کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید گرفتار

جاسم محمد

محفلین
کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید گرفتار
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1746487-jamatutdawabanhafizsaeed-1563348571-644-640x480.jpg

سی ٹی ڈی پنجاب نے آج صبح حافظ سعید کو لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ فوٹو:فائل

لاہور: انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو 7 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دیدیا ہے۔

سی ٹی ڈی نے حافظ سعید کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جہاں ان کے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کی گئی جس کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے حافظ سعید کو 7 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی تحقیقات جلد سے جلد مکمل کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔

سی ٹی ڈی پنجاب نے کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو آج صبح لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ حافظ سعید لاہور میں درج دو مقدمات میں 3 اگست تک ضمانت پر رہا تھے اور گوجرانوالہ میں درج مقدمات میں ضمانت کے لیے جارہے تھے کہ سی ٹی ڈی نے انہیں راستے سے گرفتار کرلیا۔

سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق حافظ محمد سعید کو محکمہ داخلہ پنجاب کی اجازت کے بعد گرفتار کیا گیا ہے، اس کےعلاوہ مزید 20 افراد کی گرفتاری کی منظوری دی گئی ہے جن کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔

حکومت کی جانب سے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ یکم جولائی کو حافظ سعید اور ان کے دیگر 6 ساتھیوں کے خلاف لشکر طیبہ کا سربراہ ہونے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات میں مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔ ان پر دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کے الزامات ہیں۔

حافظ سعید نے اپنے خلاف درج دہشت گردی کے مقدمات پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔ عدالت میں دائر درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا کہ ان پر درج ایف آئی آرز ختم کی جائیں، ان کا لشکر طیبہ، القاعدہ یا ایسی کسی بھی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں، وہ ریاست کے خلاف اقدامات میں ہرگز ملوث نہیں ہیں، جبکہ انڈین لابی کا حافظ سعید پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام حقائق کے منافی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہلکہ خیز ٹویٹ کر دی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حافظ سعید کو امریکی دباؤ پر گرفتار کیا گیا۔ سبکی در سبکی! غلامی در غلامی! گرفتار کرنا تھا تو بغیر دباؤ کے کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی دباؤ کے سامنے موجودہ حکومت بھی ایک پل میں ڈھیر ہو جائے گی۔ یہ ہے نیا پاکستان! :)
 

جاسم محمد

محفلین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہلکہ خیز ٹویٹ کر دی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حافظ سعید کو امریکی دباؤ پر گرفتار کیا گیا۔ سبکی در سبکی! غلامی در غلامی! گرفتار کرنا تھا تو بغیر دباؤ کے کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی دباؤ کے سامنے موجودہ حکومت بھی ایک پل میں ڈھیر ہو جائے گی۔ یہ ہے نیا پاکستان! :)
ماضی میں ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کاروائی نہ ہونے دینے میں اصل دباؤ اپنے ہی ملک کے ریاستی اداروں کی طرف سے آتا تھا۔ ڈان لیکس بھول گئے جب نواز شریف نے ان اداروں کو دباؤ میں لانے کیلئے ڈان اخبار میں اعلی سطح کی سیکورٹی میٹنگ کا احوال لیک کروایا تھا؟ تب بھی یہی تنازعہ تھا کہ ن لیگی حکومت ان عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کرنا چاہتی ہے جبکہ ادارے انہیں قومی اثاثہ بنانے پر ڈٹ گئے تھے :)
آپ کو تو بھارت اور امریکہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے مسلسل دباؤ میں آکر مقتدر حلقے اپنے قومی اثاثے جو انہوں نے سخت محنت سے بنائے تھے اب ملک (اپنے رقبوں) کی بقا کی خاطر قربان کرنے کیلئے تیار ہو گئے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
تو پھر، انہیں خود ہی گرفتار کر لینا چاہیے تھا؟ کیا ہمیں اس طنز بھری ٹویٹ کا انتظار تھا؟ مسٹر ٹرمپ نے خان حکومت کو ٹویٹر کے ذریعے انہی کی طرز کی ڈوز دی ہے۔ مزا تو خوب آیا ہو گا!
یہ ڈوز دراصل مقتدر حلقوں کو دی گئی ہے کہ اب آپ اپنے قومی اثاثوں کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ اگر بین الاقوامی اداروں سے امداد لینی ہے تو ان دہشت گردوں کو سزائیں دیں۔ :)
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت اس امر سے واقف ہے کہ پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار ديے جانے والے حافظ سعيد اور ان کے ساتھيوں کے خلاف دہشت گرد تنظيم لشکر طيبہ اور اس سے منسلک جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانيت فاؤنڈيشن کے ليے فنڈز جمع کرنے کی پاداش ميں کيسيز کھولے ہيں۔

ہم دہشت گرد گروہوں کی کاروائيوں کی روک تھام کے ضمن ميں اس اقدام کو سراہتے ہيں کيونکہ يہ کاروائياں جنوبی ايشيا کے امن اور استحکام کے ليے خطرہ ہيں۔

ہم پاکستانی وزيراعظم عمران خان کے بيان کردہ ارادے کا خير مقدم کرتے ہيں کہ پاکستان خود اپنے مستقبل کے ليے عسکری گروہوں کو اپنی سرزمين استعمال کرنے کی اجازت نہيں دے گا۔

ہم دہشت گرد گروہوں اور ان کی قيادت کے خلاف مستقبل ميں بھی ايسے مستقل اور مسلسل اقدامات کی حوصلہ افزائ کرتے رہيں گے جو پاکستان اور خطے ميں امن اور خوشحالی کے ليے انتہائ اہم ہيں۔

حق‍یقت يہی ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے حافظ سعيد کے حوالے سے تازہ فيصلے سے بہت پہلے ہی ان کی تنظيم کو حکومت پاکستان، بھارت، امريکہ، برطانيہ، يورپين يونين، رشيا اور آسٹريليا کی جانب سے کالعدم قرار ديا جا چکا تھا۔

ايک دہشت گرد تنظيم جس کی اپنی تاريخ اور ايجنڈہ دانستہ بے گناہوں کو نشانہ بنانے سے عبارت ہو، اسے کبھی بھی سياسی اکائ تسليم نہيں کيا جا سکتا چاہے اس کے دعوے اور عزائم کتنے ہی خوشنما کيوں نہ ہوں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
ماضی میں ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کاروائی نہ ہونے دینے میں اصل دباؤ اپنے ہی ملک کے ریاستی اداروں کی طرف سے آتا تھا۔ ڈان لیکس بھول گئے جب نواز شریف نے ان اداروں کو دباؤ میں لانے کیلئے ڈان اخبار میں اعلی سطح کی سیکورٹی میٹنگ کا احوال لیک کروایا تھا؟ تب بھی یہی تنازعہ تھا کہ ن لیگی حکومت ان عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کرنا چاہتی ہے جبکہ ادارے انہیں قومی اثاثہ بنانے پر ڈٹ گئے تھے :)
آپ کو تو بھارت اور امریکہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے مسلسل دباؤ میں آکر مقتدر حلقے اپنے قومی اثاثے جو انہوں نے سخت محنت سے بنائے تھے اب ملک (اپنے رقبوں) کی بقا کی خاطر قربان کرنے کیلئے تیار ہو گئے ہیں :)
کراں میں نظارہ جدوں اودی تصویر دا۔
پیندا اے 'بھلیکھا' مینوں سوہنی سسی ہیر دا۔


سجنا۔۔۔ اے بھلیکھے ای نی۔ ویلا ٹپ لین دے، حافظ صاحب فیر بوہڑ تھلے ہونے نیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کراں میں نظارہ جدوں اودی تصویر دا۔
پیندا اے 'بھلیکھا' مینوں سوہنی سسی ہیر دا۔
سجنا۔۔۔ اے بھلیکھے ای نی۔ ویلا ٹپ لین دے، حافظ صاحب فیر بوہڑ تھلے ہونے نیں۔
جب تک ٹرمپ صدر، مودی وزیر اعظم ہے آپ اقوام عالم کو ماضی کی طرح دھوکہ میں نہیں رکھ سکتے۔ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا پڑے گا کہ یہ 80، 90 کی دہائی نہیں رہی جب آپ اوجڑی کیمپ میں امریکی اسلحہ ضائع کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے تھے ۔
دنیا جہادیوں کو استعمال کر کے آگے بڑھ گئی ہے اور یہ وہیں ان کے ساتھ ٹنگے ہوئے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جب تک ٹرمپ صدر، مودی وزیر اعظم ہے آپ اقوام عالم کو ماضی کی طرح دھوکہ میں نہیں رکھ سکتے۔ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا پڑے گا کہ یہ 80، 90 کی دہائی نہیں جب آپ اوجڑی کیمپ میں امریکی اسلحہ ضائع کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے تھے ۔
دنیا جہادیوں کو استعمال کر کے آگے بڑھ گئی ہے اور یہ وہیں ان کے ساتھ ٹنگے ہوئے ہیں۔
ایک دو نسلیں تیار کر لیں آپ نے۔ ان کو کیا خلا میں بھیج دیا جائے؟ جب کسی سے کام لیا جاتا ہے، تو پھر، انہیں کام ختم ہونے کے بعد، راہ بھی سجھائی جاتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ ہی تھی نا جس نے نواز شریف اور واجپائی کے خلاف محاذ کھڑا کر لیا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ سیاسی قیادت حل کر رہی تھی تو پھر اسٹیبلشمنٹ نے کیوں ہنگامہ بپا کر دیا، کارگل مچا دیا، حافظ سعید صاحب اور دیگر کو بھی استعمال کیا اور ایسی پالیسی اور روش اختیار کی جو کہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے برخلاف تھی۔ انڈیا تب محتاط رہا اور اس نے ہمارے خلاف عالمی سطح پر تحریک چلائی جس کے باعث ہم بیک فٹ پر ہیں۔ اب ہم اس موضوع پر بات کریں گے تو غدار ٹھہریں گے! :)
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ ہی تھی نا جس نے نواز شریف اور واجپائی کے خلاف محاذ کھڑا کر لیا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ سیاسی قیادت حل کر رہی تھی تو پھر اسٹیبلشمنٹ نے کیوں ہنگامہ بپا کر دیا، کارگل مچا دیا، حافظ سعید صاحب اور دیگر کو بھی استعمال کیا اور ایسی پالیسی اور روش اختیار کی جو کہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے برخلاف تھی۔
یہ کند ذہن عسکری ایسے ہی ہیں۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ایوب کی دس سالہ آمریت کے بعد ملک میں جمہوری دور آیا۔ الیکشن صاف شفاف ہوئے۔ اقتدار الیکشن جیتی ہوئی پارٹی کو منتقل ہونے ہی والا تھا کہ صدر پاکستان کی پھرکی گھوم گئی اور جس شخص کو وزیر اعظم بننا تھا اس پر غداری کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان اقدامات پرمشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے دبانے کیلئے فوجی آپریشن کیا گیا اور بنگلہ دیش آزاد کروا کر دم لیا۔
اس سارے سانحہ کا پس منظر یہ تھا کہ صدر یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے اور مجیب الرحمان انہیں مزید ایکسٹینشن دینے کیلئے ڈیل نہیں کر رہے تھے۔
عسکری دماغ میں مصلحت (این آر او، ڈیل) اور فوجی آپریشن کے درمیان کوئی درمیانی راہ موجود نہیں ہوتی۔ اور یہی فسطائیت ہے جس کا آپ رونا روتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ کند ذہن عسکری ایسے ہی ہیں۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ایوب کی دس سالہ آمریت کے بعد ملک میں جمہوری دور آیا۔ الیکشن صاف شفاف ہوئے۔ اقتدار الیکشن جیتی ہوئی پارٹی کو منتقل ہونے ہی والا تھا کہ صدر پاکستان کی پھرکی گھوم گئی اور جس شخص کو وزیر اعظم بننا تھا اس پر غداری کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان اقدامات پرمشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے دبانے کیلئے فوجی آپریشن کیا گیا اور بنگلہ دیش آزاد کروا کر دم لیا۔
اس سارے سانحہ کا پس منظر یہ تھا کہ صدر یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے اور مجیب الرحمان انہیں مزید ایکسٹینشن دینے کیلئے ڈیل نہیں کر رہے تھے۔
عسکری دماغ میں مصلحت (این آر او، ڈیل) اور فوجی آپریشن کے درمیان کوئی درمیانی راہ موجود نہیں ہوتی۔ اور یہی فسطائیت ہے جس کا آپ رونا روتے ہیں۔
یہ تو خیر طویل داستان ہے۔ مشرقی پاکستان کا معاملہ ایسا سادہ کب تھا!
 
Top