اختر شیرانی کبھی کاش رحم کا بھی اثر ملے چشمِ فتنہ نگاہ میں ۔ اختر شیرانی

کبھی کاش رحم کا بھی اثر سے،چشمہ فتنہ گاہ میں
کہ کوئی گدا ھے پڑا ھوا ترے درد عشق کی راہ میں

نہیں عذر ، زاہدو ، لاکھ مرتبہ جائیں طواف حرم کو ھم
مگر ایک شرط ھے ، میکدہ نہ ملا کرے ھمیں راہ میں

نہیں یاد عیش وملال عمر گزشتہ کی کوئی داستاں
مگر آہ وہ چند وہ ساعتیں جو بسر ھوئیں ھیں گناہ میں

جو مزاج دل ، نہ بدل سکا تو مذاق دہر کا کیا گلہ
وھی تلخیاں ھیں ثواب میں وھی لذتیں ھیں گناہ میں

مجھے انقلاب زمانہ کا یقین آئے تو کس طرح
وھی درد ھے مری آہ میں وھی ناز تری نگاہ میں

بخدا دونوں جہانوں میں کوئی اس سے بڑھ کے خوشی نہ تھی
اگر ایک تلخی انفعال کی حس نہ ھوتی گناہ میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
کبھی کاش رحم کا بھی اثر ملے چشمِ فتنہ نگاہ میں
کہ کوئی گدا ہے پڑا ہوا ترے دردِ عشق کی راہ میں

نہیں عُذر ، زاہدو لاکھ مرتبہ جائیں طوفِ حرم کو ہم
مگر ایک شرط ہے میکدہ نہ ملا کرے ہمیں راہ میں

نہیں یاد عیش و ملال١ عُمرِ گُزشتہ کی کوئی داستاں
مگر آہ چند وہ ساعتیں جو بسر ہوئی ہیں گُناہ میں

جو مزاج ِ دل نہ بدل سکا تو مذاقِ دہر کا کیا گِلہ
وہی تلخیاں ہیں ثواب میں ،وہی لذّتیں ہیں گُناہ میں


گِلہء ستم کی مجال تو ہے پر آہ اِس کو میں کیا کروں
یہ جوایک بجلی سی بےقرار ہے اُن کی نیچی نگاہ میں

مجھے انقلابِ زمانہ کا، جو یقین آئے تو کس طرح
وہی درد ہے مری آہ میں ، وہی ناز تیری نگاہ میں

بخُدا کہ دونوں جہان میں کوئی اس سے بڑھ کےخوشی نہ تھی
اگر ایک تلخیء انفعال کی حِس نہ ہوتی گناہ میں


(اختر شیرانی)
 
Top