جو کتاب خرید کر پڑھی جاتی ہے وہ اپنی نہیں ہوتی پرائی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آپ ہمارا تجربہ اور مشورہ چاہتے ہیں تو ہم آپ سے یہی عرض کریں گے کہ آپ مفت کی کتابیں پڑھیے، جیب پر بار نہ ڈالیے۔ مفت کی کتابیں پڑھنے میں لطف زیادہ آتا ہے اور سہولت بھی کافی ہوتی ہے۔ آپ ان کو اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق استعمال کرسکتے ہیں۔ احتیاط کی ضرورت ہے نہ سر دردی کی۔ آپ ان کتابوں پر پان سپاری رکھ کر کسی مہمان کی خاطر مدارات کرسکتے ہیں۔ سگریٹ کی راکھ جھاڑ سکتے ہیں۔ لوکل کے انتظار میں پلیٹ فارم پر بچھا کر بیٹھ سکتے ہیں۔ بلی دسترخوان پر آجائے تو رول بناکر مار سکتے ہیں، سفر میں سرہانے لے کر سو سکتے یا کم از کم حاشیہ تراش کر کسی چراغ یا قندیل سے سگریٹ ہی جلا سکتے ہیں، اس سے زیادہ آپ کو کیا چاہیے۔ یقین مانیے مفت کی کتاب کی کوئی چیز بے کار نہیں جاتی۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ گرد پوش پھٹ جائے تو چولہا سلگانے کے کام آتا ہے۔ مقوے علیحدہ ہوجائیں تو آپ کے پیارے بچے ان پر مدرسہ کا نظام الاوقات چسپاں کرسکتے ہیں۔ ردی بیوی کو دے دیجیے سگھڑ بیوی اس کو کوٹ پیس کر، میتھی لاکر، ٹوکریاں، چھاج لیپ لے گی یا پھر کسی بنیے کی دکان پر بھیج کر پیسے بنالے گی۔ اب رہا کتاب کی واپسی کا سوال۔ اجی حضرت یہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے جب کوریا، کوریا والوں کو نہیں مل سکا تو پھر کتاب، کتاب والے کو کیسے مل سکتی ہے؟ رہا تقاضا تو اس کو ٹالنے کے لیے اسی عام تکنیک کی ضرورت ہے۔ کہہ دیجیے"گھر پر رہ گئی ہے، بھجوادوں گا" و گھر پر آدمی بھیجا جائے تو جواب دیجیے کہ میرے ایک دوست پڑھ رہے ہیں۔ دوست کا پتا دریافت کریں تو کہہ دیجیے کہ بمبئی گئے ہیں۔ بمبئی سے واپسی پوچھی جائے تو سادگی سے فرمادیجیے"مجھے نہیں معلوم" لیجیے چھٹی ہوگئی۔
اگر آدمی بڑا "چکٹ" قسم کا نکلے تو آپ کو بھی ذرا اپنی تکنیک بدلنی پڑے گی۔ بہت سنجیدہ ہوجانا پڑے گا۔ گردن کو 75 کے زاویہ پر لٹا دیجیے۔ ہونٹ ڈھیلے چھوڑ کر فرمائیے"معاف کرنا بھئی خواہ مخواہ آپ کو تکلیف ہوئی۔ دیکھیے نا! "دنیا کا رنگ ہی بدل گیا ہے" لوگوں کو شرم کیوں نہیں آتی۔ لاکھ سر پٹکے کہ صاحب، کتاب میری نہیں میرے دوست کی ہے صرف دو روز کے لیے مستعار لی ہے مگر وہ جانتے ہی نہیں۔ ایک ہفتے کے وعدے سے اتر کر ایک دن پر آجاتے ہیں۔ ابھی کوئی جواب بھی نہیں دے پاتے کہ وہ 'ہوازاد' سیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔۔۔ ارے بھئی معاف کرنا باتوں میں بھول گیا سگریٹ بھی پیش نہ کرسکا۔" سونے کا سگریٹ کیس کھول کر ویلز یا تھری کیسلس پیش کیجیے یا نہ ہو تو پھر اپنا چارمینار ہی پیش کردیجیے کیونکہ مفت کتاب پڑھنے کی تکنیک 'چارمینار سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ چار مینار کے محاورہ سے 'چار مینار کی قدامت سے، چار مینار کی زینت سے۔ جہاں تک ہوسکے اس قسم کی تقاضا کن مخلوق سے اپنے دامن کو بچا کر چلیے۔ راہ میں نظر آجائے تو کسی قریبی پان کی دکان پر کھڑے ہوجائیے۔ منہ پھیر لیجیے۔ آسمان کی طرف دیکھنے لگ جائیے یا گردن جھکا کر استغراق فرمائیے اس پر بھی اگر وہ 'چمگاڈر 'بن کر دامن پکڑ لے تو مصنوعی مسرت کا اظہار کیجیے۔ ہونٹوں کو گول دائرہ بنا کر فرمائیے۔۔"اوہو۔۔کدھر۔۔؟ اب تو آپ سے برسوں ملاقات نہیں ہوتی۔ آخر کہاں رہتے ہو، بچے وغیرہ تو اچھے ہیں، کہو وہ میری 'ننھی گڑیا' ۔۔ کیسی ہے۔ بھئی بڑی پیاری بچی ہے۔"
یقین مانیے اس انداز اور تکنیک سے 'متقاضی' کا ذہن دوسری طرف منتقل ہوجائے گا۔ آپ اس کو کسی خوبصورت 'کیفے' میں لے جائیے اس پر بھی آدمی سنگِ خارا قسم کا نکلے اور اپنی کتاب کا رونا روئے تو ڈانٹ پلادیجیے۔"ارے یار تم بھی عجیب آدمی ہو، تمہارے پاس تو آدمی کی کوئی قدر نہیں۔ میرے پاس اٹالین بک شیلف میں ایسی سینکڑوں کتابیں پڑی ہیں۔ آؤلے جاؤ تمہیں جو چاہیے۔ ایک معمولی کتاب کی خاطر رو رہے ہو۔ کہو کیا قیمت تھی تمہاری کتاب کی؟" اپنا خوبصورت منی پرس کھول کر اپنی'مفروضہ' دولت کا مظاہرہ کیجیےجو آپ اپنے باس کی طرف سے بنک میں جمع کرنے جارہے ہیں ہوسکے تو 10 کا نوٹ جیب میں ٹھونس دیجیے۔ بخدا یہ لاجواب تکنیک ہے۔ متقاضی محجوب ہوجائے گا۔ بغلیں جھانکنے لگے گا۔ معافی چاہے گا بعض دفعہ تو پیروں میں گرجائے گا۔! بہرحال
"عیب بھی کرنے کا ہنر چاہیے"
اور آج اسی ہنر کو ماڈرن سوسائٹی میں تکنیک کہا جاتا ہے۔ لیکن آپ کو یہ سن کر افسوس ہوگا کہ کتاب پڑھنے کی یہ تکنیک ہندوستان سے زیادہ ماڈرن ممالک میں استعمال نہیں کی جاتی۔ چنانچہ میرے ایک دوست جو ابھی امریکہ سے آئے ہیں کہہ رہے تھے وہ جس گھر میں 'اجرتی مہمان' کی حیثیت سے رہتے تھے وہاں مانگنے کی تکنیک نظر نہیں آئی۔ جس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔ وہ جس گھر میں تھے پانچ اخبار آتے تھے اس پر بھی انہیں اپنا اخبار خرید کر پڑھنا پڑتا تھا۔ یقینا یہ ایک ہندوستانی پر ظلم ہے لیکن
"جور ہے جور کی فریاد نہیں"
تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ جو چیز خرید کر پڑھی جاتی ہے وہ اپنی نہیں ہوتی، پرائی ہوتی ہے۔ میری ہی مثال لیجیے میں نے سلیمان اریب سے "صبا" بطور نمونہ مانگا تھا۔ نمونہ مانگنا تکنیک ہے انہوں نے آٹھ روپے جھڑالیے۔ روپے جھڑا لینا بھی تکنیک ہے۔
جاری۔۔۔
اگر آدمی بڑا "چکٹ" قسم کا نکلے تو آپ کو بھی ذرا اپنی تکنیک بدلنی پڑے گی۔ بہت سنجیدہ ہوجانا پڑے گا۔ گردن کو 75 کے زاویہ پر لٹا دیجیے۔ ہونٹ ڈھیلے چھوڑ کر فرمائیے"معاف کرنا بھئی خواہ مخواہ آپ کو تکلیف ہوئی۔ دیکھیے نا! "دنیا کا رنگ ہی بدل گیا ہے" لوگوں کو شرم کیوں نہیں آتی۔ لاکھ سر پٹکے کہ صاحب، کتاب میری نہیں میرے دوست کی ہے صرف دو روز کے لیے مستعار لی ہے مگر وہ جانتے ہی نہیں۔ ایک ہفتے کے وعدے سے اتر کر ایک دن پر آجاتے ہیں۔ ابھی کوئی جواب بھی نہیں دے پاتے کہ وہ 'ہوازاد' سیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔۔۔ ارے بھئی معاف کرنا باتوں میں بھول گیا سگریٹ بھی پیش نہ کرسکا۔" سونے کا سگریٹ کیس کھول کر ویلز یا تھری کیسلس پیش کیجیے یا نہ ہو تو پھر اپنا چارمینار ہی پیش کردیجیے کیونکہ مفت کتاب پڑھنے کی تکنیک 'چارمینار سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ چار مینار کے محاورہ سے 'چار مینار کی قدامت سے، چار مینار کی زینت سے۔ جہاں تک ہوسکے اس قسم کی تقاضا کن مخلوق سے اپنے دامن کو بچا کر چلیے۔ راہ میں نظر آجائے تو کسی قریبی پان کی دکان پر کھڑے ہوجائیے۔ منہ پھیر لیجیے۔ آسمان کی طرف دیکھنے لگ جائیے یا گردن جھکا کر استغراق فرمائیے اس پر بھی اگر وہ 'چمگاڈر 'بن کر دامن پکڑ لے تو مصنوعی مسرت کا اظہار کیجیے۔ ہونٹوں کو گول دائرہ بنا کر فرمائیے۔۔"اوہو۔۔کدھر۔۔؟ اب تو آپ سے برسوں ملاقات نہیں ہوتی۔ آخر کہاں رہتے ہو، بچے وغیرہ تو اچھے ہیں، کہو وہ میری 'ننھی گڑیا' ۔۔ کیسی ہے۔ بھئی بڑی پیاری بچی ہے۔"
یقین مانیے اس انداز اور تکنیک سے 'متقاضی' کا ذہن دوسری طرف منتقل ہوجائے گا۔ آپ اس کو کسی خوبصورت 'کیفے' میں لے جائیے اس پر بھی آدمی سنگِ خارا قسم کا نکلے اور اپنی کتاب کا رونا روئے تو ڈانٹ پلادیجیے۔"ارے یار تم بھی عجیب آدمی ہو، تمہارے پاس تو آدمی کی کوئی قدر نہیں۔ میرے پاس اٹالین بک شیلف میں ایسی سینکڑوں کتابیں پڑی ہیں۔ آؤلے جاؤ تمہیں جو چاہیے۔ ایک معمولی کتاب کی خاطر رو رہے ہو۔ کہو کیا قیمت تھی تمہاری کتاب کی؟" اپنا خوبصورت منی پرس کھول کر اپنی'مفروضہ' دولت کا مظاہرہ کیجیےجو آپ اپنے باس کی طرف سے بنک میں جمع کرنے جارہے ہیں ہوسکے تو 10 کا نوٹ جیب میں ٹھونس دیجیے۔ بخدا یہ لاجواب تکنیک ہے۔ متقاضی محجوب ہوجائے گا۔ بغلیں جھانکنے لگے گا۔ معافی چاہے گا بعض دفعہ تو پیروں میں گرجائے گا۔! بہرحال
"عیب بھی کرنے کا ہنر چاہیے"
اور آج اسی ہنر کو ماڈرن سوسائٹی میں تکنیک کہا جاتا ہے۔ لیکن آپ کو یہ سن کر افسوس ہوگا کہ کتاب پڑھنے کی یہ تکنیک ہندوستان سے زیادہ ماڈرن ممالک میں استعمال نہیں کی جاتی۔ چنانچہ میرے ایک دوست جو ابھی امریکہ سے آئے ہیں کہہ رہے تھے وہ جس گھر میں 'اجرتی مہمان' کی حیثیت سے رہتے تھے وہاں مانگنے کی تکنیک نظر نہیں آئی۔ جس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔ وہ جس گھر میں تھے پانچ اخبار آتے تھے اس پر بھی انہیں اپنا اخبار خرید کر پڑھنا پڑتا تھا۔ یقینا یہ ایک ہندوستانی پر ظلم ہے لیکن
"جور ہے جور کی فریاد نہیں"
تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ جو چیز خرید کر پڑھی جاتی ہے وہ اپنی نہیں ہوتی، پرائی ہوتی ہے۔ میری ہی مثال لیجیے میں نے سلیمان اریب سے "صبا" بطور نمونہ مانگا تھا۔ نمونہ مانگنا تکنیک ہے انہوں نے آٹھ روپے جھڑالیے۔ روپے جھڑا لینا بھی تکنیک ہے۔
جاری۔۔۔
آخری تدوین: