کتاب پڑھنے کی تکنیک ۔ سلیمان خطیب

عندلیب

محفلین
جو کتاب خرید کر پڑھی جاتی ہے وہ اپنی نہیں ہوتی پرائی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آپ ہمارا تجربہ اور مشورہ چاہتے ہیں تو ہم آپ سے یہی عرض کریں گے کہ آپ مفت کی کتابیں پڑھیے، جیب پر بار نہ ڈالیے۔ مفت کی کتابیں پڑھنے میں لطف زیادہ آتا ہے اور سہولت بھی کافی ہوتی ہے۔ آپ ان کو اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق استعمال کرسکتے ہیں۔ احتیاط کی ضرورت ہے نہ سر دردی کی۔ آپ ان کتابوں پر پان سپاری رکھ کر کسی مہمان کی خاطر مدارات کرسکتے ہیں۔ سگریٹ کی راکھ جھاڑ سکتے ہیں۔ لوکل کے انتظار میں پلیٹ فارم پر بچھا کر بیٹھ سکتے ہیں۔ بلی دسترخوان پر آجائے تو رول بناکر مار سکتے ہیں، سفر میں سرہانے لے کر سو سکتے یا کم از کم حاشیہ تراش کر کسی چراغ یا قندیل سے سگریٹ ہی جلا سکتے ہیں، اس سے زیادہ آپ کو کیا چاہیے۔ یقین مانیے مفت کی کتاب کی کوئی چیز بے کار نہیں جاتی۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ گرد پوش پھٹ جائے تو چولہا سلگانے کے کام آتا ہے۔ مقوے علیحدہ ہوجائیں تو آپ کے پیارے بچے ان پر مدرسہ کا نظام الاوقات چسپاں کرسکتے ہیں۔ ردی بیوی کو دے دیجیے سگھڑ بیوی اس کو کوٹ پیس کر، میتھی لاکر، ٹوکریاں، چھاج لیپ لے گی یا پھر کسی بنیے کی دکان پر بھیج کر پیسے بنالے گی۔ اب رہا کتاب کی واپسی کا سوال۔ اجی حضرت یہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے جب کوریا، کوریا والوں کو نہیں مل سکا تو پھر کتاب، کتاب والے کو کیسے مل سکتی ہے؟ رہا تقاضا تو اس کو ٹالنے کے لیے اسی عام تکنیک کی ضرورت ہے۔ کہہ دیجیے"گھر پر رہ گئی ہے، بھجوادوں گا" و گھر پر آدمی بھیجا جائے تو جواب دیجیے کہ میرے ایک دوست پڑھ رہے ہیں۔ دوست کا پتا دریافت کریں تو کہہ دیجیے کہ بمبئی گئے ہیں۔ بمبئی سے واپسی پوچھی جائے تو سادگی سے فرمادیجیے"مجھے نہیں معلوم" لیجیے چھٹی ہوگئی۔

اگر آدمی بڑا "چکٹ" قسم کا نکلے تو آپ کو بھی ذرا اپنی تکنیک بدلنی پڑے گی۔ بہت سنجیدہ ہوجانا پڑے گا۔ گردن کو 75 کے زاویہ پر لٹا دیجیے۔ ہونٹ ڈھیلے چھوڑ کر فرمائیے"معاف کرنا بھئی خواہ مخواہ آپ کو تکلیف ہوئی۔ دیکھیے نا! "دنیا کا رنگ ہی بدل گیا ہے" لوگوں کو شرم کیوں نہیں آتی۔ لاکھ سر پٹکے کہ صاحب، کتاب میری نہیں میرے دوست کی ہے صرف دو روز کے لیے مستعار لی ہے مگر وہ جانتے ہی نہیں۔ ایک ہفتے کے وعدے سے اتر کر ایک دن پر آجاتے ہیں۔ ابھی کوئی جواب بھی نہیں دے پاتے کہ وہ 'ہوازاد' سیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔۔۔ ارے بھئی معاف کرنا باتوں میں بھول گیا سگریٹ بھی پیش نہ کرسکا۔" سونے کا سگریٹ کیس کھول کر ویلز یا تھری کیسلس پیش کیجیے یا نہ ہو تو پھر اپنا چارمینار ہی پیش کردیجیے کیونکہ مفت کتاب پڑھنے کی تکنیک 'چارمینار سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ چار مینار کے محاورہ سے 'چار مینار کی قدامت سے، چار مینار کی زینت سے۔ جہاں تک ہوسکے اس قسم کی تقاضا کن مخلوق سے اپنے دامن کو بچا کر چلیے۔ راہ میں نظر آجائے تو کسی قریبی پان کی دکان پر کھڑے ہوجائیے۔ منہ پھیر لیجیے۔ آسمان کی طرف دیکھنے لگ جائیے یا گردن جھکا کر استغراق فرمائیے اس پر بھی اگر وہ 'چمگاڈر 'بن کر دامن پکڑ لے تو مصنوعی مسرت کا اظہار کیجیے۔ ہونٹوں کو گول دائرہ بنا کر فرمائیے۔۔"اوہو۔۔کدھر۔۔؟ اب تو آپ سے برسوں ملاقات نہیں ہوتی۔ آخر کہاں رہتے ہو، بچے وغیرہ تو اچھے ہیں، کہو وہ میری 'ننھی گڑیا' ۔۔ کیسی ہے۔ بھئی بڑی پیاری بچی ہے۔"

یقین مانیے اس انداز اور تکنیک سے 'متقاضی' کا ذہن دوسری طرف منتقل ہوجائے گا۔ آپ اس کو کسی خوبصورت 'کیفے' میں لے جائیے اس پر بھی آدمی سنگِ خارا قسم کا نکلے اور اپنی کتاب کا رونا روئے تو ڈانٹ پلادیجیے۔"ارے یار تم بھی عجیب آدمی ہو، تمہارے پاس تو آدمی کی کوئی قدر نہیں۔ میرے پاس اٹالین بک شیلف میں ایسی سینکڑوں کتابیں پڑی ہیں۔ آؤلے جاؤ تمہیں جو چاہیے۔ ایک معمولی کتاب کی خاطر رو رہے ہو۔ کہو کیا قیمت تھی تمہاری کتاب کی؟" اپنا خوبصورت منی پرس کھول کر اپنی'مفروضہ' دولت کا مظاہرہ کیجیےجو آپ اپنے باس کی طرف سے بنک میں جمع کرنے جارہے ہیں ہوسکے تو 10 کا نوٹ جیب میں ٹھونس دیجیے۔ بخدا یہ لاجواب تکنیک ہے۔ متقاضی محجوب ہوجائے گا۔ بغلیں جھانکنے لگے گا۔ معافی چاہے گا بعض دفعہ تو پیروں میں گرجائے گا۔! بہرحال
"عیب بھی کرنے کا ہنر چاہیے"

اور آج اسی ہنر کو ماڈرن سوسائٹی میں تکنیک کہا جاتا ہے۔ لیکن آپ کو یہ سن کر افسوس ہوگا کہ کتاب پڑھنے کی یہ تکنیک ہندوستان سے زیادہ ماڈرن ممالک میں استعمال نہیں کی جاتی۔ چنانچہ میرے ایک دوست جو ابھی امریکہ سے آئے ہیں کہہ رہے تھے وہ جس گھر میں 'اجرتی مہمان' کی حیثیت سے رہتے تھے وہاں مانگنے کی تکنیک نظر نہیں آئی۔ جس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔ وہ جس گھر میں تھے پانچ اخبار آتے تھے اس پر بھی انہیں اپنا اخبار خرید کر پڑھنا پڑتا تھا۔ یقینا یہ ایک ہندوستانی پر ظلم ہے لیکن
"جور ہے جور کی فریاد نہیں"

تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ جو چیز خرید کر پڑھی جاتی ہے وہ اپنی نہیں ہوتی، پرائی ہوتی ہے۔ میری ہی مثال لیجیے میں نے سلیمان اریب سے "صبا" بطور نمونہ مانگا تھا۔ نمونہ مانگنا تکنیک ہے انہوں نے آٹھ روپے جھڑالیے۔ روپے جھڑا لینا بھی تکنیک ہے۔

جاری۔۔۔
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
واہ بہت خوب!

اس مضمون سے مجھے یہ سبق ملا کہ دوسروں کو اپنی کتابوں کی ہوا تک لگنے نہیں دینی چاہیے۔ کیوں کہ تین چار سو روپے کی کتاب پر فقط دس روپے کی واپسی ناقابل برداشت ہے میرے لیے۔ :)

"جاری ہے" کا بورڈ دیکھ کر مزہ کرکرا ہوگیا۔ :cautious:

کہیں آپ کا بھی لئیق احمد بھائی کی طرح مہینے مہینے تک ستانے کا ارادہ تو نہیں ہوگیا ہے؟:p
 
دوسروں کو پڑھنے کے لئے کتاب دینے کا تجربہ میرا بھی اچھا نہیں ہے۔ اس لئے عرصہ دراز سے میں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اول تو کسی کو پڑھنے کے لئے کتاب نا دو اور اگر دو تو تحفۃ دے دو ۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
دوسروں کو پڑھنے کے لئے کتاب دینے کا تجربہ میرا بھی اچھا نہیں ہے۔ اس لئے عرصہ دراز سے میں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اول تو کسی کو پڑھنے کے لئے کتاب نا دو اور اگر دو تو تحفۃ دے دو ۔
جی درست کہا آپ نے۔ اسی یک طرفہ دین کے چکر میں میری ایک کلیات اور اشتیاق احمد کے نجانے کتنے سارے جاسوسی ناولز لوگوں نے گم کردیے ہیں۔ :cry:
 
جی درست کہا آپ نے۔ اسی یک طرفہ دین کے چکر میں میری ایک کلیات اور اشتیاق احمد کے نجانے کتنے سارے جاسوسی ناولز لوگوں نے گم کردیے ہیں۔ :cry:
میں نے جن کو کتاب پڑھنے کے لئے اول تو انہوں نے واپس نہیں کی اور اگر کی اس پر جگہ جگہ نشان لگا کر اور لکھ کر اس کی حالت بری کر دی ۔ اس وجہ سے ہی میں نے وہ اصول اپنایا ہے۔
 

عندلیب

محفلین
ہاں تو پھر میں نامپلی کے سہ راہے سے ایک عدد روزنامہ سیاست، نقوش کا منٹو نمبر،احتشام کی ساحل اور سمندراور فلمی دلچسپی کے ثبوت کی خاطر فلم فیر خرید کر ریلوے اسٹیشن میں اس وقت پہنچا جبکہ ٹرین ساحل کے قریب ایک موج کی طرح لہرا رہی تھی۔ فورا ٹرین کے دریچہ سے الم غلم بھینک ایک مشاق غواص کی طرح غوطہ لگایا اور غڑاپ سے اندر ہوگیا۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ گورنمٹ مجھے سکنڈ کلاس کا کرایہ دیتی ہے اور میں تھرڈ کلاس میں سفر کرتا ہوں(مگر آپ یہ کسی سے نہ کہیے۔یہ میری اپنی تکنیک ہے) لیکن تھرڈ کلاس کے سفر کی تکنیک بھی خوب ہوتی ہے۔ سامان سلیقہ سے ایک طرف رکھ کر سیٹ پر آتا ہوں تو کتابیں غائب۔"ارے بھئی میری کتابیں کیا ہوئیں" برابر والے صاحب نے مسکرا کر کہا وہ دیکھیے وہ'صاحب' پڑھ رہے ہیں۔ ان صاحب کی طرف دیکھتا ہوں تو 'وہ صاحب' تیسری سیٹ سے صرف ہاتھ کے اشارے سے تسلی دے کر اخبار پڑھنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

میں نے عرض کیا "بھئی اور بھی تو کتابیں تھیں،ساحل اور سمندر۔" ایک ابابیل قسم کے مسافر صاحب جو اوپر دراز تھے اور جن کے مقدس پاؤں ہمارے چہرہ پر سہرے کی دو لڑیوں کی طرح لٹک رہے تھے، ایک طائرانہ نظر نیچے پھینک کر بولے۔"میں دیکھ رہا ہوں بھائی صاحب ابھی دیتا ہوں۔" اور وہ 'فلم فیر' لونڈے ملاحظہ فرما رہے تھے۔ کبھی کبھی تبصرہ بھی فرمادیتے۔ "دیکھا سالے وجینت ملاکو! مسکہ ہے مسکہ سالی۔ کیا ناچتی ہے آہاہا، وہ کونسا فلم ہے یار(تھوڑی دیر سوچ کر) انار کلی۔ نہیں نہیں ۔ ہاں وہ گانا یار۔'میں آئی دنیا کی دیوار سیاں توڑ کے اجی سیاں توڑکے!!'' ابے ناگن ہے ناگن' دوسرے نے اپنی معلومات کی دھونس جمائی"کیوں نا صاحب" پھر اس نے مجھ سے توثیق چاہی اور میں نے جل بھن کر منہ پھیر لیا۔'افکار' لے بیٹھا۔ منٹو کی موت پڑھنے لگا۔ منٹو صرف اس لیے مر گیا کہ اس کے ملک نے اس کی کتابیں خرید کر نہیں پڑھیں۔ منٹو وضعدار تھا، خودار تھا۔ کتابیں واپس نہ مانگ سکا تو جس دنیا سے آیا تھا اسی دنیا کو واپس چلا گیا۔ سنا ہے کہ اس کی کتابیں مفت میں پڑھنے والے اب اس کی کتابیں چھاپ چھاپ کر پیسے بنا رہے ہیں اور اس کے پسماندگان کو قرارداد تعزیت بھیج رہے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہء معترضہ تھا۔ میں نے 'افکار' ایک طرف رکھ دیا اور لونڈوں سے'فلم فیر' لینا چاہا یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ان کے ہاتھ میں رسالہ نہیں تھا۔ وہ ادرک کا مربہ کھا رہے تھے۔
"ارے میاں وہ پرچہ کیا ہوا؟"
"وہ آپ کے دوست لے گئے نا صاب"
میرے دوست لے گئے؟
جی صاب، بازو کے ڈبے والے دوست!
"عجیب نامعقول ہوتم لوگ۔ تم نے پرچہ لیا ہی کیوں تھا؟"
"تو کیا گھٹ گیا صاب؟"
جواب کیا دیتا۔ کیچڑ پر پتھر مارنا تھا۔ خون کے گھونٹ پی کر چپ ہورہا۔
آخر'فلم فیر' گیا کہاں۔ وہ کون سے دوست آسمان سے ٹپک پڑے جن کو مجھ سے زیادہ میرا فلم فیر پسند ہے اور جنہوں نے اخلاقا علیک سلیک تک نہیں کی اور پرچہ لے کر چلتے بنے۔ تمام ڈبے پر ایک غائر نظر ڈالی پھر آہستہ سے اٹھ کر متصل کمپارٹمنٹ میں جھانکا۔ ایک مدراسی قسم کے مسافر جن کی بالشت بھر کی 'جٹو' برقی پنکھے کے ساتھ منی پوری ناچ ناچ رہی تھی۔

پیشانی پر تین لکیریں سفید دھوتی، سفیدقمیض ایک شوخ جوان رنگ کی ٹائی جو ان کے سینہ پر تڑپ رہی تھی اور گردن چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ ادرک کا مربہ کھانے والے لونڈوں نے چیخ کر کہا کہ"وہ ہے صاب آپ کی کتاب"۔ میں نے مسٹر ٹائی کو بغور دیکھا وہ پرچہ کو بغور دیکھ رہے تھے۔ مسٹر ٹائی آٹھ گھنٹے پہلے میرے مقابل کی سیٹ پر متمکن تھے۔ مجھ سے انگریزی میں How far you are going پوچھا تھا۔ بس یہی ایک جملہ تھا جس کو دوستی کہا جاسکتا ہے تو یہ دوستی تھی۔ کیا یہ آپ کا ہے؟ وہ انجان بن کر پوچھ بیٹھے۔ yes it is mine میں نے آنکھیں پھاڑ کر جواب دیا۔ "just a minute" جب ان کا صرف ایک منٹ دس منٹ تک ختم نہیں ہوا تو میں نے رسالہ کھینچ لیا۔ سارے ڈبہ میں کھلبلی مچ گئی۔ لوگ چیخنے چلانے لگے، جیسے کسی بچھو نے ڈنک مارا ہو۔

"واہ کیا اخلاق ہیں؟ کیا رسالہ غریب کھاجاتا!! پڑھنے کی چیز تھی پڑھ رہا تھا!! عمر کا تو خیال کیا ہوتا۔"
"نعوذباللہ۔ تصویریں رکھنا حرام ہے۔" ایک عمامہ نے فتویٰ صادر فرمایا۔
میں نے رسالہ گھبرا کر واپس کردیا کیوں کہ میں نے اخلاق محسنیٰ پڑھی تھی۔ جب اپنے ڈبے میں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب انتہائی اطمینان 'افکار' کی اوراق گردانی فرما رہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی ایک دم گھبرا اٹھے رسالہ رکھ دیا۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ جی نہیں کوئی بات نہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں" پھر وہ جوابا مسکرا کر رسالے سے محظوظ ہونے لگے۔ اچانک سروں پر ایک ہنسی کا بم بھٹا۔ سب لوگوں کی نظریں اوپر اٹھ گئیں جہاں ابابیل کے پاؤں لٹک رہے تھے۔'ساحل اور سمندر' کو موڑ کر حسب خواہش مطالعہ فرمانے والے مسافر صاحب کروٹ بدلتے ہوئے گوہر افشاں تھے۔"مار ڈالاظالم نے۔۔۔واللہ کیا لکھا ہے واہ واہ" آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب میرے پاس کتاب ہوتی ہے تو میں نہیں پڑھتا جب وہی کتاب دوسرا پڑھنے لگتا ہے تو ہمارے سمند شوق پر تازیانے پڑنے لگتے ہیں۔ دکنی زبان میں پڑھنے کی'ہکی' اٹھتی ہے۔ اگر کوئی ظالم اس ذوق و شوق اور زور و شور سے پڑھے تو سمجھ جائیےکہ ذوق حد اور دیوانگی کو چھونے لگتا ہے۔ میں نے ابابیل سے التجا کی کہ ذرا کتاب عنایت فرمائیے۔ ابابیل نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر کہہ دیا کہ 'ٹہرو یار مزہ آرہا ہے۔ ظالم نے کمال کردیا واہ واہ کیا لکھتا ہے۔' ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ دوسرا قہقہہ گرجا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا 'بے اختیار اٹھ کر بولا'۔ "دیکھیے صاحب کتاب دے دیجیے نوازش ہوگی۔ یہ'افکار' دیکھیے یہ بھی بالکل تازہ ہے۔ اس میں منٹو کی موت ہے۔ آپ کا تذکرہ ہے۔ ابابیل ناک صاف کرتے ہوئے بولے "ٹہرویار۔۔۔! کیا بیچ راستہ میں گردن مارتے ہو" میں خود گردن لٹکا کر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے بزرگوں،استادوں کو سلسلے سے یاد کیا جنہوں نے مجھے اخلاق محسنیٰ پڑھائی تھی۔ مجھ میں اس قدر ادبی و اخلاقی کمزوری پیدا ہوچکی تھی کہ خود اپنی کتاب ایک سفید پوش سے چھین نہیں سکتا تھا۔ مجھے اپنی پہلی حرکت یعنی رسالہ'فلم فیر' کے چھین لینے کا خود افسوس تھا۔ ایک اسٹیشن پر گاڑی رک گئی۔ ایک صاحب اپنے بچے کے ساتھ گاڑی سے اتر رہے تھے۔ بچے کے ہاتھ میں میرا اخبار'سیاست' تھا۔ میں نے بچے کے ہاتھ سے لینا چاہا۔ بچے نے چیخ کر احتجاج کیا۔"ابا۔۔۔یہ صاحب اخبار چھینتے ہیں۔"

جاری۔۔
 

arifkarim

معطل
میں نے جن کو کتاب پڑھنے کے لئے اول تو انہوں نے واپس نہیں کی اور اگر کی اس پر جگہ جگہ نشان لگا کر اور لکھ کر اس کی حالت بری کر دی ۔ اس وجہ سے ہی میں نے وہ اصول اپنایا ہے۔
لائبریری میں کتب کا بھی قریباً یہی حال ہوتا ہے۔
 

عندلیب

محفلین
"اوہو! معاف کرنا جناب بھول گیا۔ بیٹے اخبار دے دو یہ انہیں کا ہے۔ سلام کرو چچا کو، شکریہ معاف کرنا۔" جی کوئی بات نہیں یوں تو ہوتا ہی ہےبھول چوک۔ وہ چلے گئے اور میں نے اخبار کو الٹ پلٹ کر دیکھا اخبار پر جابجا سالن کے دھبے پڑے ہوئے تھے شاید بطور دسترخوان استعمال ہوا تھا۔ درمیانی حصہ غائب تھا ممکن ہے پوری کچوری کھا کر دریچہ سے باہر پھینک دیا ہو۔ میں اسی کوفت میں'افکار' دیکھنے لگا نہ معلوم کب اونگھ گیا۔ واڑی جنگشن کی ہنگامہ آرائیوں سے آنکھ کھل گئی۔ میرے سامنے کی سیٹ پر ایک سفید کنول رکھا ہوا تھا۔۔ سفید ساری سفید بلوز بوجھل پپوٹے، نیلے سمندر کی سی آنکھیں، سمندر کے ساتھ ہی مجھے اپنی کتاب'ساحل اور سمندر' کا خیال آیا، میں نے اوپر دیکھا۔ ابابیل اڑ چکی تھی، سیٹ صاف تھی صرف کیلے کے دو چھلکے پڑے تھے۔ ایک محسن نے فرمایا" کسے دیکھ رہے ہیں آپ! وہ تو دو اسٹیشن پہلے ہی اتر گئے۔"'جی اتر گئے؟ کتاب تک واپس نہیں کی۔ ساڑھے چار روپیہ کی کتاب۔ "لوگ پر خلوص مشورے دینے لگے۔ 'آپ نے دی کیوں تھی' پھر دی تو لی کیوں نہیں؟ غلطی آپ کی ہے' جی ہاں غلطی میری ہے۔ میں بیچ راستے میں گردن مارتا ہوں۔ میں کتاب پڑھنے کی تکنیک سے واقف نہیں۔ میں کمزور ہوں' میرے والدین نے مجھے اخلاق حسنیٰ پڑھائی ہے۔

پڑھنے پڑھانے کی ایک اور تکنیک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی عجلت پسند، بےصبرے صاحب کسی سیکل ہاکر سے اخبار خرید کر وہیں اپنے گھر کے سامنے تہمد باندھے،بنیان پہنے اخبار پڑھ رہے ہوں تو آپ ایک گدھ کی طرح ان کے اطراف منڈلائیں۔ پھر بلا کسی علیک سلیک کے بازو کھڑے ہوجائیے اور اخبار کے نچلے حصے یعنی پہلے صفحہ کو جھک جھک کر دیکھتے جائیے۔ صاحب اخبار آپ کو اس حرکت سے منع نہیں فرمائیں گے بلکہ صرف مسکرادیں گے۔ آپ ان کی اس مسکراہٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود بھی مسکرائیے، قریب ہوجائیے۔ لیجیے ملاقات ہوگئی، پیار ہوگیا۔ اب آپ اخبار کا ایک گوشہ تھوڑا سا اٹھا کر پڑھنے لگ جائیے۔ ممکن ہے ایسا کرنے میں آپ کا سر ان صاحب کی کہنیوں کو چھو جائے۔ وہ یقینا آپ کی سہولت کی خاطراپنی کہنیاں بغلوں تک اٹھادیں گے اس سے آپ کو اخبار کے اندرونی صفحات کی سرخیاں دیکھنے کا شوق چرائے گا۔ ان کی بغل میں سے گردن ڈال دیجیے۔ وہ دیکھیں گے کہ ایک نیا سر ان کے سینے سے اُگ آیا ہے تو وہ بے تحاشہ ہنس کر اخبار آپ کے حوالے کردیں گے۔ اب آپ اطمینان سے پڑھتے جائیے حتیٰ کے صاحب اخبار اکتا کر جمائیاں لینے لگیں گے پھر چہل قدمی فرمائیں گے۔ لیکن آپ کو تو ابھی اشتہارات پڑھنے ہیں اور پھر یہ بھی تو معلوم کرنا ہے کہ اخبار کس مطبع میں شایع ہوتا ہے،پبلیشر و پرنٹر کون ہے،سینما کے پروگرامس کیا ہیں، عدالتوں کے اعلان دیکھنے ہیں۔ ممکن ہے کہیں آپ کے نام بھی کوئی نوٹس یا وارنٹ ہو۔ مجبورا صاحب اخبار آپ کو پنے دیوان خانہ میں لے جاکر اطمینان سے اخبار پڑھنے کی دعوت دیں گے۔ آپ فورا ساتھ ہوجائیے اور ساتھ ہی ایک گلاس پانی کی فرمائش کردیجیے۔ حیدرآبادی لوگ بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں۔ ممکن ہے پانی کے ساتھ چائے اور پان بھی لگ کر آجائے۔ اگر اس اخبار کے کسی کونے میں آپ کے کسی دوست کی غزل چھپی ہے تو آپ اس حصے کو گھر والوں کی نظریں بچا کر جیب میں اتار لیجیے اور فورا گلیوں میں گم ہوجائیے۔

کتاب پڑھنے کی چلتی پھرتی تکنیک یہ بھی ہے کہ آپ کسی بک اسٹال پر کھڑے ہوجائیں۔ پہلے 'السٹریڈ ویکلی' کو تفصیلی طور پر دیکھ ڈالیے۔ شادی کے جوڑوں کو غور سے ملاحظہ فامائیے اچھے برے کا حکم لگائیے۔ خراب صورت پر خوبصورت بلا کہہ کر مسکرائیے، مسکرانا جرم نہیں۔ 'لائف' دیکھیے آتشیں جسموں کی دھیمی دھیمی آنچ سے پھریری لیجیے۔ مگر ہاتھ اٹھا کر نہیں دبی سانس سے Top most secrets پڑھیے 'فلم فیر' دیکھیے۔ فلمی ذوق کو تسکین دیجیے۔ اس عرصہ میں بک اسٹال کا مالک آپ کو گھورنے لگے گا لیکن آپ اس کی جھریوں دار مفلس آنکھوں سے گھبرائیے نہیں۔ ڈرئیے نہیں ! وہ آپ کی خوش لباسی سے مرعوب ہے۔ آپ کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں اس لیے ایک پاؤں اٹھا کر کھڑے ہوجائیے۔ 'شمع' دہلی دیکھیے پھر دوسرا پاؤں اٹھا کر'شنکر ویکلی' ملاحظہ فرمائیے۔ اس اثناء میں بک اسٹال والا اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ کے پاس آجائے گا۔ اس کی صورت اس وقت "شنکر ویکلی" کے کسی ایک مضحکہ خیز کارٹون سے کم نہ ہوگی۔ غصہ سے کانپتا ہوا، آنکھیں باہر نکلی ہوئیں، بال بکھرے ہوئے، گال دھنسے ہوئے، ہونٹ بھینچے ہوئے، سانس تیز تیز چلتی ہوئی۔ آپ گھبرائیے نہیں وہ صرف کانپتی ہوئی آواز میں پوچھے گا 'کیا مانگتا' آپ Dream Land مانگیے۔ پھر جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر ایک آنہ کا Daily News مانگئیے۔ وہ چھٹا نہیں صاحب کہہ کر دکان بند کرنے لگے گا۔ آپ چلتے چلتے کم از کم ٹائمس آف انڈیا کی سرخیاں پڑھتے جائیے۔ دکان بند ہونے کا غم نہ فرمائیے آپ تو ایسی کتنی دکانیں بند کراچکے ہیں۔

آپ کبھی کوئی خوبصورت کتاب لے کر گھر سے باہر نہ نکلیے لیکن آپ اپنی طبیعت سے مجبور ہیں لہذا ایک قدیم کرم فرما جو سیکل پر طوفان کی طرح گزر رہے ہوں گے آپ کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر فورا سیکل سے اتر پڑیں گے 'کیا کوئی نئی کتاب ہے خطیب صاحب' جی ہاں۔ ذرا دیکھ تو لوں۔ اور پھر وہ آپ کو سڑک پر آدھے گھنٹے کی دھوپ میں تپا دیں گے۔ اگر یہ صاحب نہیں ملے تو دوسرے دوست دکان سے اٹھ آئیں گے۔ فرمائیں گے۔ "بڑا شاندار رسالہ معلوم ہورہا ہے ذرا لکھنے والوں کو دیکھ لوں کون ہیں بس ایک نظر تکلیف تو ہوگی۔" ان کی تکیلف کا سلسلہ بھی پندرہ دس منٹ سے کم نہیں ہوگا۔ خواہ آپ دواخانہ جاتے ہوں یا ریلوے یا اسٹیشن یا آفس وہ آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ اتنے میں دوسرے بے تکلف قسم کے دوست کہیں سے نکل پڑیں گے۔ پیچھے سے ایک زور کا کھونسا کمر میں رسید کریں گے پھر فرمائیں گے۔ 'سڑک پر کیا کررہے ہو'۔ یہ دوست بھی وہی عمل دہرائیں گے یعنی کتاب کا از سرنو مطالعہ۔ اگر آپ عجلت کریں تو کہہ دیں گے "ہاں میں جانتا ہوں تم بڑے کام والے ہو۔ شام میں آکر لے جانا' کتاب محفوظ رہے گی۔" اگر آپ نے ان سے کسی طرح اپنی کتاب بچالی تو فورا آپ کے سامنے ایک بڑی خوبصورت بیورک کار آکر رک جائے گی۔

"السلام علیکم خطیب صاحب" آپ وعلیکم السلام کہہ کر موٹرنشین کو دیکھیں گے۔ موٹر نشین جو'جنت نظیر میں رہتے ہیں آپ سے پوچھیں گے۔ "کیا کوئی کتاب ہے؟"
"جی ہاں! عورت کا دل۔"
"عورت کا دل شاید آپ نے دیکھ لیا ہوگا۔"
"جی یوں ہی کہیں کہیں سے کیا ملاحظہ فرمائیں گے۔"
"ہاں۔ مجھے کتابیں دیکھنے کا بڑا شوق ہے کل واپس کردوں گا۔ آپ کتاب دے دیں گے" اور بیورک کار ایک البیلی عورت کی طرح آپ کے سامنے سے لہرا کر نکل جائے گی۔ آپ موٹر کی پشت دیکھتے رہ جائیں گے۔ تو دوستو یہ ہے مفت کتاب پڑھنے کی تکنیک۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
 
Top