حبیب جالب کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

نظام الدین

محفلین
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات، بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پرنور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
ہر صبح میری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات میری رات پہ بنستے رہے تارے
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
(حبیب جالب)​
 
Top