کب کسی قیل و قال میں گم ہوں

غزل
کاشف اکرم وارثی
کب کسی قیل و قال میں گم ہوں​
کب کسی کے خیال میں گم ہوں​
میں پری چہرہ کا نہیں شیدا​
کب میں حسن و جمال میں گم ہوں​
جب سے دیکھا ہے ان کی آنکھوں کو
میں خدا کے کمال میں گم ہوں
ایک لمحے کی تھی تجلی مگر
جلوہء لازوال میں گم ہوں
حسن ہے تجھ میں یا کہ تجھ سے ہے
میں اسی اک سوال میں گم ہوں
کوئی جسکی نہیں نظیر کہیں
جلوہء بے مثال میں گم ہوں
یہ نہیں ہے شراب کا نشّہ
میکدے کے خیال میں گم ہوں
ایک لمحہ جو تیرے قرب کا تھا
اسی لمحہء وصال میں گم ہوں
وارثی وجاہت










 

الف عین

لائبریرین
اب نکل آئیں گم شدگی سے!!!
اچھی غزل ہے، ایک جگہ ٹائپو ہے شاید، ’میں‘ کا اضافہ۔ اور یہاں بحر ذرا دیکھ لیں
اسی لمحہء وصال میں گم ہوں
 
خوبصورت غزل ہے کاشف بھائی۔ داد قبول کیجیے۔
ایک دو جگہ ٹائیپو تھیں، جن کی تدوین کردی ہے۔ بقول استادِ محترم آخری مصرع پر نظرِ ثانی کیجیے۔
 
Top