فارسی شاعری کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست - غزلِ خسرو مع ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست

میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے (کافروں کی طرح) زُنار کی حاجت بھی نہیں ہے۔

از سَرِ بالینِ مَن بَرخیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارُو بَجُز دیدار نیست

اے نادان طبیب میرے سرہانے سے اٹھ جا کہ عشق کے بیمار کیلیے دیدار کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں ہے۔

شاد باش اے دل کہ فَردَا برسَرِ بازارِ عشق
مُژدۂ قتل است گرچہ وعدۂ دیدار نیست

اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے۔

ناخُدا در کشتیٔ ما گر نَباشد گو مَباش
ما خُدا داریم، ما را ناخُدا درکار نیست

اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کہو کہ نہیں تو نہ سہی، کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔

خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست

خلق کہتی ہے کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے۔

امیر خسرو علیہ الرحمہ
 

صلال یوسف

محفلین
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
میں عشق میں کافر ہوں ،مجھے مسلمانی کی ضرورت نہیں
میری ہر رگ تار تار ہو گئی ہے مجھے زنار کی بھی ضرورت نہیں
از سر بالیں من بر خیز اے نادان طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
اے نادان معالج میرے سر ہانے سے اُٹھ جا
عشق کے بیمار کا علاج سوائے دیدار کے ممکن نہیں
ابر را با دیدۂ گریان من نسبت مکن
نسبتت با رود کے باران خونبار نیست
بادل کو میری آنکھوں سے نسبت نہ دو
بارش کو خون کے آنسوؤں سے کوئی نسبت نہیں
شاد اے دل کہ فردا برسر بازار عشق
مژدۂ قتل ست گرچہ وعدئے دیدار نیست
اے دل خوش ہو جاکہ آنے والے کل کو بازار عشق میں
تیرے لئے قتل کی خوشخبری ہے مگر دیدار کا دعدہ نہیں
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم با خلق عالم کار نیست
لوگ مجھے کہتے ہیں کہ خسرو بتوں کو پوجتا ہے
ہاں ہاں میں ایسے کرتا ہوں دنیا والوں کو ہم سے کوئی کام نہیں
 
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
میں عشق میں کافر ہوں ،مجھے مسلمانی کی ضرورت نہیں
میری ہر رگ تار تار ہو گئی ہے مجھے زنار کی بھی ضرورت نہیں
از سر بالیں من بر خیز اے نادان طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
اے نادان معالج میرے سر ہانے سے اُٹھ جا
عشق کے بیمار کا علاج سوائے دیدار کے ممکن نہیں
ابر را با دیدۂ گریان من نسبت مکن
نسبتت با رود کے باران خونبار نیست
بادل کو میری آنکھوں سے نسبت نہ دو
بارش کو خون کے آنسوؤں سے کوئی نسبت نہیں
شاد اے دل کہ فردا برسر بازار عشق
مژدۂ قتل ست گرچہ وعدئے دیدار نیست
اے دل خوش ہو جاکہ آنے والے کل کو بازار عشق میں
تیرے لئے قتل کی خوشخبری ہے مگر دیدار کا دعدہ نہیں
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم با خلق عالم کار نیست
لوگ مجھے کہتے ہیں کہ خسرو بتوں کو پوجتا ہے
ہاں ہاں میں ایسے کرتا ہوں دنیا والوں کو ہم سے کوئی کام نہیں
 

mohsin ali razvi

محفلین
عشق حقیقی
از صبر حسین آموخته ام عشق عظیم
درعشق نباشد تردد کرنا
بی بس نہو عامل خام و بی زار
عشق ہين بازيچہ اطفال نہی
قمرو صوفی و ساحل گزار
عشق کامل طلب و منت ایام نہ کر
چل کے جا سوی حسین ابن علی
وہ ادب ماہ تمام عشق عظیم
عاملا کس بہئ نہی مرد تمام
شاہ خوبان حسین ابن علی
عاشق کل حسین ابن علی
صبر کا قصہ سناتے ہيں ہميے
عامل صبر کو گر صبر نہی
صبر عالم کو مٹانا ہوگا
عامل شیرازی 2/9/013 39/ 5 ہای شام
 

mohsin ali razvi

محفلین
1385239_579189285474333_899300879_n.jpg

عشق حقیقی
عشق انسان تمنای دو روح عاشقی فعل الاهی باشد
در ملاقات دو عاشق حقا رب عُشاق چو مهمان باشد
رنک عشق است همان نور خدا قلب عاشق چو منور باشد
عاملا عشق نما عشق تمام گر خدا می طلبی عشق مطهر باشد
عامل شیرازی
 

mohsin ali razvi

محفلین
خدایا تیرے جہان میں فسا د و فراڈ کیوں
اس بے قرار دل میں کسی کا انتظار کیوں
برباد ھوگیا میراجہان اس انتظار میں
کب ھوگا دیدار یاردل بے قرار کیوں
عامل رھو اپنی حدود میں تو
یے بیقراری و دل کا انتظار کیوں
عامل شیرازی
 
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست

میں عشق میں کافر ہوں ،مجھے مسلمانی کی ضرورت نہیں
میری ہر رگ تار تار ہو گئی ہے مجھے زنار کی بھی ضرورت نہیں


از سر بالیں من بر خیز اے نادان طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست

اے نادان معالج میرے سر ہانے سے اُٹھ جا
عشق کے بیمار کا علاج سوائے دیدار کے ممکن نہیں


ابر را با دیدۂ گریان من نسبت مکن
نسبتت با رود کے باران خونبار نیست

بادل کو میری آنکھوں سے نسبت نہ دو
بارش کو خون کے آنسوؤں سے کوئی نسبت نہیں


شاد اے دل کہ فردا برسر بازار عشق
مژدۂ قتل ست گرچہ وعدئے دیدار نیست

اے دل خوش ہو جاکہ آنے والے کل کو بازار عشق میں
تیرے لئے قتل کی خوشخبری ہے مگر دیدار کا دعدہ نہیں


خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست

لوگ مجھے کہتے ہیں کہ خسرو بتوں کو پوجتا ہے
ہاں ہاں میں ایسے کرتا ہوں دنیا والوں کو ہم سے کوئی کام نہیں

حضرت امیر خسروؒ
 
آخری تدوین:
ٹھیک ہے بھائی۔مدیر صاحب سے گزارش کر کے دونوں لڑیاں یکجا کروا لیتے ہیں۔
محمد خلیل الرحمٰن سر مہربانی فرمائیں۔میری لڑی کو پرانی لڑی میں ضم کر دیں۔شکریہ
 

الف نظامی

لائبریرین
ٹھیک ہے بھائی۔مدیر صاحب سے گزارش کر کے دونوں لڑیاں یکجا کروا لیتے ہیں۔
محمد خلیل الرحمٰن سر مہربانی فرمائیں۔میری لڑی کو پرانی لڑی میں ضم کر دیں۔شکریہ
مقطع کا دوسرا مصرع اس طرح ہے
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست
 
Top