کب عقل آئے گی!

یوسف سلطان

محفلین
میں اس کتے سے بھی تیز بھاگ رہا تھا جو چند قدم کے فاصلے پر میرے پیچھے آ رہا تھا۔ وہ بھی میری طرح کمزوری کا شکار تھا جو غالباََ بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا شاخسانہ تھا ۔ ہم دونوں میں فرق صرف یہ تھا کہ وہ سانس پرقابو پا کر وقفے وقفے سے بھونک رہا تھا اور میں مکمل خاموش تھا۔
کہیں آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ میں اورکتا کسی ڈور میں شریک تھےبلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ صبح سویرے میری زوجہ محترمہ کی والدہ محترمہ یعنی میری خوش دامن جیسے دیکھ کر دامن خوشی سے خالی ہوجاتا ہے ہمارے غریب خانے پر جلوہ افروز ہوئیں تو میری بیگم صاحبہ کا حکم صادر ہوا کہ چونکہ ان کا قیام کچھ طویل ہوگا لہٰذا ابتدائی دن تومہمانوں جیسا سلوک ہونا چاہیے مہینہ ڈیڑھ بعد پھران سے گھروالوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔
اس لئے ہم پر ہر صبح ایک عدد "شیور"مرغی کی قربانی فرض ہو گئی۔ بازار ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا مختلف گلیوں سے گزرکربازارتک پہنچا تھا۔ لہذا بازار سے مرغی، گھی، چاول خرید کر جب واپسی ہوئی توگلی میں سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک کوئل کی کوک سنائی دی ہم حیران ہوئے کے مالٹوں اورکنوؤں کے موسم میں یہ کوئل کہا سے کوک پڑی جب ہم نے مردانہ عادت سے مجبور ہو کرآوازکی سمت اونٹ کی طرح گردن اٹھا کر دیکھا تو وہاں لوہے کی ریلینگ سے چپکی ہوئی ایک قبول صورت نہایت چست لباس میں بال بکھرائے فضا میں گھٹا بنے ایک مست سی حسینہ ایک ریڑھی والے سے ٹینڈوں اور ٹماٹروں کا بھاؤ پوچھ رہی تھی۔ اس کے قاتل سراپے پر نظر پڑھتے ہی ہمارے دل پر سے ایک خیال رکشے کی طرح دھواں اگلتا اور شور مچاتا گزرگیا اے کاش ہماری بیگم بھی اس کی طرح سمارٹ اورخوبصورت ہوتی مگر شومئی قسمت کے صحت کے معاملے میں جتنا ہمارا ہاتھ تنگ ہے وہ اتنی ہی خود کفیل ہیں جتنی اونچائی ہے اتنی ہی گولائی ہے اور ہمارا جوڑ کچھ اس طرح سے ہے جیسے سبزی کی دکان پرتربوز کے ساتھ کھیرے پڑے ہوں۔
میں انہی خیالوں میں گم حسرت بھری نگاہوں سے اس قیامت کو دیکھ رہا تھا کہ گلی کے درمیان ایک سوئے ہوئے کتے کی دُم پر پاؤں جا پڑا۔ وہ ایک زور کی ٹاوں کے ساتھ الیکشن کے دنوں میں کسی لیڈرکی طرح سویا ہوا جاگ پڑا اور ایک جمائی لے کر مجھے خونخوار نظروں سے دیکھا جن کی تاب نہ لا کر میں اچھالا اورہاتھ میں پکڑے ہوئے بھاری بیگوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ کرسرپٹ بھاگا۔ اس نامراد کتے کے بچے نے ایک جمپ لیا اور میری شلوار کا پائنچہ منہ میں لے کر جوکھینچا تو گز بھر کپڑا اس کے منہ میں تھا۔ ابھی غنیمت کے ازار بند کی جگہ الاسٹک نہ تھا ورنہ کتے کے ساتھ ہاتھوں میں پتھر لئے گلی کے بچے بھی پیچھے ہوتے اورہماری عزت گلی کی گندی نالی میں بہہ جاتی۔ متاثرہ شلوار جھنڈا بنی ہوئی تھی میں ڈررہا تھا کہ بیگم ہمیشہ ہماری شلوارمیں پرانے ازار بند ڈال دیتی ہے اگر ایک اورجھٹکا لگ گیا توپھر ہماری عزت بھی ملک کے خزانے کی طرح لٹ جائے گی اور لوٹنے والے لیڈروں کی طرح اس کتے کو کس نے پوچھنا ہے۔
اتنے میں سامنے اپنا مکان نظرآگیا جس کا گیٹ بھی کھولا رہ گیا تھا ہم نے "یاہو" کا نعرہ لگایا ایک لانگ جمپ مارا اور گیٹ کے اندر۔۔۔۔ اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ گیٹ بند کر دیا اور بیٹھ کر لگے ہانپنے۔۔۔ کہ عقب سے بیگم کی غصے بھری آواز آئی ۔
"عجیب حرکات ہیں تمہاری بھی۔۔۔۔ اتنے بیگ اٹھا کر بچوں کی طرح دوڑتے گلی میں سے آ رہے تھے اتنی عمر ہونے کو آئی مگر سنجیدگی قریب نہیں پھٹکی ہر وقت نجانے کیوں مچلتے رہتے ہو ۔۔۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ یہ شلوار کیسے پھاڑ ڈالی؟۔۔۔۔ ہزار بار کہا ہے کپڑوں کی حفاظت کیا کرو اللہ جانے کن جھاڑیوں سے الجھتے پھرتے ہو۔۔۔۔ نہ جانے کب عقل آئے گی تمہیں۔۔"
اور میں بیٹھا سوچتا رہا۔۔۔۔۔۔ کب عقل آئے گی مجھے۔۔۔۔۔!

کتاب: دھنک کے رنگ
تحریر : امجد مرزا امجد
 
آخری تدوین:
Top