کاوشات۔۔۔۔۔ اصلاح و تبصرہ ۔۔۔۔۔درخواست گزار عابی مکھنوی

بسم الله الرحمن الرحيم

السلام علیکم!

جملہ اراکینِ محفل سے استدعا ہے کہ مجھے باقاعدہ شاعر کے طور پر نہ لیا جائے۔شاعری کے ناز نخرے صاحبان فن ہی اُٹھا سکتے ہیں ۔یہاں حاضری کا مقصد اُولیٰ اصلاح ِکلام و اِدراک ِفن کے سِوا کچھ نہیں۔تمام احباب سے گزارش ہے کہ حسبِ توفیق مرمت فرمائیں۔:)

ایک نظم پیشِ خدمت ہے

۔۔۔۔ اماں جانی ۔۔۔۔

نہ جانے کتنے برسوں سے
کَسا ہوں میں شکنجے میں
مہینے دھوپ چھاؤں سے
کبھی یہ چار ہفتوں کے
کبھی کچھ چار سے اوپر

شروع کے دو جو ہفتے ہیں
بہت رنگین ہوتے ہیں
نوابی سے فقیری کا
زمانہ ہر مہینے میں
ہمیشہ ساتھ چلتا ہے

دعائیں ماں کی ہوتی ہیں
پسینہ میں بہاتا ہوں
خدا بھی مسکرا کے پھر
مرے حصے کے دانوں کو
مجھے عزت سے دیتا ہے

یہ قصہ ہے مہینے کے
تڑپتے چوتھے ہفتے کا
مری ماں نے محبت سے
سجایا ناشتہ اک دن
میں اپنی جیب میں باقی
بچے پیسوں کو گننے میں
لگا تھا کہ کہا ماں نے
ارے بیٹا مجھے جاتے
ہوئے تم سو روپے دینا

مرے اندر تو لاوا تھا
کہ ہفتہ آخری تھا یہ
تھے جیبوں میں فقط سِکے
بھڑک کر میں یوں بولا ماں
نہ جانے کتنے برسوں سے
ہمیشہ چوتھے ہفتے ہی
مجھے تو کیوں ستاتی ہے
کہ پہلے دونوں ہفتوں میں
بچت کا فلسفہ تیری
زباں پر راج کرتا ہے
کبھی پیسے نہیں مانگے
ہمیشہ آخری ہفتے
تجھے سب یاد آتا ہے

مرے رب ماں کا سایہ تُو
سبھی کے سر پہ رکھ قائم

مرے لہجے کی تلخی کو
پیا اس نے محبت سے
عجب مسکان چہرے پہ
عجب سا پیار آنکھوں میں
سجائے نکلی کمرے سے
ذرا سی دیر میں لوٹی
تو ہاتھوں میں تھی اک تھیلی

مرے بچے یہ تیرے ہیں
تری میلی قمیصوں سے
جو سِکے مجھ کو ملتے تھے
وہ اس میں ہیں
ہمیشہ چوتھے ہفتے میں
جو سو کا نوٹ لیتی تھی
وہ اس میں ہے
کہ پچھلے بارہ سالوں میں
تری محنت پسینے کے
جو قطرے میں نے جوڑے ہیں
وہ سوکھے تو نہیں بیٹا
یہ پندرہ ہیں یا سولہ ہیں
مگر ہیں یہ ہزاروں میں
ذرا سا مسکرا دے نا
کہ مجھ سے چوتھے ہفتے میں
ترے چہرے کی ویرانی
کبھی دیکھی نہیں جاتی
ذرا سا مسکرا دے نا
مری جاں مسکرا دے نا

۔۔۔۔عابی مکھنوی۔۔۔۔۔
 
اچھی شراکت ہے، آزاد نظم ہونے کے اعتبار سے کچھ مقامات پر کمزوریاں ہیں۔ جیسے غیر اصلی الفاظ کا تواتر کے ساتھ استعمال، اور کئی جگہ مدعا کا چست نہ ہونا۔ آزاد نظم لکھتے ہوئے جہاں قافیہ اور ردیف کی آزادی میسر ہے وہاں یہ پابندی ضرور ہے کہ اس آزادی میں جو بات کہی جائے اس میں کوئی مگھم پہلو نہ رہے یا ضعف بیان کا سامنا نہ ہو۔
یوں تو ہم آپ کے مداحوں کی صف میں ہیں، لیکن گو کہ تنقید ہمارا پیشہ ہے، اسی کی خانہ پری کی گئی ہے اس مراسلے میں، و الا نظم خوب ہے! :)
 
جناب مہدی صاحب حاضری کا اولین مقصد ہی اَدراکَ فن ہے ۔بہت خوشی ہوئی آپ نے نشاندہی فرمائی۔ایک آدھ مثال اگر غیراصلی الفاظ اور مبہم پہلو یا ضعفِ مضمون کے حؤالے سے مِل جاتی تو نفع ہوتا۔فرصت کے کسی لمحے میں مزید شفقت فرما دیں تو مزید ممنون ہوں گا :)
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں اس کو ہر مصرع ہم وزن رکھنے کی بجائے آزادی دی جائے، آزاد نظم میں ارکان کی کمی بیشی ست روانی آ جاتی ہے۔ مثلآ
میں اپنی جیب میں باقی بچے پیسوں کو گننے میں لگا تھا
کہا ماں نے
ارے بیٹا مجھے جاتے ہوئے تم سو روپے دینا
 
خُدا خیر کرے جی ۔۔۔ :)


نشتر کی جگہ ہاتھ میں مرہم وہ لیے ہیں
اِس درجہ عِنایات خُدا خیر کرے جی ۔۔۔۔

اِک بار ِ گراں ٹھہرا ہمیں اپنا وزن بھی
پھر اُن کے مفادات خُدا خیر کرے جی ۔۔۔

کہتے ہیں کہ مر جاؤ تو پھر زندہ کریں گے
اُف اُن کی کرامات خُدا خیر کرے جی ۔۔۔

عابی مکھنوی
 
تازہ ترین ۔۔۔

جو میری آنکھوں نے دیکھا لوگو اگر بتادوں تو کیا کرو گے
جو سُن رہے ہو وہ کچھ نہیں ہےمیں سب سُنادوں تو کیا کرو گے

یہ ہڈی بوٹی پہ پلنے والے تمھیں بھی جاں سے عزیز تر ہیں
میں اِن کے گورے نَشَب کا شجرہ کہیں مِلا دوں تو کیا کرو گے

یَتیم دھرتی کے قاتلوں سے کوئی نہیں جو قصاص مانگے
میں اَپنے بَچوں کو دَرس دے کر اگر لگا دوں تو کیا کرو گے

اے گونگو !! بہرو !! جیو گے کب تک زمیں کے سینے پہ بوجھ بن کے
میں سَارے ناگوں کے سب ٹھکانے تمھیں بتا دوں تو کیا کرو گے

یہ لکھنا پڑھنا یہ کہنا سُننا اَمن کی خاطر ہی ہو رہا ہے
میں اَپنی کاغذ قلم کی دُنیا ابھی جلا دوں تو کیا کرو گے

اگر طلب ہے تمھیں کہ دیکھو وہ پہلے قطرے کا سُولی چڑھنا
میں کوئے جاناں سے سُوئے مقتل قدم اُٹھا دوں تو کیا کرو گے

تمھاری آنکھوں میں دَم نہیں ہے کہ سہہ سکیں وہ کوئی سویرا
میں شَب کے سینے پہ مونگ دَل کے دِیا جلادوں تو کیا کرو گے

یہ سچ کا ہیضہ جسے ہوا ہے وہ تُم میں باقی کہاں رہا ہے
جو سو رہا ہے منافق عابی اُسے جگادوں تو کیا کرو گے

عابی مکھنوی
 
ممکن ہے اب تُو آئے تو یہ حادثہ بھی ہو
ممکن ہے تیری راہ میں اک مورچہ بھی ہو

ممکن ہے میں بھی تجھ سے مِلوں غیر کی طرح
ممکن ہے میرے ساتھ کوئی دُوسرا بھی ہو

ممکن ہے تیری پیٹھ پہ بھی وار ہو کوئی
ممکن ہے تُم سا اور کوئی دوغلا بھی ہو

رہتے ہیں بُت پرست بھی اب غزنوی کے ساتھ
مسجد کے ساتھ ساتھ کوئی بُت کدہ بھی ہو

عابی مکھنوی
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب جناب۔ بہت سی داد۔

علاوہ ازیں برادرانہ مشورہ جات: مطلع دولخت لگ رہا ہے۔ مزید تو اور تم کا شترگربہ توجہ طلب ہے۔ مزید لفظ "دوغلا" کافی بھاری اور معیوب محسوس ہو رہا ہے جو کہ محب کے شایانِ شان نہیں۔ اس کو کسی متبادل جیسے "دوسرا" وغیرہ سے باآسانی بدلا جا سکتا ہے فی الحال یہ شعر ہی دولخت ہے۔۔
 
آخری تدوین:
شکریہ جناب ابن رضا صاحب ۔۔شعر کا دو لخت ہونا ۔۔اس نقص سے میں واقف نہیں اور نہ مجھے اس کی تعریف معلوم ہے ۔امید ہے سیکھنے کا موقع دیں گے ۔۔ تو کے بعد جب تم استعمال کر رہا ہوں تو کیا اس جگہ تخاطب کے لیے کوئی اور ضمیر ہے ؟؟؟ البتہ لفظ دوغلا پہ اعتراض بے جا لگا ۔چاروں اشعار میں ایک اعلان جنگ ہے ۔محب تو تھا ۔۔ہے نہیں ۔اور کاش اس سے شدید کوئی لفط ہوتا تو وہ استعمال کرتا ۔
 
ممکن ہے اب تُو آئے تو یہ حادثہ بھی ہو
ممکن ہے تیری راہ میں اک مورچہ بھی ہو

ممکن ہے میں بھی تُم سے مِلوں غیر کی طرح
ممکن ہے میرے ساتھ کوئی دُوسرا بھی ہو

ممکن ہے تیری پیٹھ پہ بھی وار ہو کوئی
ممکن ہے تُم سا اور کوئی دوغلا بھی ہو

رہتے ہیں بُت پرست بھی اب غزنوی کے ساتھ
مسجد کے ساتھ ساتھ کوئی بُت کدہ بھی ہو

عابی مکھنوی
مطلع میں روانی کی کمی ہے اور مفہوم بھی واضح نہیں۔ اس کے علاوہ تیسرے شعر میں شترگربہ ہے۔ دوسرے مصرعے میں تیری کی مناسبت سے تم کی جگہ "تجھ" آنا چاہیے
 

ابن رضا

لائبریرین
شکریہ جناب ابن رضا صاحب ۔۔شعر کا دو لخت ہونا ۔۔اس نقص سے میں واقف نہیں اور نہ مجھے اس کی تعریف معلوم ہے ۔امید ہے سیکھنے کا موقع دیں گے ۔۔ تو کے بعد جب تم استعمال کر رہا ہوں تو کیا اس جگہ تخاطب کے لیے کوئی اور ضمیر ہے ؟؟؟ البتہ لفظ دوغلا پہ اعتراض بے جا لگا ۔چاروں اشعار میں ایک اعلان جنگ ہے ۔محب تو تھا ۔۔ہے نہیں ۔اور کاش اس سے شدید کوئی لفط ہوتا تو وہ استعمال کرتا ۔
عزیزم دولخت سے مراد ایک ہی شعر میں دو مصرعے اس طرح سے یکجا کرنا کہ پہلا مصرع ایک الگ ( مکمل یا غیر مکمل ) مضمون بیان کر رہا ہو اور دوسرا مصرع ایک الگ مضمون بیان کر رہا ہو۔ یا دونوں مصرعوں کے باہمی ربط و تسلسل میں خلل ہو۔

شتر گربہ
تو کے ساتھ تجھ ۔ تیرا
تم کے ساتھ تمھارا

شانِ محب پر(اعتراض کی ہماری کیا مجال دوست؟ تاہم) اختلافِ رائےاپنے اپنے نظریات کی وجہ سے قائم رہے گا۔ :)
 
آخری تدوین:
جناب مہدی نقوی صاحب اور ابن رضا صاحب دوسرے شعر میں تم کو تجھ کر دیا ہے ۔البتہ مطلع کے دو لخت ہونے کے حوالے سے وضاحت پیش ہے کہ پہلے جب وہ آتا تھا تو دوستانہ استقبال ہی معمول تھا اب اُسے ہوشیار کیا جارہا ہے ۔اور ظاہر ہے یہ اُس کے لیے حادثہ ہی ہو گا کہ جب استقبال کی جگہ اُس کے مقابل مورچہ زن ملیں ہم اُسے :)آپ دونوں حضرات کے وقت کے لیے شکر گزار ہوں
 
جناب مہدی نقوی صاحب اور ابن رضا صاحب دوسرے شعر میں تم کو تجھ کر دیا ہے ۔البتہ مطلع کے دو لخت ہونے کے حوالے سے وضاحت پیش ہے کہ پہلے جب وہ آتا تھا تو دوستانہ استقبال ہی معمول تھا اب اُسے ہوشیار کیا جارہا ہے ۔اور ظاہر ہے یہ اُس کے لیے حادثہ ہی ہو گا کہ جب استقبال کی جگہ اُس کے مقابل مورچہ زن ملیں ہم اُسے :)آپ دونوں حضرات کے وقت کے لیے شکر گزار ہوں
درضمن مطلع کی رو سے غزل غیر مقفیٰ بھی کہلا سکتی ہے بیشتر کتب اور حوالہ جات کے اعتبار سے۔ مطلع میں کسی ایک مصرعے کی قافیے کی "ہ" کو الف سے بدل لیجیے۔ تو مکمل غزل میں پھر "ہ" اور الف کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جناب مہدی نقوی صاحب اور ابن رضا صاحب دوسرے شعر میں تم کو تجھ کر دیا ہے ۔البتہ مطلع کے دو لخت ہونے کے حوالے سے وضاحت پیش ہے کہ پہلے جب وہ آتا تھا تو دوستانہ استقبال ہی معمول تھا اب اُسے ہوشیار کیا جارہا ہے ۔اور ظاہر ہے یہ اُس کے لیے حادثہ ہی ہو گا کہ جب استقبال کی جگہ اُس کے مقابل مورچہ زن ملیں ہم اُسے :)آپ دونوں حضرات کے وقت کے لیے شکر گزار ہوں
اسی نثری مفہوم کی ادائیگی یا دوسرے لفظوں میں شاعر کے مافی الضمیر کا شعر میں عمدہ طریق پر بیان ہی تو شعر کی خوبی شمار کی جاتی ہے دوست۔ گویا شعر کا کوئی حاشیہ نہیں ہوتا۔ کچھ الفاظ کی نشست و برخاست(تعقیدِ لفظی) اور کچھ الفاظ کے انتخاب میں موزونیت کی ضرورت ہے تاکہ وہی مفہوم حاصل کیا جا سکے۔ خوش رہیے

بمطابق محترم مہدی بھائی، مطلع کے قوافی میں اعلانِ روی "ہ" ہے لہذا قوافی میں حرفِ روی کا اتحاد لازم ہے۔ بصورتِ دیگر مجوزہ رعایت سے مستفید ہوں۔
 
آخری تدوین:
میں کسی اور سے مخاطب ہوں
ناپیے اپنا راستہ صاحب

خود کمایا ہے جو گنواتا ہوں
آپ کا کیا ہے واسطہ صاحب

آئینہ توڑنے سے کیا ہوگا
عکس بِکھرے ہیں جا بجا صاحب

ہر گھڑی رُخ بدلنا پڑتا ہے
چھوڑیے اب یہ دائرہ صاحب

لیجیے مان لی محبت بھی
آپ اپنے میں آپ کا صاحب

دُور بھی ہو گا خُوب سب لیکن
دیکھیے کچھ تو پاس کا صاحب

دُودھ سے روز دُھل کے آتے ہیں
آپ سا کون پارسا صاحب

آپ کے ہاتھ سے نمک کھا کر
آپ پر کیسے بھونکتا صاحب

دو ہی تو خُوبیاں ہیں عابی میں
کج ادا اور بے حیا صاحب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
 
جمالِ یار کی باتیں
ادائے ناز کے نغمے
قصیدہ حُسنِ جاناں کا
لبوں کی تازگی کے گُن
سرکنا مست آنچل کا
کہانی زُلفِ برہم کی
غضب دَستِ حنائی کا
بہکنا چشمِ آہو کا
فسانہ قُربِ آتش کا
بیانِ موجِ انگڑائی
بہت بِکتا ہے عابی جی
مگر لِکھا نہیں جاتا
بہت تلقین ہوتی ہے
مگر سوچا نہیں جاتا
قلم میں توڑ سکتا ہوں
مگر بیچا نہیں جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
 
Top