ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 62

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000064.gif
 

کاشفی

محفلین
کربلا : صفحہ 62

(فرزوق کا آنا)

فرزوق: السلام علیک! یا حضرت حسین علیہ السلام میں نے بہت چاہا کہ مکہ میں ہی حضور کی زیارت کروں۔ مگر افسوس میری کوششیں بے کار ہوئیں۔

حسین علیہ السلام: اگر عراق سے آئے ہو تو وہاں کی کیا خبریں ہیں؟

فرزوق: یا حضرت وہاں کی خبریں وہی ہیں جو آپ کو معلوم ہیں لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ آپ حق پر ہیں اور تلواریں یزید کے ساتھ ہیں کیونکہ اس کے پاس دولت ہے۔

حسین علیہ السلام: اور میری بھائی مسلم کی بھی کچھ خبر ہے۔

فرزوق: ان کی روح پاک جنت میں ہے اور سر قلعے کی دیوار پر۔

حسین علیہ السلام: (سینے پر ہاتھ رکھ کر) آہ! مسلم! وہی ہوا جس کا مجھے خوف تھا۔ اب تک تمہیں کفن نصیب نہیں ہوا۔ کیا تمہاری حق پژدی کا یہیں صلہ تھا۔ آہ تم اتنے دنوں تک میرے ساتھ رہے۔ میں‌نے تمہاری قدر نہ کی۔ میں نے تمہارے اوپر ظلم کیا۔ دیدہ دانستہ تمہاری جان لی۔ میرے عزیز اور احباب سب کے سب مجھے اہل کوفہ سے ہوشیار کر رہے تھے۔ پر میں‌نے کسی کی نہ سُنی اور تمہیں ہاتھ سے کھویا۔ اب ان کی بیوی اور بچوں کو کیونکہ تسلی و تشفی دوں گا۔

(حضرت مسلم کی صاحبزادی فاطمہ آتی ہے)

فاطمہ: چچی جان نے شہید اور روٹی تو دی تھی۔ کیوں چچا جان۔ اب ہم لوگ کتنے دونوں‌میں ابا جان کے پاس پہنچیں گے؟ پانچ چھ دن تو ہو گئے ۔
 

کاشفی

محفلین
کربلا : صفحہ 62

حسین علیہ السلام: (دل میں) آہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس سوال کا کیا جواب دوں کیسے کہہ دوں کہ اب تمہارے ابا جنت میں ملیں گے۔ بیٹی خدا کی جب مرضی ہوگی۔

اصغر: آؤ فاطمہ ابا جان کی گود میں بیٹھو۔

فاطمہ: ہم تم دونوں کوفہ پہنچ کر ابا جان کے گھر میں‌ بیٹھیں گے ۔ چچا جان! آپ رو کیوں رہے ہیں۔

حسین علیہ السلام؛ بیٹی تمہارا ابا جان میں ہی ہوں۔ تمہارے ابا جان کو خدا نے بُلا لیا ۔ (فاطمہ روتی ہوئی اپنی ماں کے پاس جاتی ہے۔ بیبیاں گریہ و زاری شروع کرتی ہیں۔ )

جناب زینب سلام اللہ علیہا: (باہر آکر ) بھیا یہ کیا غضب ہو گیا؟

حسین علیہ السلام: کیا کہوں، ستم ٹوٹ پڑا، کوفہ والوں نے دغا کی۔

زینب سلام اللہ علیہا: تو پھر، ایسے دغا بازوں سے کیا اُمید ہو سکتی ہے میں تم سے منت کرتی ہوں۔ بھیا یہیں سے واپس چلو کوفہ والوں نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔

(حضرت مسلم کے صاحبزادے عبداللہ کا آنا)

عبداللہ: پھوپھی جان اب تو اگر تقدیر بھی راستہ میں‌کھڑی ہو جائے تو بھی میرے قدم پیچھے نہ ہٹیں گے۔ تف ہے مجھ پر اگر اپنے باپ کے خون کا انتقام نہ لوں۔ ہاں وہ انسان جس نے کبھی کسی سے بدی نہیں کی۔ جو رحم اور مروت کا پُتلا تھا جو دل کا اتنا صاف تھا کہ اسے کسی پر شبہ تک نہ ہوتا تھا وہ اتنی بیدردی سے ہلاک کیا جائے۔

(حضرت عباس علیہ السلام آتے ہیں)
 
Top