شام کو ہو کے بیقرار یاد نہیں کیا تجھے
کب یہ ہُوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے
خواب سجا کے جی لیے دل سے لگا کے جی لیے
رشتۂ دردِ اُستوار، یاد نہیں کِیا تجھے
دانش خاص ہم نہیں یوں تو جنوں میں کم نہیں
دل پہ ہے اتنا اختیار ، یاد نہیں کِیا تجھے
فصلِ بہار پھر خزاں، رنگِ بہار پھر خزاں
آئی ہے پھر سے اب بہار، یاد نہیں کِیا تجھے
اشک جو ختم ہوگئے، خود سے لپٹ کے سو گئے
کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے
کتنی کہانیاں کہیں کتنے فسانے بُن لیے
بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے
سخت اُداس تھا نگر سہمے ہوئے تھے بام و در
دُور تھے سارے راز دار یاد نہیں کِیا تجھے
ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا
بجھ گئی چشمِ سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے
ڈھونڈ لیا ترا بدل، کہتے ہی کہتے اک غزل
سوئے ہیں اہلِ انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے
کب یہ ہُوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے
خواب سجا کے جی لیے دل سے لگا کے جی لیے
رشتۂ دردِ اُستوار، یاد نہیں کِیا تجھے
دانش خاص ہم نہیں یوں تو جنوں میں کم نہیں
دل پہ ہے اتنا اختیار ، یاد نہیں کِیا تجھے
فصلِ بہار پھر خزاں، رنگِ بہار پھر خزاں
آئی ہے پھر سے اب بہار، یاد نہیں کِیا تجھے
اشک جو ختم ہوگئے، خود سے لپٹ کے سو گئے
کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے
کتنی کہانیاں کہیں کتنے فسانے بُن لیے
بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے
سخت اُداس تھا نگر سہمے ہوئے تھے بام و در
دُور تھے سارے راز دار یاد نہیں کِیا تجھے
ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا
بجھ گئی چشمِ سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے
ڈھونڈ لیا ترا بدل، کہتے ہی کہتے اک غزل
سوئے ہیں اہلِ انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے