کرسمس کا تہوار اور مبارکباد -- کس کھاتے میں ؟؟

یعنی کے دوسرے کا لال منہ دیکھ کر اپنا منہ تھپڑ مار مار کر لال کر لو۔

جب آپ کو معلوم ہے کہ ان کے کرسمس منانے کے پیچھے کیا جواز ہے تو آپ ان کے ساتھ ملکر اس جواز کا درست ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ آپ کا ایمان اس کو ماننے سے انکاری ہے۔
میں تو انکی پیدائش کی خوشی کی مبارکباد دیکر الٹا یہ ثابت کر رہا ہوں کہ وہ خدا نہیں تھے، کیونکہ وہ پیدا ہوئے ۔ لم یلد و لم یولد۔۔۔۔
 

متلاشی

محفلین
کفایت ہاشمی بھائی!
دو چیزیں ہیں ایک ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا جان کر ان کی ولادت منانا اور دوسرا ہے اللہ کے نبی کی پیدائش سمجھتے ہوئے ان کے میلاد کو منانا۔
اللہ کے نبی کی ولادت کی خوشی منانے میں کوئی خاص مضائقہ نہیں البتہ عقیدہ شرکیہ نہ رکھا جائے۔اور میرا نہیں خیال کہ کوئی مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق شرکیہ عقیدہ رکھتا ہو۔
میرے محترم !
اللہ تعالیٰ نے الیوم اکملت لکم دینکم کہہ کر دین مکمل کر دیا ہے ۔۔! اس لئے ہمیں دین کے معاملے سب سے پہلے قرآن پھر صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر صحابہ کرام کے نقشِ قدم کو اپنانا چاہئے ۔۔۔!
حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مبعوث ہوئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی یہ دن آتا رہا مگر نہ آپ نے اس دن کو منایا ۔۔۔اور نہ صحابہ کو اس کا حکم دیا ۔۔۔!
بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔ جو جس قوم کی مشابہت (دین کے کاموں میں ) اختیار کرے گا اس کا انجام اسی قوم کے ساتھ ہو گا۔۔۔!
عاشورہ کا روضہ یہودی بھی رکھتے تھے ۔۔۔ کیونکہ یہ دن شروع سے ہی محترم چلا آرہا ہے ۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس دن کا روضہ رکھنے کا حکم دیا تو ساتھ میں یہ بھی فرمایا۔۔ کہ تم عاشورہ کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روضہ بھی رکھ لیا کرو۔۔۔ تاکہ کہیں یہودیوں کی مشابہت نہ ہو جائے ۔۔۔!
افسوس کا مقام ہے آج ہم اللہ کے نبی کی سنت کو بھول گئے ہیں ۔۔۔!
اور اپنے لئے دین میں آسانیاں تلاش کرنی شروع کر دی ہیں ۔۔۔
اللہ تعالٰی ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور بدعات و خرافات سے بچائے ۔۔۔! آمین ۔۔۔!
 
اگر ہماری عیسائی برادری کو ہمارے عید منانے اور عید مبارک کہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر ہم مسلمانوں کو کیوں مسیحیوں کے کرسمس منانے اور انہیں میری کرسمس کہنے پر اعتراض ہے؟
ہمیں ان کے کرسمس منانے پر کوئی اعتراض نہیں۔
دوسری بات کا جواب دینے سے پہلے میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہوں گا۔
اگر میں آپ کو گالی دوں تو کیا آپ کو اعتراض ہوگا؟
 
جب نبی کریم نے نجران کے عیسائیوں کے وفد کوباوجود اسکے کہ انہوں نے اسلام کی دعوت قبول نہیں کی تھی، مسجدِ نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی، تو کیا وہ عیسائی اس وقت شرکیہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے؟۔۔۔اگر اسکے باوجود نبی کریم نے انکو اپنی مسجد کے اندر انکے اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی تو اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟۔۔۔دین اللہ کا ہے، تنگ نظر فقہاء کا نہیں ہے۔ :)
 
اگر عیسائی کمیونٹی کے لوگ جو اپکے آس پاس رہتے ہوں یا کام کرتے ہوں، آپکے تہواروں یعنی عید ین اور دوسرے مواقع پر اپکو مبارکبادیں دیتے ہین تو کیا حرج ہے اگر آپ بھی انکی خوشیوں میں محض انسانیت کے ناطے اور تالیفِ قلوب کے ناطے شامل ہوجائیں۔ یعنی انکو بھی انکے اس تہوار پر مبارکباد دے دیں۔۔۔ وہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی خوشی ہی مناتے ہیں ، آپ بھی اللہ کے ایک برگزیدہ نبی کی پیدائش پر خوشی منانے والے لوگوں کو مبارکباد دے دیں تو اس میں کیا حرج ہے۔۔۔ کیونکہ جب آپ ایک انسان کی پیدائش کی مبارکباد دے رہے ہیں تو اسی لمحے آپ اس عقیدے کو ثابت کر رہے ہیں کہ ہاں وہ تو ایک انسان تھے۔ کیونکہ جو پیدا ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔۔۔ :)
افسوس کہ میں آُ پ کی بات سے متفق نہیں ہوں۔ شاید میری غلطی ہے کہ میں نے وضاحت نہیں کی اور مختصر بات پر اکتفا کیا۔
جب ہم مسلمان کسی غیر مسلم کو کرسمس کی مبارکباد دیں گے تو سامنے والا یہی سمجھے گا کہ یہ میری ہی طرح خدا کے بیٹے کی پیدائش پر مبارکباد دے رہا ہے کیونکہ وہ خوشی ہی اسی بات کی منارہا ہے ۔ ہم اپنے دل میں کیا سوچ رکھتے ہیں ، اس سے سامنے والے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ الٹا اپنا ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔ ۔
دین کے معاملے میں کسی بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح تو ہمیں ہندوؤں کے تہواروں پر بھی خوب مبارکبادیں دینی چاہییں اور "جے شی کرشنا “ کہہ کر ان سے ملنا چاہیے !!! نعوذباللہ من ذلک ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ جو حق ہے اسے حق کہنا ہے اور جو باطل ہے اسے ڈنکے کی چوٹ پر باطل کہنا ہے۔ ذرا سورہ کافرون پڑھیں ، دیکھیں اس میں ہمیں کیا سبق دیا گیا ہے کہ جس کی تم عبادت کرتے ہو ، میں اس کی عبادت نہیں کرتا۔ یہ صاف اعلان ہے کہ حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
شمشاد بھائی کو اللہ خوش رکھے کہ انہوں نے میری بات کے مقصد کو پالیا یعنی کرسمس کے پیچھے مقصد اور جواز ، خود فیصلہ کیجئے کہ کیا ایک مسلمان کسی کافر کی تالیف قلب کیلئے اپنے رب کی وحدانیت کو چیلنج کرے گا ؟ کسی کی خوشی کیلئے اپنے رب کو ناراض کرے گا اور اپنے عقیدہ توحید کو داؤ پر لگائے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں (مریم - 90)

کیا کوئی مسلمان ایسے گھاٹے کا سودا کرنے کیلئے تیار ہے ؟؟؟؟
برادرم arifkarim کیلئے بھی یہی جواب ہے۔
 
برین ہیکر ، باباجی ، bilal260 الف نظامی
عزیزان من ، آپ لوگوں کو یہاں ٹیگ کرنے کا یہ مقصد ہے کہ ہمارے معاشرے کے ایک المیے پر نظر کیجئے جو ٹی وی ڈراموں کے زریعے ہماری نئی پود کو تباہ اور کھوکھلا کر رہا ہے۔یہ صرف ایک موضوع ہے، ایسے کئی اور موضوع ہیں جن پر بات ہوسکتی ہے۔ ہمارے ڈرامے اب کھلے عام مرد و عورت ، میاں بیوی کے تعلقات نمایاں کرکے دکھاتے ہیں ، نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو تنہائی میں راز و نیاز کی باتیں کرتے ہوئے دکھاتے ہیں ۔ طوائفوں کے کوٹھے اور انکی زندگی کی عکاسی تو ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔

ہم آپ کی آراء (مثبت یا منفی ) کے بھی منتظر رہیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جب نبی کریم نے نجران کے عیسائیوں کے وفد کوباوجود اسکے کہ انہوں نے اسلام کی دعوت قبول نہیں کی تھی، مسجدِ نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی، تو کیا وہ عیسائی اس وقت شرکیہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے؟۔۔۔ اگر اسکے باوجود نبی کریم نے انکو اپنی مسجد کے اندر انکے اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی تو اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟۔۔۔ دین اللہ کا ہے، تنگ نظر فقہاء کا نہیں ہے۔ :)
یہ کب کا واقعہ ہے؟ اس کا پس منظر کیا ہے؟
 
اگر ہماری عیسائی برادری کو ہمارے عید منانے اور عید مبارک کہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر ہم مسلمانوں کو کیوں مسیحیوں کے کرسمس منانے اور انہیں میری کرسمس کہنے پر اعتراض ہے؟
یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے۔ مسلمان عید مناتے ہیں تو رب کا شکربجا لانے کیلئے اور اسے یکتا اور اکیلا مان کر اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کی وجہ سے جبکہ کرسمس کا بنیادی مقصد اور غرض آپ کو بتا چکا ہوں ، یہ تہوار نہ مسیح علیہ السلام نے منایا نہ انجیل میں اللہ نے حکم دیا۔
جس فاسد عقیدے کی اللہ خود تردید کرے ، ہم کون ہوتے ہیں اس پر مبارکباد دینے والے ؟
جہاں تک عیسائی برادری کا کرسمس منانے کا تعلق ہے ، وہ مناتے رہیں ۔ انھیں کوئی نہیں روک رہا ، وہ اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے میں آزادہیں ۔ لیکن ایک مسلمان کیلئے یہ زیبا نہیں کہ وہ انہیں اس پر مبارکباد دیتا پھرے اور اس میں شریک ہوتا رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کفایت بھائی آپ کیوں اپنی دہرائے جا رہے ہیں۔ جس نے نہیں ماننا اس کے لیے کوا سفید ہی ہے۔ آپ بھلے ہی تکرار کرتے رہیں۔

عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے اور ایک دفعہ بتا دینا بہت ہوتا ہے۔
 
جب نبی کریم نے نجران کے عیسائیوں کے وفد کوباوجود اسکے کہ انہوں نے اسلام کی دعوت قبول نہیں کی تھی، مسجدِ نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی، تو کیا وہ عیسائی اس وقت شرکیہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے؟۔۔۔ اگر اسکے باوجود نبی کریم نے انکو اپنی مسجد کے اندر انکے اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی تو اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟۔۔۔ دین اللہ کا ہے، تنگ نظر فقہاء کا نہیں ہے۔ :)
اس سے تو پتا چلتا ہے کہ اسلام لانے کیلئے کوئی سختی نہیں ہے نہ کسی کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔ کسی ذمی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جبرا اسلام قبول کرے اور یہی آپ ٌصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ تھے کہ انہیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے پر عبادت کریں تاکہ وہ تنگ نظری محسوس نہ کریں بلکہ سوچ سمجھ کر اور حق جان کر دین اسلام کو قبول کریں۔ اس سے یہ تو سمجھ میں نہیں آتا محموداحمدغزنوی بھائی کہ ان کی عبادت و تہوار میں خود بھی شریک ہوجاؤ۔
فی الحقیقت آپ نے آخری جملہ لکھ کر فقہائے اسلام پر بڑا ظلم کیا ہے۔ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ فقہاء تنگ نظر تھے ؟ یا دین اُن کا تھا ؟ بلاشبہ دین اللہ کا ہے اور تمام انبیاء علیھم السلام ایک ہی دین اسلام کے داعی و پیروکار تھے۔ فقہائے اسلام نے اپنی زندگیاں صرف کرکے اس دین کو ہمارے لیے آسان کیا کیونکہ انہوں نے اپنے سے پہلے لوگوں سے علم دین حاصل کیا جو بالعموم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمھم اللہ تھے۔ فقہاء نے آنے والے لوگوں کیلئے آسانی پیدا کردی اور پورا ایک نظام مرتب کرکے دنیا سے رخصت ہوئے کیونکہ جن سے انہوں نے فیض حاصل کیا تھا ، کیا ان کے بعد آنے والے ویسی ہستیوں کو پا سکتے تھے ؟
ٹھنڈے دل سے سوچیے گا۔ ہم سب اکثر باتیں بغیر سوچے سمجھے بیان کردیتے ہیں ۔
 
کفایت بھائی آپ کیوں اپنی دہرائے جا رہے ہیں۔ جس نے نہیں ماننا اس کے لیے کوا سفید ہی ہے۔ آپ بھلے ہی تکرار کرتے رہیں۔

عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے اور ایک دفعہ بتا دینا بہت ہوتا ہے۔
میں کیا کروں شمشاد بھائی ، یہ میرے دینی بھائی ہیں ۔ اگر ان کےدل میں شک کا کوئی کانٹا ہے تو وہ مجھے نکالنے کی کوشش تو کرنی ہے ۔ اللہ رب العزت سے توفیق اور مدد مانگتا ہوں کہ اس میں کامیاب ہوجاؤں۔ آمین
 

شمشاد

لائبریرین
آپ نے اپنی سی کوشش کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت پر عمل کر لیا۔

اب ڈنڈا لیکر تو کوئی کسی کو سیدھا نہیں کر سکتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ اللہ تعالیٰ کی ہی رحمت ہے جس کو جب چاہے ہدایت دے دے۔
دوسری صورت میں سورۃ غاثیہ کی آخری چھ آیات کا ترجمہ پڑھ لیں۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ( 21 )
تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو
لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ( 22 )
تم ان پر داروغہ نہیں ہو
إِلَّا مَن تَوَلَّىٰ وَكَفَرَ ( 23 )
ہاں جس نے منہ پھیرا اور نہ مانا
فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ ( 24 )
تو خدا اس کو بڑا عذاب دے گا
إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ ( 25 )
بےشک ان کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم ( 26 )
پھر ہم ہی کو ان سے حساب لینا ہے
 

نایاب

لائبریرین
جب نبی کریم نے نجران کے عیسائیوں کے وفد کوباوجود اسکے کہ انہوں نے اسلام کی دعوت قبول نہیں کی تھی، مسجدِ نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی، تو کیا وہ عیسائی اس وقت شرکیہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے؟۔۔۔ اگر اسکے باوجود نبی کریم نے انکو اپنی مسجد کے اندر انکے اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی تو اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟۔۔۔ دین اللہ کا ہے، تنگ نظر فقہاء کا نہیں ہے۔ :)
نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ آیا، وفد میں 60 افراد تھے۔ جب وہ مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز ادا کر چکے تھے۔ یمنی کپڑوں میں ملبوس، قبائیں اور چادریں لپٹے ہوئے، کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں دیکھ کر کہا کہ ہم نے ان جیسا وفد نہیں دیکھا۔ ان کی نماز کا وقت ہو گیا، وہ اٹھے اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو، انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔
السيرة النبوية ج 2 / 224
الطبقات الکبری ج 1 / 357
البداية والنهاية ج 5 / 51
الروض الانف شرح سيرت ابن هشام
 

شمشاد

لائبریرین
تو میرے بھائی انہوں نے اپنی طرح عبادت کی۔ مسلمانوں نے نہ ان کے ساتھ شمولیت اخیتار کی اور نہ ہی ایسا کوئی اردہ ظاہر کیا۔

بایں اسی طرح پاکستان میں عیسائی عبادت کرتے ہیں ہندو اپنے طریقے سے کرتے ہیں سکھ اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ تو کیا کرسمس کی طرح ان کے کہنے پر مسلمان ان میں شامل ہو جائیں۔

آج کے مسلمان کو تو اسی بات سے سبق حاصل کر لینا چاہیے تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا واقعہ پیش آیا تو آپ نے نہ تو اس میں شرکت کی اور نہ شرکت کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔
 

نایاب

لائبریرین
تو میرے بھائی انہوں نے اپنی طرح عبادت کی۔ مسلمانوں نے نہ ان کے ساتھ شمولیت اخیتار کی اور نہ ہی ایسا کوئی اردہ ظاہر کیا۔

بایں اسی طرح پاکستان میں عیسائی عبادت کرتے ہیں ہندو اپنے طریقے سے کرتے ہیں سکھ اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ تو کیا کرسمس کی طرح ان کے کہنے پر مسلمان ان میں شامل ہو جائیں۔

آج کے مسلمان کو تو اسی بات سے سبق حاصل کر لینا چاہیے تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا واقعہ پیش آیا تو آپ نے نہ تو اس میں شرکت کی اور نہ شرکت کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔
محترم بھائی ۔ آج کے مسلمان کو فساد جھوٹ دھوکہ فریب بارے آگہی دینا بہتر ہے ۔جس سے انسانیت کو واقعی نقصان پہنچتا ہے ۔
آپ کی اس پوسٹ کو پڑھ کر اس واقعے بارے لکھا تھا ۔
یہ کب کا واقعہ ہے؟ اس کا پس منظر کیا ہے؟
اور جہاں تک بات ہے عبادات کی تو " موارد" پر پڑھا تھا کہ
خدا کی عبادت میں اشتراک کے اس تصور سے آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے مابین جو باہمی رویہ پیدا ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے کہ رواداری، مسامحت اور احترام کا رویہ ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ بوقت ضرورت مسلمانوں کو اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں اور اہل کتاب کو مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ چنانچہ صحابہ میں سے حضرت عمر، حضرت عبد اللہ ابن عباس، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور تابعین میں سے ابراہیم نخعی، اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، حسن بصری، عمر بن عبد العزیز، شعبی، عطا اور ابن سیرین رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر اہل علم سے کلیساؤں میں نماز پڑھنے کی اجازت اور بوقت ضرورت اس پر عمل کرنا منقول ہے۔ ١ دوسری طرف ٩ ہجری میں جب نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انھیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور انھوں نے نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے ان کو روکنا چاہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں نماز پڑھنے دو ۔ چنانچہ انھوں نے مشرق کی سمت میں اپنے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔
 
بہت اچھا موضوع ہے ۔
آپ نے میرے مقصد تحریر کو سمجھا نہیں۔ میری گزارشات کا یہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو کیا ضرورت پڑی ہے نصاریٰ کے تہوار کو منانے کی ؟ جبکہ نصاریٰ کرسمس کو ولادت مسیح علیہ اسلام کے طور پر مناتے ہیں اور ان کے نزدیک مسیح علیہ السلام ٌ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔خود 25 دسمبر کی تاریخ کا کیا قطعی ثبوت ہے کہ اسی روز مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔
اگر ولادت کی خوشی منانا دین میں ہوتا تو یہ کام سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کرتے بلکہ خود اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتا۔ یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے کہ مسلمان” کرسمس“ منائیں اور یہ سمجھ کر منائیں کہ اس روز نبی اللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہ تو حد ہوجائے گی ذہنی غلامی کی۔
یقینا کوئی مسلمان سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق شرکیہ عقیدہ نہیں رکھتا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے وہ کام کرنے دیا جائے جس سے ایک تو مشرکوں کی مشابہت ہو اور اسے دوسرا اسے شرک کے قریب لے جائے۔

حضرت عیسیٰی علیہ السلام کی پیدائش کا زمانہ جولائی یا اگست کا ہو سکتا ہے۔ دسمبر کا ہرگز نہیں۔
سورۃ مریم میں اللہ تعالٰی نے حضرت مریم علیہ السلام کو وحی کے ذریعے کہا کہ کھجور کے تنے کو زور سے ہلاؤ۔ تو پکی ہوئی کھجوریں ان پر گریں جو انہوں نے غذا کے طور پر استعمال کیں۔ اور دنیا جانتی ہے کہ عرب میں کھجوریں جولائی اگست میں ہی پکتی ہیں۔ نہ کہ دسمبر میں پکی ہوئی کھجوریں درختوں پر لگی رہتی ہیں۔
جزاکما اللہ خیرا ، اس سال کرسمس ایسے حالات میں آئی ہے جب خود رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ کرسمس کی یہ تاریخ حضرت عیسی علیہ السلام ی درست تاریخ پیدائش نہیں ۔
برلن…پوپ بینی ڈکٹ کی نئی کتاب نے حضرت عیسی علیہ اسلام کی تاریخ پیدائش سے متعلق نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔پوپ کا دعویٰ ہے کہ عیسائی کیلنڈر میں دی گئی حضرت عیسی کی پیدائش کا سال درست ہے نہ تاریخ۔حضرت عیسی کی تاریخ پیدائش سے متعلق اس سے پہلے بھی مختلف تحقیق کار اور عیسائی مذہبی رہنما سوال اٹھاتے رہے ہیں ۔لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کیتھولک چرچ کے بانی نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے۔پوپ The infancy Narratives سلسلے کی اپنی تیسری کتاب میں لکھتے ہیں کہ عیسائی کیلنڈر میں حضرت عیسی علیہ اسلام کی تاریخ پیدائش میں کئی سالوں کی غلطی ہے۔ اور اس اعتبار سے دیکھیں تو ان کی پیدائش کا دن بھی 25دسمبر نہیں ہے۔ کتاب میں پوپ نے حضرت عیسی کی پیدائش اور ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔پوپ کی کتاب کی لاکھوں کاپیاں چھپ چکی ہیں۔اور بہتر ملکوں میں شائع کرنے کیلیے کتاب کا بیس زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔امکان ہے کہ یہ کتاب بھی دیگر دو کتابوں کی طرح مقبول ہوگی۔
http://search.jang.com.pk/JangDetail.aspx?ID=76868
 

bilal260

محفلین
برین ہیکر ، باباجی ، bilal260 الف نظامی
عزیزان من ، آپ لوگوں کو یہاں ٹیگ کرنے کا یہ مقصد ہے کہ ہمارے معاشرے کے ایک المیے پر نظر کیجئے جو ٹی وی ڈراموں کے زریعے ہماری نئی پود کو تباہ اور کھوکھلا کر رہا ہے۔یہ صرف ایک موضوع ہے، ایسے کئی اور موضوع ہیں جن پر بات ہوسکتی ہے۔ ہمارے ڈرامے اب کھلے عام مرد و عورت ، میاں بیوی کے تعلقات نمایاں کرکے دکھاتے ہیں ، نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو تنہائی میں راز و نیاز کی باتیں کرتے ہوئے دکھاتے ہیں ۔ طوائفوں کے کوٹھے اور انکی زندگی کی عکاسی تو ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔

ہم آپ کی آراء (مثبت یا منفی ) کے بھی منتظر رہیں گے۔
وہ تو اس لئے دکھا تے ہیں ایسا کرو یہ پروگرام تعلیم و تربیت کا غلط انداز لئے ہوئے ہیں۔
جس کے لئے ہمیں تبدیلی لانی پڑے گی اگر یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
تو اسلامی نہ ہوا۔
تو غیر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوا۔
یہ بے غیرتی ملکی و اسلا می و آئنی نقطہ نظر سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی شازش ہے۔
جو کہ ہو رہے ہیں۔جو جو بے غیرتی دکھائی جاتی ہے اس پر آج کے نوجوان عمل کر بھی رہے ہیں۔
ہمیں میڈیا کا درست او صحیح استعمال کرنے کے لئے کمیٹی بنانی چاہئے اور اس کی سفارشات پر اچھی اور مثبت تبدیلیاں لانی چاہئے۔
مجھے ٹیگ کیا شکریہ مگر میں زیادہ علم نہیں رکھتا نہ ہی ٹی وی ،اخبار کا مطالعہ اور نہ ہی میرے دوست ہیں جن کہ پاس جا کر بیٹھوں یہ سب جنرل نالج کہ باتیں کر رہا ہوں۔
میری ہر بات حرف آخر نہیں ہے۔
 
Top