۔ استغفراللہ۔
میں نے اگر یہ کہا کہ فقہاء تنگ نظر تھے تو یہ سب کیلئے نہیں ہے۔ میں نے خود فقہ کے بعض "احکام " میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ مسلمان اگر ایک تنگ راستے سے گذر رہا ہو اور سامنے سے کوئی ذمی کافر آرہا ہو تو مسلمان کو چاہئیے کہ خوب چوڑا ہوکر اور اکڑ کر چلے تاکہ اس ذمی کو سمٹ کر بالکل دیوار کے ساتھ لگ کر گذرنا پڑے۔۔۔ اور حکمت انہوں نے اس عمل کی یہ لکھی تھی کہ حکمت اس میں یہ ہے کہ اسلام کی عزت اور کفر کی ذلت کا اظہار ہو۔۔۔
اور نبی کریم تو یہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو سلام کرو (Greetings) خواہ تم انہیں جانتے ہو یا نہیں جانتے۔۔۔ لیکن فقہاء فرما رہے ہیں کہ پہلے اس شخص کے عقیدے پر غور کرو،اگر وہ مسلمان ہے تو سلام کرو اور اگر کسی نے سلام میں پہل کردی، تب بھی جواب دینے سے پہلے دوسرے کے عقیدے پر غور کرو، اگر وہ مسلمان ہے تو ٹھیک ورنہ السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ کہہ دیا جائے۔۔۔
نبی کریم نے تو عورتوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی اور وہ نماز ادا بھی کرتی تھیں، لیکن ہمارے بعض فقہاء نے منع کردیا کہ جی اس سے فتنہ پھیلتا ہے۔ یہاں عرب ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کیلئے جگہ مختص ہوتی ہے اور وہ بھی مساجد میں نماز ادا کرتی ہیں، یہاں تو کوئی فتنہ نہیں پھیلتا۔۔۔ ۔۔۔ ۔
دین اللہ کا ہے فقہاء کا نہیں۔۔۔

اپ کی ان دونوں باتوں سے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مستند حوالہ ہو۔ (برائے مہربانی وکی پیدیا نا ہو۔ بلکہ کسی جملہ حقوق محفوظ کتاب کا ہو)۔ تو یہاں پہ بتادیں۔اگر پی ڈی ایف سکین ہو تو ممنون ہونگا۔
 
ہم نے تو کرسمس کی مبارکباد دی تھی اور اگلی بار بھی دیں گے عیسائیوں کو۔ اس سے یہ تھوڑے سمجھ لیا کہ عیسی علیہ اسلام نعوذ باللہ اللہ کے بیٹے ہیں۔ ہاں فتوے باز و پکے مسلمان سمجھتے رہیں۔ ان کے سمجھنے سے کونسا ہم ایسا سمجھنے لگ جائیں گے۔

ہمارے ہمسائے میں کرسچن رہتے ہیں وہ ہمیں عید پر مبارک باد دیتے ہیں میں تو خود ان کو کرسمس کی مبارکباد دیتا ہوں۔
 
بھائی میں نے کن جلیل القدر ہستیوں کا نام لیا ہے اور کن جلیل القدر ہستیوں پر طعنہ زنی کی ہے؟۔۔۔ میں نے ایک لفظ استعمال کیا ہے "تنگ نظر فقہاء"۔۔اگر آپ تنگ نظر فقہاء کو جلیل القدر سمجھتے ہیں تو پھر بات اور ہے۔ اور میں نے اپنی پوسٹ میں پہلے ہی یہ کلئیر کردیا تھا کہ میں سب فقہاء کی بات نہیں کر رہا۔۔۔
باقی جہاں تک آپکا یہ ارشاد ہے کہ نجران کے عیسائیوں والی روایت ضعیف ہے، تو اس سلسلے میں میں کسی تحقیق کے بعد ہی جواب دینا پسند کروں گا۔ والسلام
بھائی جان آپ میرے خیال سے موجودہ دور کے مفتی صاحبان کو فقہاء کہہ رہے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو اسے درست کرلیں۔ بہت سے ملحدوں (آپ کو نہیں کہا صرف مثال دی ہے) سے واسطہ پڑا۔کسی نے ایسا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اور نا ہی کسی فقہ والے نے دوسرے فقہ پہ ایسا کہا۔ جو بھی بحث ہوئی وہ جدید دور کے مفتیوں اور مولویوں کے درمیان ہوئی۔ آپ نے تو کام ہی تمام کر دیا۔ درخت ہی جڑ سے اکھاڑنے چلے ہیں۔
 
۔
باقی جہاں تک آپکا یہ ارشاد ہے کہ نجران کے عیسائیوں والی روایت ضعیف ہے، تو اس سلسلے میں میں کسی تحقیق کے بعد ہی جواب دینا پسند کروں گا۔ والسلام
جی ٖ آپ ضرور تحقیق کیجئے۔ نجران کا عیسائی وفد مباہلہ کیلئے آیا تھا لیکن وہ ڈر گئے اور مباہلہ نہیں کیا بلکہ "جزیہ“ دینے پر راضی ہوگئے تھے۔ حوالے چاہیں تو میں آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔
 
Top