کامیاب عورت“کا مغربی اور اسلامی نقظہ نظر

عمر میرزا

محفلین
زیر نظر مضمون خلافت میگزین سے لیا گیا ھے۔

کامیاب عورت“کا مغربی اور اسلامی نقظہ نظر

گزشتہ صدی سے یہ موضوع مسلسل زیرِ بحث ہے کہ معاشرے میں ” کامیاب عورت“ کون ہوتی ہے؟ مغربی معاشرے میں اُس خاتون کو ”کامیاب عورت“ قرار دیا جاتاہے جو کامیاب معاش رکھتی ہو، جو مالی طور پر خود مختار ہو اور جو گھر اور کارکی مالک ہو۔ لہٰذا ایسی خواتین اس معاشرے میں رول ماڈل (Role model)کے طور پر جانی جاتی ہیںجو مذکورہ بالا معیار پر پوری اترتی ہوں۔ چنانچہ موجودہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی اوربظاہر چار بچوں کی ماں چیری بلیئر جو ایک کامیاب وکالت کا کیرئیر(Career) رکھتی ہے ، اس کا ذکر اکثر رول ماڈل کے طور پر کیا جاتاہے۔
اسی طرح اُس معاشرے میں یہ رائے بھی عام ہے کہ باپ یا شوہر پر انحصار کرنا عورت کو معاشرے میں کم تر درجے کا مالک بنا دیتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتاہے کہ وہ عورت جو ماں یا بیوی ہونے کے ساتھ کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں رکھتی اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ وہ ایک ناکام عورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُس معاشرے میں جب کسی عورت سے یہ سوال کیا جاتاہے کہ ”آپ کا پیشہ کیا ہے؟“ یا ”آپ کیا کرتی ہیں؟“ تو وہ یہ جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتیں ہیںکہ” میں صرف ماں ہوں“ یا ”میں ایک گھریلو خاتون ہوں“۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ایک پیشہ ور خاتون کو مالِ جنس (Commodity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ وہ معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہی ہے۔

اسی طرح مغربی معاشرے میں تذکیروتانیث کا معاشرے میں کردار کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ ایک خاندان میں عورت کو بھی کمانے کا اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ مرد کو۔ چنانچہ 1996 میں کیمبرج یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی اس بارے میں رائے کہ یہ صرف مرد کا کام ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے، 1984میں 65فیصد تھی جو کہ 1994میں کم ہوکر 43فیصد رہ گئی۔ اس وقت برطانیہ میں 45فیصد خواتین کام کرتی ہیں اور امریکہ میں 78.7فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔

جبکہ مغربی حکومتیں کامیاب عورت کے اس معیار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا ایسی عورتوں کی تعریف کی جاتی ہے جو کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرچکی ہوں۔ مزید برآں ایسی ماﺅں کے لیے معاشی فوائد کا اعلان بھی کرتیں ہیں جو کام کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ برطانوی حکومت نے ایک پالیسی بعنوان ”قومی سٹریٹیجی برائے بچوں کی دیکھ بھال“ متعارف کرائی ہے کہ جس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سی جگہیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ عورتیں جو کام کرتی ہیں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے ان جگہوں پر چھوڑ سکیں۔ اسی طرح انہیں مالی فوائد اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والوں اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ چنانچہ ”Full Time Mothers“ نامی تنظیم کا سربراہ جِل کِربی کہتا ہے کہ ” ایسی عورتوں کے لیے مالی فوائد ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن گھر بیٹھی عورتوں کے لیے کوئی مالی فائدہ نہیں“

بدقسمتی سے وہ مسلم خواتین جو مغرب میں رہ رہی ہیں وہ اس سوچ سے بہت متاثر ہوئی ہیںکہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرنا باقی تمام مقاصد سے بڑھ کر ہے۔ وہ بھی اب یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتی ہی نہیںکیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ وہ بچوں کی پیدائش بھی دیر سے کرتی ہیں اور تھوڑے بچے پیدا کرتی ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ اور وہ خواتین جو کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباﺅ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہوچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو کامیاب کیرئیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ لڑکی جلدی شادی کرنے کے حق میں ہو اور ماں کا کردار نبھانے کو ترجیح دیتی ہو۔

”کامیاب عورت“ کے اس مغربی معیار کا اسلامی دنیا پر اثر:

مغرب چاہتا ہے کہ مسلمان اُن کے دئیے ہوئے معیارات پر اپنی زندگی کو پرکھے۔ چنانچہ میڈیا کے ذریعے وہ مغربی طرزِ زندگی کو پھیلانے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ مسلم ممالک میں بھی یہ رائے پھیلتی چلی جارہی ہے کہ کامیاب خاتون وہ ہے جس کا اپنا ایک کیرئیر ہو۔ حال ہی میں ایک میگزین Working Mothers میںافغان عورتوں کے حوالہ سے ایک مضمون شائع ہوا ہے ، جس میں لکھا ہے کہ ”بہت سی خواتین معاشی ضرورت کے تحت کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ لیکن افغان خواتین کا ایک بڑھتا ہوا گروہ اپنے کیرئیر کے دوبارہ حصول کی کوشش کررہاہے۔ تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے، جس کو وہ طالبان کی حکومت کے دوران چھوڑنے پر مجبور تھیں“ اس مضمون میں ایک لڑکی کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ وہ افغان خواتین کی اپنے حقوق کی لڑائی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ وہ لڑکی کہتی ہے کہ”میں نے ان خواتین کو بتایا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں کیونکہ تم مردوں کے برابر ہو“ وہ مزید کہتی ہے کہ میں نے انہیں کہا کہ ”برقعے میں مت بیٹھو ، گھروں میں مت بیٹھی رہو، باہر نکلواور اپنے بچوں اور خاوند کو یہ ثابت کرکے دکھاﺅ کہ تم ایک عورت ہو، تم ہر کام کرسکتی ہو اور اپنے فیصلے بھی خود کرسکتی ہو“

مزید یہ اسلامی دنیا میں ایسے تصورات کو پروان چڑھانے کے لیے UNIFEM، اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام(UNDP)، اقوام متحدہ کا فنڈ برائے آبادی(UNPF) اور دوسرے غیر سرکاری ادارے حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں۔ 2001 میں UNDPکی طرف سے پاکستان میں ”میڈیا میں عورت کو کیسے پیش کیا جائے“ کے عنوان سے ایک سروے کیا گیا جس میں یہ رائے دی گئی کہ ٹی وی کے ڈراموں اور پروگراموں میں خواتین کو بہادر اور پرُاعتماد کردار میں دکھایا جانا چاہیے اور اس سوچ کو ختم کیا جانا چاہیے کہ ایک کامیاب کیرئیر کی حامل خاتون آئیڈیل بیوی یا ماں نہیں بن سکتی۔

”کامیاب عورت“ کے مغربی معیار کا اصل ماخذ:

یہ سوچ کہ کامیاب کیرئیر کی حامل خاتون ہی ”کامیاب عورت“ ہوتی ہے ، سرمایہ دارانہ نظام سے لیا گیا ہے۔ جس میں مادی فائدے اور نفع کی بنیاد پر کامیابی کو جانچا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ خاتون جو کاروبار کرتی ہے، ڈاکٹر ہے، وکیل ہے یا وہ اکاونٹنٹ ہے تو وہ کامیاب عورت ہے۔ کیونکہ یہ معاشی لحاظ سے معاشرے میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ چاہے وہ یہ حصہ خدمات کی شکل میں دے رہی ہو یا پھر ٹیکس کی شکل میں حکومت کو ادا کررہی ہو۔ اسی طرح ان کے نزدیک ایک گھریلو ماں یا بیوی معاشرے میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہی ہوتی۔ اس لیے اسے منفی نقطہ نگاہ سے دیکھا جاتاہے نہ کہ کامیابی کی علامت کے طور پر۔ 2002 میں انسٹیوٹ آف فسکل سٹڈیز(حکومتِ برطانیہ کا مشاورتی ادارہ) نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا کہ ”بچوں کی موجودگی ماں کے لیے روزگار کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور بچوں کی دیکھ بھال کی قابلِ برداشت اور آسان رسائی کی کمی کی وجہ سے ماں کی کمائی پر الٹا اثر پڑا ہے۔ صاف گوئی تو یہ ہے کہ موجودہ سٹریٹیجی کام نہیں کررہی اور اس کا خمیازہ معاشی نقصان کی شکل میں موجود ہے“

تذکیروتانیث کا معاشرے میں کردار کی جو نئی تعریف کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک خاتون چاہے وہ ماں ہو یا بیوی اسے اپنا کیرئیر جاری رکھنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ایک مرد کو شوہر یا باپ ہونے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ یہ تعریف مرد اور عورت کی برابری کے مغربی تصورات سے لی گئی ہے۔ یہ تصور یوں ہے کہ یہ دیکھنے کی بجائے کہ معاشرے میں عورت اور مرد کوکیسے دیکھا جاتاہے بلکہ دونوں کا کردار برابر ہونا چاہیے اور اس کا فیصلہ انفرادی ہونا چاہیے۔ اسی سے یہ نکلتاہے کہ عورت کو مرد کے برابر روزگار کی فراہمی کا حق ہونا چاہیے اور خواتین وہ کام اور نوکریاں بھی کرسکتی ہیںجو مرد کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنی شادی سے متعلق معاملات کا فیصلہ بھی خود کرے یعنی کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کرے گی یا کمائے گی۔ برابری کا یہ تصور اپنے اندر ایک ظالمانہ روش رکھتا ہے جو کہ انسانی عقل سے بنائے گئے سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کو بھگتنا پڑتاہے۔

یہ تصور اس متعصب ماحول کی پیدا وار ہے جب انگریز معاشرے میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاتھا اور عورت انتہائی مشکل زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ حتیٰ کہ 1850ءتک انگریز قوانین کے تحت عورت کو شہری تک تصور نہیں کیا جاتاتھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کے حقوق اوران کے لیے برابری کے حق کے لیے آواز بلند کی گئی اس یقین کے ساتھ کہ عورت صرف اسی طرح بہترمعیار زندگی حاصل کرسکے گی جب اس کا اپنا کیرئیر ہوگا، وہ مالی طور پر خودمختار ہوگی اور معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے گی۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد کام کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ وہ ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ مغربی طاقتوں نے عثمانی خلافت کے اندر بھی عورتوں کے حقوق اور برابری کی آواز اٹھائی جس کا مقصد عورتوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی بجائے اسلامی ریاست پر کاری ضرب لگانا تھا۔ مغربی مصنف برنارڈلیوس اپنی کتاب ”The Middle East“کے باب ”آزادی سے آزادی تک“ میں رقمطراز ہے کہ ”عورتوں کی آزادی کی ایک بڑی وجہ معاشی ضرورت تھی...معیشت کے اندر جدت پسندی زنانہ لیبر کی ضرورت کو سامنے لائی اور جسے جدید جنگ میں فوجی بھرتی کی وجہ سے کافی بڑھاوا دیا گیا... عورتوں کی معیشت میں شمولیت اور معاشرتی تبدیلیاں اسی کا نتیجہ ہیں جو جنگ کے دوران اور بعد میں بھی جاری رہیں بلکہ اسی وجہ سے عورتوں کے حق میں قانونی تبدیلیاں بھی کردی گئیں۔ یہ کچھ حد تک معاشرتی اور خاندانی زندگی پر اثر انداز بھی ہوئیں ہیں“

”کامیاب عورت“ کے اس نقطہ نظر کا خاندانی ڈھانچے پر اثر:

کیرئیر کی تلاش کو عورت کی زندگی کا اصل مقصد بنا دینے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے، خصوصاً اس کی وجہ سے خاندانی ڈھانچے پر نہایت ہی مہلک اثر ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے شادی شدہ زندگی میں تناو پیدا ہورہا ہے اور چونکہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ کم وقت گزارتے ہیں ، اس لیے طلاق کی شرح میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ اس نظریہ کی وجہ سے بچوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اور والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ کم وقت گزارنے کی وجہ سے بچوں اور والدین کے درمیان تعلقات میں سنگین قسم کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔

یہ مسائل ان مسلم خاندانوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جو اس نظریے سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے کردار کی صحیح وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان بحث ومباحثہ جاری رہتاہے اور یہی بحث بالآخر طلاق کا باعث بن جاتاہے۔ بچوں کے معاملے میں ماں اور بچے کا جو قریبی تعلق ہوتاہے اور جسے مزید پروان چڑھنا چاہیے لیکن اس نظریے کی وجہ سے ماں کی طرف سے بچے کی پرورش اسلامی تہذیب کے مطابق نہیں ہوپاتی۔ اس کی وجہ ماں کا بچے کے ساتھ کم وقت گزارنا ہے اور والدین اپنا کیرئیر بنانے کے چکر میں بچوں کو ایسی جگہوں پر داخل کرادیتے ہیں جہاں ان کی غیر موجودگی میں بچوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچے غیر اسلامی شناخت اختیار کرلیتے ہیں۔ والدین کا کہنا نہ ماننا، انہیں نظر انداز کرنا، شراب پینا اور منشیات کا استعمال جیسے بُرے کام مغربی معاشرے میں موجود ان مسلم خاندانوں میں عام ہےں جہاں ”کامیاب عورت“ کا یہ نظریہ اپنایا جارہاہے۔
”کامیاب عورتوں“ کی خستہ حالی:
وہ لوگ جنہوں نے اصل میں خواتین اور مردوں کے درمیان برابری کا تصور دیا ہے ان کا یقین ہے کہ برابری کا یہ تصور خواتین کو ان کی خستہ حالی سے باہر نکالتاہے۔ وہ خستہ حالی جس میں مغربی عورت کئی سالوں سے مبتلا تھی اور جسے ریاست کا شہری تک تصور نہیں کیا جاتاتھا۔ تاہم اس تصور کو اپنانے کے بعد بھی کام کرنے والی عورتیں کوئی کم خستہ حال نہیں ہیں، بس وجوہات مختلف ہیں۔ بچوں کی پیدائش میں دیر یا بچے پیدا ہی نہ کرنا یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کیونکہ کیرئیر اس بات سے متفق نہیں کہ تولیدی جبلت ہر عورت میں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے نزدیک یہ جبلت خستہ حالی کا باعث ہے۔ وہ کیرئیر وویمن جن کے بچے ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کے ساتھ کم وقت گزارنے کی وجہ سے مستقل طور پر ندامت محسوس کرتی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ وہ خود کو بیوی، ماں اور کام کے درمیان بہت زیادہ مصروف پاتی ہے۔ بہت سے گھروں میں ایک کیرئیر وویمن اپنی گھر کی ذمہ داریوں کو کم نہیں کرپاتی۔ وہ اپنے کیرئیر کو جاری رکھنے کے لیے کام کرتی ہے لیکن گھر کے کام ایسی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے آپ سے جدا نہیں کرپاتی۔

چنانچہ خواتین کا سارا دن ایک کام سے دوسرے کام کو کرتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ اپنی فیملی کے لیے ناشتہ تیار کرنا، شوہر اور بچوں کے لیے لنچ تیار کرنا، بچوں کو تیار کر کے سکول بھیجنا، اپنی نوکری کے لیے جانا، دفتر میں پورا دن کام کرنا، پھر سکول سے بچوں کو لینے جانا، رات کا کھانا تیار کرنا، بچوں کا بستر تیار کرنااور اگلے دن کی تیاری کرنا۔ وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اپنا کوئی بھی کام بہتر طور پر نہیں کرپاتیں، کیونکہ ایسی خاتون بہت زیادہ تھکاوٹ اور ٹینشن محسوس کرتی ہے۔ ایک مغربی مصنفہ Lisa Belkinاپنی کتاب "Life's work: Confessions of an unbalanced Mom" میں لکھتی ہیں کہ ”ہم میں سے کوئی ایک خاتون بھی 100فیصد وقت اپنی نوکری کو نہیں دے سکتی ، نہ 100فیصد اپنی فیملی کو دے سکتی ہیں اور نہ ہی 100فیصد خود اپنے لیے نکال سکتی ہیں“ یہ ان کامیاب عورتوں کی خستہ حالی نہیں تو کیا ہے؟ مغرب نے آزادی کے نام پر اسے ایک معاشی جنس بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔

برابری کے تصور کی حقیقت:

یہ تصور کہ معاشرے میں تذکیروتانیث کی برابری خواتین کے لیے ترقی کی راہ متعین کرتا ہے ایک فاش غلطی ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے کسی بھی نظام میں انفرادی لحاظ سے سب کو برابری کا حق دینا ممکن نہیں چاہے یہ مرد اور عورت کے درمیان ہویا کالے اور گورے کے درمیان یا پھر جوان اور بوڑھے کے درمیان، کیونکہ انسان جب بھی خود قانون بناتا ہے وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں 30سال سے برابری کے حوالے سے قانون موجود ہیں لیکن ان معاشروں میں خواتین مردوں کے جیسا کام کرنے کے باوجود کم تنخواہ لیتی ہیں۔ یہ اس چیز کو واضح کرتا ہے کہ پوری صدی میں خواتین کے حقوق اور برابری پر بات کی گئی اور پھر بھی بیسویں صد ی میں برطانیہ میں صرف 4فیصد خواتین جج کے عہدے پر فائز تھیں، 11فیصد مینجر اور FTSEکی 100میں سے 2 خواتین ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھیں۔

مزید یہ کہ مرد اور عورت پر برابری کیسے لاگو ہوسکتی ہے جو جسمانی اور اعضائی لحاظ سے فطری طور پر ہی مختلف ہیں۔ جیسا کہ ایک مصنف لکھتاہے کہ ”برابری کے اس تصور میں ایک فطری دباﺅ موجود ہے، جو پہلے سے ہی فرض کرلیتا ہے کہ اس میں یکسانیت ہے۔“ یہ ایسا ہی ہے کہ یہ تجویز کرلینا کہ سورج اور زمین چاہے فطرت میں اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں لیکن ان کا کام ایک جیسا ہونا چاہیے جب زندگی میں کردار اور کام اس طرح سے طے کیے جائیں جس میں مرد اور عورت کی فطرت میں اختلاف کو بروئے کار نہ لایا جائے تو یہ فیصلہ مصیبت اور خستہ حالی کاسبب بنتا ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیا جاچکا ہے۔

اسلام اور ”کامیاب عورت“ کا صحیح تصور:

اسلام کسی عمل، کام یا شخص کو اس بنیاد پر نہیں جانچتا کہ وہ ریاست کی معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اسلام کسی مرد یا خاتون کو جانچنے کا پیمانہ یہ بتاتا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے حکم کے مطابق ہیں یا نہیں اور ان کے تقویٰ کا معیار کیا ہے؟ حضور ا نے اپنے آخری خطبہ حج میں فرمایا: ”کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری حاصل ہے، سوائے تقوی اور اصل اعمال کی بنیاد پر “ اس لیے کامیاب عورت وہ ہے جو کہ پُرخلوص ہوکر اللہ کے احکامات کی پیروی کرے، اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ ہمارے اعمال ہی ہونگے جو مرنے کے بعد ہمارے لیے جنت یا دوزخ کا فیصلہ کرائیں گے۔ یہی کامیابی کا صحیح معیار ہے۔

اسلام دینِ فطرت ہے چنانچہ جن معاملات میں مرد اور عورت کی فطری صلاحتیں ایک جیسی ہیں، ان معاملات میںاسلام نے ان پر فرض بھی ایک جیسے عائد کیے ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ۔ تاہم جہاں فطرت میں فرق پایا جاتا ہے تو وہاں فرائض بھی مختلف عائد ہوتے ہیں، اس لیے خاونداور باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنے خاندان کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرے اور مالی طورپر ان کی کفالت کرے۔ جبکہ عورت کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند اور بچوں کی دیکھ بھال کرے، ان کی فلاح وبہبود کا خیال رکھے اور اپنے بچوں کی پرورش اسلامی تہذیب کے مطابق کرے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

”مرد عورتوں پر حاکم ہیںاس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ، پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والی ہیں“ (النسائ:34)
اللہ نے مردوزن کی ذمہ داریاں بانٹ دیں۔ چنانچہ اسلام نے مرد پر جو ذمہ داری عائد کی ہے وہ ماں یا بیوی کے کردار سے بڑھ کر نہیں، بلکہ اس پر عائد کی گئی ذمہ داری کا وہ جوابدہ ہے۔ دونوں فرائض ایک دوسرے کے لیے قابلِ قبول ہیںاور خاندان کو بااحسن طریقے سے چلانے کے لیے نہایت ہی ضروری ہیں تاکہ معاشرہ صحیح طور پر کام کرسکے اور اس میں سکون ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ مردوں کو ان کے کاموں کا اجر ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کے کاموں کا اجر ہے جو انہوں نے کئے “(النسائ:32)
برابری کا مغربی تصور انسانی اختراع ہے جو فطرت میں بگاڑ پیدا کرتاہے اور اسلام میں ایسے تصور کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اسلام میں تمام احکامات خالقِ باری تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لیے منصفانہ ہیں۔ مزید یہ کہ اسلام بنی نوع انسان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ معاشرے میں اپنی مرضی یا دلی پسند اور ناپسند کے مطابق اپنے فرائض منصبی کا تعین کرے، بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو من وعن قبول کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”اللہ اور اس کا رسول ا جب کوئی فیصلہ کریں تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے اس فیصلے میں کوئی اختیار نہیں (یاد رکھو) اللہ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا“ (الاحزاب: 36)

اسلام میں ایک عورت کے لیے جائز پیشے:

اسلام میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک عورت کوئی پیشہ اختیار کرسکتی ہے اگر وہ ماں اور بیوی جیسے اپنے بنیادی فرائض کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ تاہم اسلام خواتین کو چند مخصوص پیشے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتاہے جس کی تفصیل یوں ہے:

1) حکمرانی کا عہدہ جیسا کہ خلیفہ، والی یا عامل: یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت مرد سے کمتر ہے، بلکہ اس کی ممانت کے خاص دلائل موجود ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا ”جو لوگ ایک عورت کو حکمرانی کے عہدے پر فائز کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتے“ مزید یہ کہ اسلام میں حکومت کرنا کوئی عزت یا اعلیٰ مرتبہ کی چیز نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ ذمہ داری، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور ایسا کام جس کا محاسبہ ہوتا ہے، کا معاملہ ہے۔

2) کوئی بھی ایسا کام جس میں عورت کی نسوانیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے: عورت ایسا کوئی پیشہ اختیار نہیں کرسکتی جس میں کام کی نوعیت اس کی نسوانیت پر مرکوز ہو جیسا کہ ماڈلنگ اورتشہیر کاکام وغیرہ۔ اسی طرح وہ ایسا کام بھی نہیں کرسکتی جس میں اسے نامحرموں کی موجودگی میں (ہاتھ اور چہرے کے علاوہ) اپنا ستر کھولنا پڑے یا اس کام میں اپنے نامحرموں کو اپنی خوبصورتی کی طرف مائل کرنا پڑے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت سے نوازا ہے اور اس پر فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے نا کہ اس کی نسوانیت کو ایک معاشی چیز سمجھا جائے۔

چنانچہ مسلمان عورت کو یہ تسلی ہونی چاہیے کہ وہ ان کے علاوہ کوئی بھی پیشہ اختیار کرسکتی ہے جو اسلامی احکامات پر پورا اترتا ہو اور جو اسلامی معاشرتی حدود کے اندر ہو۔ اور یہ بات بھی یقینی ہو کہ اس کام میں کسی نامحرم مرد کے ساتھ خلویٰ یعنی اکیلے مرد کے ساتھ تنہائی تو شامل نہیں تاکہ کوئی بھی اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے اور نہ ہی کسی قسم کے شک کا سبب بن سکے۔ نیز یہ پیشہ مردوں کے ساتھ اختلاط کا باعث نہ ہو اور جتنا ممکن ہوسکے اس میں مردوں کے ساتھ قریبی تعلقات کی ضرورت درکار نہ ہو۔

چنانچہ ان پابندیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عورت ڈاکٹر بن سکتی ہے، انجئنیر بن سکتی ہے، کاروبار کرسکتی ہے یا سائنسدان بن سکتی ہے یا پھر استاد بن سکتی ہے اور یوں وہ اسلامی معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

حضور ا کے دور میں بہت سی مسلمان عورتیں کام کیا کرتی تھیں۔ خود حضور ا زوجہ محترمہ حضرت سودا ؓ جانوروں کی کھالوں کو رنگنے کا کام کرتی تھیں۔ ایک صحابیہ حضرت کلاؓ تجارت کیا کرتی تھیں، بہت سی ایسی روایات موجود ہیں کہ جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حضور ا سے اپنے تجارتی معاملات سے متعلق سوال کیا کرتی تھیں تاکہ ان معاملات میں اسلام کا حکم معلوم ہوسکے۔ جابر بن عبداللہؓ کی چچی کاشت کاری کیا کرتی تھیں۔ اسی طرح بہت سی خواتین جنگ کے دوران زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔ اور حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک عورت کو قاضی حسبہ بنا یا تھا۔

آخری بات:

[”کامیاب عورت“ کے مغربی تصور کے مطابق عورت کی حیثیت ایک معاشی چیز سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ اسی وقت اس معاشرے کے لیے اہم ہے جب وہ کچھ کما کر انہیں دے رہی ہے۔ استعمار کافر چاہتا کہ مسلمان عورتیں بھی اسی معیار کو اپنائیں اور اسلامی ممالک میں اس تصور کو پروان چڑھایا جائے۔ وہ تصور جو ان کے اپنے معاشرے میں بدبختی اور مسائل کے علاوہ کچھ پیدا نہیں کرسکا اور جس نے عورت کو اس کی عزت کی حفاظت کرنے کی بجائے اسے ایک کاروباری اشتہار بنا کر رکھ دیا ہے۔

اسلام عورت کو اس گھٹیا طریقے سے نہیں پرکھتا۔ بلکہ اسلام میں وہ عورت ”کامیاب عورت“ کہلاتی ہے جو اللہ کے احکامات کو پورا کررہی ہوتی ہے۔ وہ خود کو مرد سے کمتر نہیں سمجھتی بلکہ وہ معاشرے میں اپنے کردار اور فرائض کو اختیار کرنے کی متمنی ہوتی ہے۔ وہ کام تو کرسکتی ہے لیکن اسے وہ اپنی کامیابی سے نہیں جوڑتی اور نہ ہی اپنے رتبے کو اپنے کیرئیر سے ماپتی ہے۔ وہ اللہ کے احکامات کو بجا لانے کو اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتی ہے۔ ایسی عورت ہی ”کامیاب عورت“ ہے۔
 

تیشہ

محفلین
By the time the God made woman‏


untitleds.jpg



By the time the God made woman,
He was into his sixth day of working overtime..
An angel appeared and said,
"Why are you spending so much time on this one?"
And the God answered, "Have you seen my spec sheet on her?
She has to be completely washable, but not plastic,
have over 200 movable parts, all replaceable
and able to run on diet coke and leftovers,
have a lap that can hold four children at one time,
have a kiss that can cure anything from a scraped knee to a broken heart
-and she will do everything with only two hands."


The angel was astounded at the requirements.
"Only two hands!? No way!
And that's just on the standard model?
That's too much work for one day.
Wait until tomorrow to finish."
2362937.jpg


But I won't," the God protested.
"I am so close to finishing this creation that is so close to my own heart.
She already heals herself when she is sick AND can work 18 hour days."


The angel moved closer and touched the woman.
"But you have made her so soft, God."


"She is soft," the God agreed,
"but I have also made her tough.
You have no idea what she can endure or accomplish."


"Will she be able to think?", asked the angel.


The God replied,
"Not only will she be able to think,
she will be able to reason and negotiate."


The angel then noticed something,
and reaching out, touched the woman's cheek.
"Oops, it looks like you have a leak in this model.
I told you that you were trying to put too much into this one."


"That's not a leak,"
the God corrected,
"that's a tear!"
"What's the tear for?" the angel asked.


The God said, "The tear is her way of expressing her joy,
her sorrow, her pain, her disappointment, her love,
her loneliness, her grief and her pride."
The angel was impressed.
"You are a genius, God.
You thought of everything!
Woman is truly amazing."
2362937.jpg

And she is!
Women have strengths that amaze men.
They bear hardships and they carry burdens,
but they hold happiness, love and joy.
They smile when they want to scream.
They sing when they want to cry.
They cry when they are happy
and laugh when they are nervous.
They fight for what they believe in.
They stand up to injustice.
They don't take "no" for an answer
when they believe there is a better solution.
They go without so their family can have.
They go to the doctor with a frightened friend.

2362937.jpg

They love unconditionally.
They cry when their children excel
and cheer when their friends get awards.
They are happy when they hear about
a birth or a wedding.
Their hearts break when a friend dies.
They grieve at the loss of a family member,
yet they are strong when they think there is no strength left.
They know that a hug and a kiss
can heal a broken heart.
Women come in all shapes, sizes and colors.
They'll drive, fly, walk, run or e-mail you
to show how much they care about you.
The heart of a woman is what makes the world keep turning.
They bring joy, hope and love.
They have compassion and ideals.
2362937.jpg

They give moral support to their family and friends.
Women have vital things to say and everything to give.
HOWEVER, IF THERE IS ONE FLAW IN WOMEN,
IT IS THAT THEY FORGET THEIR WORTH.
 
Top