کتاب جا ں ۔۔۔ ثمینہ راجہ

شہزیب

محفلین
دل میں چھُپی ہوئی تھی جو زینت بام ہوگئی
آنکھ اُٹھی تو ساری بات برسرِ عام ہوگئی
ایک رفیق تھا سودل، اب ترا دوست ہوگیا
جو بھی متاعِ خواب تھی سب ترے نام ہوگئی
دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصف نہار پر کبھی
عرصۂ زندگی میں بس صبح سے شام ہوگئی
شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہمرکاب
پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محوِ خرام ہوگئی
خواہشِ ناتمام کو پیشِ زمانہ جب کِیا
رَم ہی کبھی کِیا نہ تھا اِس طرح رام ہوگئی
کیسی اُڑان کی ہمیں تجھ سے اُمید تھی مگر
زندگی! تو بھی طالبِ دانہ و دام ہوگئی
کُلفتِ جاں سے ایک ہی ساعتِ خوش بچائی تھی
اور وہ نذرِ گردشِ ساغر و جام ہوگئی
میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جُھکا تھا جب فلک
حد سے بڑھی تو خامشی خود ہی کلام ہوگئی
شہر میں اُن کے نام کے چند چراغ جل اُٹھے
راہروانِ شوق کو دشت میں شام ہوگئی
 
Top