ش

کوائف نامے کے مراسلے حالیہ سرگرمی مراسلے تعارف

  • شام کو ہو کے بیقرار یاد نہیں کیا تجھے
    کب یہ ہُوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے
    خواب سجا کے جی لیے دل سے لگا کے جی لیے
    رشتۂ دردِ اُستوار، یاد نہیں کِیا تجھے
    دانش خاص ہم نہیں یوں تو جنوں میں کم نہیں
    دل پہ ہے اتنا اختیار ، یاد نہیں کِیا تجھے
    فصلِ بہار پھر خزاں، رنگِ بہار پھر خزاں
    آئی ہے پھر سے اب بہار، یاد نہیں کِیا تجھے
    اشک جو ختم ہوگئے، خود سے لپٹ کے سو گئے
    کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے
    کتنی کہانیاں کہیں کتنے فسانے بُن لیے
    بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے
    سخت اُداس تھا نگر سہمے ہوئے تھے بام و در
    دُور تھے سارے راز دار یاد نہیں کِیا تجھے
    ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا
    بجھ گئی چشمِ سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے
    ڈھونڈ لیا ترا بدل، کہتے ہی کہتے اک غزل
    سوئے ہیں اہلِ انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے
    جس انگلی کی شہادت جھوٹی
    کس کے چہرے پر اپنی آنکھیں ڈھونڈو گے
    سب چہرے اک جیسے ہیں
    کس کے غم کے پاتالوں میں زینہ زینہ اترو گے
    اور خوابوں کی توہین کرو گے
    سچ کی خاک اُڑاؤ گے
    مہتاب تمہارا۔۔۔۔۔۔کیمیا گر کی قید میں ہے اور شب کالی
    مہتاب کنویں سے اُس انگلی کے اشارے پرنکلے گا
    جس انگلی کی شہادت جھوٹی ہے
    کس کی آنکھوں میں اپنا چہرہ دیکھو گے؟
    سب آنکھیں بالکل اندھی ہیں
    جب آنکھیں ڈھونڈنے۔۔چہرے کھوجنے جاؤ گے
    پچھتاؤ گے
    مہتاب تمہارا۔۔۔۔۔کیمیاگر کی قید میں ہے
    اور شب کالی ہے!
    خود کو کھو بیٹھے ہیں ہم تو
    خود کو کھو بیٹھے ہیں ہم تو
    شہر کے رونق میلے میں
    دل کہتا ہے، چل کے بیٹھیں
    اپنے ساتھ اکیلے میں
    اپنے ساتھ اکیلے میں
    بیٹھیں تو دل کی بات کریں
    شہر کے سارے ہنگاموں سے
    اِن لوگوں، اِن دیوانوں سے
    دل کہتا ہے، دُور رہیں
    اپنے خواب کی پہنائی سے
    گزریں تو اک نظم لکھیں
    اپنے دل کی تنہائی میں
    بیٹھیں تو پھر شعر کہیں
    شاید کہ موجِ عشق، جنوں خیز ہے ابھی
    دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی
    ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
    اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی
    پھر آب سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
    گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی
    اک نونہال خواب ہے دنیا کی زد پرآج
    اِس غم کی خیر ہو کہ یہ نوخیز ہے ابھی
    سب ذرّہ ہائے نیلم و الماس، گردِ راہ
    میرے لیے وہ چشم گہر ریز ہے ابھی
    کیا جا نئے رہے گا کہاں تک یہ دل اسیر
    کیا کیجیے وہ شکل ولآویز ہے ابھی
    دیکھا نہیں ہے کوئی بھی منظر نظر کے پاس
    رہوارِ عمر، طالبِ مہمیز ہے ابھی
    دل میں چھُپی ہوئی تھی جو زینت بام ہوگئی
    آنکھ اُٹھی تو ساری بات برسرِ عام ہوگئی
    ایک رفیق تھا سودل، اب ترا دوست ہوگیا
    جو بھی متاعِ خواب تھی سب ترے نام ہوگئی
    دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصف نہار پر کبھی
    عرصۂ زندگی میں بس صبح سے شام ہوگئی
    شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہمرکاب
    پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محوِ خرام ہوگئی
    خواہشِ ناتمام کو پیشِ زمانہ جب کِیا
    رَم ہی کبھی کِیا نہ تھا اِس طرح رام ہوگئی
    کیسی اُڑان کی ہمیں تجھ سے اُمید تھی مگر
    زندگی! تو بھی طالبِ دانہ و دام ہوگئی
    کُلفتِ جاں سے ایک ہی ساعتِ خوش بچائی تھی
    اور وہ نذرِ گردشِ ساغر و جام ہوگئی
    میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جُھکا تھا جب فلک
    حد سے بڑھی تو خامشی خود ہی کلام ہوگئی
    شہر میں اُن کے نام کے چند چراغ جل اُٹھے
    راہروانِ شوق کو دشت میں شام ہوگئی
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
Top