کبھی تھے فاصلے، اب تو فقط کم ہوتے جاتے ہیں۔برائے اصلاح

نمرہ

محفلین
ایک اور غزل جسے اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہاں ایک جگہ میں نے اقبال کا ایک مصرعہ جوڑنے کی کوشش کی ہے، اگر جوڑ صحیح نہیں بیٹھا تو فورآ سے پیشتر اسے واپس لینے پر تیار ہوں۔

کبھی تھے فاصلے، اب تو فقط کم ہوتے جاتے ہیں
کہ دانش اور جنوں آپس میں مدغم ہوتے جاتے ہیں

دلِ بےتاب سہ سکتا نہیں ازبسکہ خاموشی
نوائے عشق سے وہ اور برہم ہوتے جاتے ہیں

یہ کس آزار نے تنہا کیا ہے ساری دنیا میں
یہ اکھڑے اکھڑے سے کیوں اپنے ہمدم ہوتے جاتے ہیں

نہیں حاجت ادا کرنے کی حرفِ آرزو لب سے
ہمارے اشک خود ہی قصۂ غم ہوتے جاتے ہیں

خبر تو لے ارے ظالم پلٹ کر اپنے کشتوں کی
سنا ہے تیرے بسمل دم سے بے دم ہوتے جاتے ہیں

اڑاتے ہیں ہنسی میں داستاں وہ ہم فقیروں کی
مگر آنکھوں کے آئینے ذرا نم ہوتے جاتے ہیں

سمیٹے بیٹھے ہیں ہم کارِ دنیا کیا سبھی اب کے
جو محوِ فکرِ انجامِ دو عالم ہوتے جاتے ہیں؟

وہ سیارہ کہ جس کو آسماں پر دیکھ ڈرتے تھے
وہاں بھی ثبت نقشِ دستِ آدم ہوتے جاتے ہیں

بدلتے رہتے ہیں دل کے صنم خانے میں بت پیہم
' تراشیدم، پرستیدم، شکستم ' ہوتے جاتے ہیں

تماشا ہے کہ جوں جوں اپنی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں
جہانِ رنگ و بو کے رنگ مدھم ہوتے جاتے ہیں

شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جس دن سے
خود اپنی دسترس میں کم سے کم ہم ہوتے جاتے ہیں​
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تو مکمل درست ہے غزل، لیکن جیسا میں اکثر کہتا ہوں کہ بہتری کے امکانات تو غالب کے کلام میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بطور خاص جب وہ ’اساتذہ‘ کے ‘حلقۂ اصلاح‘ میں داخل ہو جائے!!
کبھی تھے فاصلے، اب تو فقط کم ہوتے جاتے ہیں
کہ دانش اور جنوں آپس میں مدغم ہوتے جاتے ہیں
÷÷اس میں مجھے ’فقط‘ لفظ غلط محسوس ہوا۔ اس کے علاوہ جنوں کے مقابلے میں خرد لفظ استعمال ہوتا ہے۔ خرد اور دانش میں باریک سا فرق ہے۔ بہر حال یہ چل بھی سکتا ہے۔ لیکن پہلا مصرع بدل دو۔ مثلاً
کبھی تھے فاصلے، اب وہ بھی کم کم ہوتے جاتے ہیں

یہ کس آزار نے تنہا کیا ہے ساری دنیا میں
یہ اکھڑے اکھڑے سے کیوں اپنے ہمدم ہوتے جاتے ہیں
÷÷پہلا مصرع سوال اٹھاتا ہے، کس کو تنہا کیا ہے، ہم کو یا اکھڑے اکھڑے لوگوں کو؟ یہ واضح نہیں۔

اڑاتے ہیں ہنسی میں داستاں وہ ہم فقیروں کی
مگر آنکھوں کے آئینے ذرا نم ہوتے جاتے ہیں
بہت خوب، کم از کم دوسرا مصرع، لیکن پہلے مصرع میں فقیر سے بہتر کچھ اور لفظ ہوتا تو شعر کی تاثیر بڑھ جاتی۔ ’ہم غم کے ماروں کی‘ ایک متبادل ہو سکتا ہے، لیکن یہ بھی مجھے پسند نہیں آیا۔

وہ سیارہ کہ جس کو آسماں پر دیکھ ڈرتے تھے
وہاں بھی ثبت نقشِ دستِ آدم ہوتے جاتے ہیں
÷÷نقشِ دستِ آدم۔۔۔ واحد کا صیغہ ہے، اس لئے ہوتے جاتے ہیں ردیف کچھ غلط ہو جاتی ہے، لیکن یہ چل بھی سکتا ہے۔ البتہ پہلے مصرع میں ’دیکھ کر ڈرتے‘ اگر آ سکے تو بات واضح ہو جائے۔جیسے
وہ سیارہ فلک پر دیکھ کر بھی جس کو ڈرتے تھے

شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جس دن سے
خود اپنی دسترس میں کم سے کم ہم ہوتے جاتے ہیں
یہاں ’کم سے کم" کا استعمال غلط ہے۔ (درست استعمال۔۔۔کم سے کم یہ تو ہوتا)۔ یہاں محض کہا جا رہا ہے کہ ہم اپنی دسترس میں بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس مفہوم کے حساب سے الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے۔ جیسے
شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جب سے ہم
خود اپنی دسترس میں آپ کم کم ہوتے جاتے ہیں
اس کے علاوہ دوسرے اشعار اچھے ہیں۔ شکستم والا شعر تو بہت پسند آیا۔ علامہ کی روح بھی خوش ہوئی ہو گی
 

نمرہ

محفلین
ویسے تو مکمل درست ہے غزل، لیکن جیسا میں اکثر کہتا ہوں کہ بہتری کے امکانات تو غالب کے کلام میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بطور خاص جب وہ ’اساتذہ‘ کے ‘حلقۂ اصلاح‘ میں داخل ہو جائے!!
کبھی تھے فاصلے، اب تو فقط کم ہوتے جاتے ہیں
کہ دانش اور جنوں آپس میں مدغم ہوتے جاتے ہیں
÷÷اس میں مجھے ’فقط‘ لفظ غلط محسوس ہوا۔ اس کے علاوہ جنوں کے مقابلے میں خرد لفظ استعمال ہوتا ہے۔ خرد اور دانش میں باریک سا فرق ہے۔ بہر حال یہ چل بھی سکتا ہے۔ لیکن پہلا مصرع بدل دو۔ مثلاً
کبھی تھے فاصلے، اب وہ بھی کم کم ہوتے جاتے ہیں

یہ کس آزار نے تنہا کیا ہے ساری دنیا میں
یہ اکھڑے اکھڑے سے کیوں اپنے ہمدم ہوتے جاتے ہیں
÷÷پہلا مصرع سوال اٹھاتا ہے، کس کو تنہا کیا ہے، ہم کو یا اکھڑے اکھڑے لوگوں کو؟ یہ واضح نہیں۔

اڑاتے ہیں ہنسی میں داستاں وہ ہم فقیروں کی
مگر آنکھوں کے آئینے ذرا نم ہوتے جاتے ہیں
بہت خوب، کم از کم دوسرا مصرع، لیکن پہلے مصرع میں فقیر سے بہتر کچھ اور لفظ ہوتا تو شعر کی تاثیر بڑھ جاتی۔ ’ہم غم کے ماروں کی‘ ایک متبادل ہو سکتا ہے، لیکن یہ بھی مجھے پسند نہیں آیا۔

وہ سیارہ کہ جس کو آسماں پر دیکھ ڈرتے تھے
وہاں بھی ثبت نقشِ دستِ آدم ہوتے جاتے ہیں
÷÷نقشِ دستِ آدم۔۔۔ واحد کا صیغہ ہے، اس لئے ہوتے جاتے ہیں ردیف کچھ غلط ہو جاتی ہے، لیکن یہ چل بھی سکتا ہے۔ البتہ پہلے مصرع میں ’دیکھ کر ڈرتے‘ اگر آ سکے تو بات واضح ہو جائے۔جیسے
وہ سیارہ فلک پر دیکھ کر بھی جس کو ڈرتے تھے

شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جس دن سے
خود اپنی دسترس میں کم سے کم ہم ہوتے جاتے ہیں
یہاں ’کم سے کم" کا استعمال غلط ہے۔ (درست استعمال۔۔۔ کم سے کم یہ تو ہوتا)۔ یہاں محض کہا جا رہا ہے کہ ہم اپنی دسترس میں بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس مفہوم کے حساب سے الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے۔ جیسے
شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جب سے ہم
خود اپنی دسترس میں آپ کم کم ہوتے جاتے ہیں
اس کے علاوہ دوسرے اشعار اچھے ہیں۔ شکستم والا شعر تو بہت پسند آیا۔ علامہ کی روح بھی خوش ہوئی ہو گی
آپ کو شعر پسند آیا استادِ محترم، یعنی میں اتنا بھی 'ہوپ لیس کیس' نہیں! اس طرح دیکھیے:
کبھی جو فاصلے تھے، اب وہ کم کم ہوتے جاتے ہیں
خرد مندی، جنوں آپس میں مدغم ہوتے جاتے ہیں
یہ کس آزار نے تنہا کیا ہے ہم کو دنیا میں
یہ اکھڑے اکھڑے سے کیوں سارے ہمدم ہوتے جاتے ہیں
اڑاتے ہیں ہنسی میں داستاں وہ دل کے ماروں کی
مگر آنکھوں کے آئینے ذرا نم ہوتے جاتے ہیں
وہ سیارہ فلک پر دیکھ کر بھی جس کو ڈرتے تھے
وہاں کندہ نقوشِ دستِ آدم ہوتے جاتے ہیں
مزید آپ کے تجویز کردہ یہ مصرعے ایسے ہی شامل کر لیے ہیں:
شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جب سے ہم
خود اپنی دسترس میں آپ کم کم ہوتے جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
نمرہ تم کو تو ہوپ لیس کیس کبھی نہیں سمجھا۔ تمہارے اشعار کی اصلاح کر کے خوشی ہی محسوس کرتا ہوں۔
اب غزل بہت بہتر ہے یقیناً
 

غدیر زھرا

لائبریرین
سمیٹے بیٹھے ہیں ہم کارِ دنیا کیا سبھی اب کے
جو محوِ فکرِ انجامِ دو عالم ہوتے جاتے ہیں؟

بہت خوب --
ڈھیروں داد وصولیے بہنا :)
 
Top