مسلم لیگ ن کی حکومت نے دیگر پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ترامیم کرتے ہوئے کئی اہم خانے (کالم)ختم کر دئیے تھے۔
ان میں :
آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے تحت امیدواروں سے سکروٹنی کے حوالے سے متعلقہ شقیں پر عملدرآمد کو نامزدگی فارم سے باہر رکھا گیا۔ ان ترامیم کا واحد مقصد دو نمبر، کرپٹ، ٹیکس ڈیفالٹرز اور دوہری شہریت رکھنے والے لوگوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کا راستہ ہموار کرنا نظر آتا ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ جو چیزیں دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے نامزدگی فارم میں شامل تھیں، اس بار انہیں بھی کمال ڈھٹائی سے اڑا دیا گیا ۔ افسوس کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کیا گیا اور دیگر جماعتیں بھی استعمال ہوئی ہیں، مجھے واضح علم نہیں کہ اپوزیشن کا کیا کردار رہا، مگر وہ اس پر خاموش رہے یا ووٹ دیا تو ان کا آشیرباد حاصل تھا. شرمناک بات ہے تمام جماعتوں کے لیے.
یہ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی۔ الیکشن کمیشن چاہتا تھا کہ امیدواروں کے جو کاغذات نامزدگی آئیں، ان کی سکروٹنی کے لئے نیب، سٹیٹ بینک، ایف بی آر، یوٹیلیٹی کے ادارے واپڈا، گیس ، واسا وغیرہ بروقت معلومات دیں اور نادرہ اس حوالے سے سافٹ وئیر بنا کر ان معلومات کو منظم طریقے سے بروقت فراہمی کرے تاکہ ڈیفالٹر اور کرپشن میں ملوث افراد کو سکروٹنی ہی میں نااہل کیا جا سکے۔ ن لیگی حکومت نے نامزدگی فارم میں ترامیم کر کے ان خانوں ہی کوختم کر دیا تھا۔
اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر جسٹس عائشہ اےملک نے انتالیس صفحات کا آج شام کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں یہ کہا گیا کہ کاغذات نامزدگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرنا الیکشن کمیشن کا حق ہے، یہ حق وفاق کو نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنے مبسوط فیصلے میں سپریم کورٹ کے کئی وقیع فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ووٹر کا یہ حق ہے کہ اسے اپنے امیدوار کے حوالے سے یہ بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔ نہ صرف اس کا ماضی، اس کے مالی معاملات بلکہ اگر وہ پہلے رکن اسمبلی رہا ہےتو وہاں اس کی کارکردگی کے حوالے سے بھی ووٹر کو علم ہو تاکہ وہ جان سکے کہ اس کے نمائندے نے اسمبلی میں کس حد تک فعال کردار ادا کیا۔ یہ شاندار فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائیٹ پر جمعہ کی شام چھ بجے ڈال دیا گیا۔
اس موضوع پر ان شااللہ کالم لکھنے کا ارادہ ہے، ابھی یہ فیصلہ پڑھ رہا ہوں، تاہم دو معروف قانون دانوں کے ساتھ گفتگو کے بعد یہ سٹیٹس لکھا ہے۔
مزے کی بات ہے اس کیس کا نام ہمارے دوست اینکر، کالم نگار حبیب اکرم بنام فیڈریشن آف پاکستان ہے۔
(عامر ہاشم خاکوانی)
ان میں :
- امیدوارکو ماضی میں ملنے والی کسی جرم کی سزا
- ٹیکس چوری
- بجلی، گیس وغیرہ کے بلوں کا ڈیفالٹر ہونا
- دہری شہریت بتانے کی پابندی
- یہ بتانا کہ میرے اوپر انحصار کرنے والے(ڈیپنڈنٹ)کتنے ہیں ، وغیرہ جیسے اہم معلومات شامل ہیں۔
آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے تحت امیدواروں سے سکروٹنی کے حوالے سے متعلقہ شقیں پر عملدرآمد کو نامزدگی فارم سے باہر رکھا گیا۔ ان ترامیم کا واحد مقصد دو نمبر، کرپٹ، ٹیکس ڈیفالٹرز اور دوہری شہریت رکھنے والے لوگوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کا راستہ ہموار کرنا نظر آتا ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ جو چیزیں دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے نامزدگی فارم میں شامل تھیں، اس بار انہیں بھی کمال ڈھٹائی سے اڑا دیا گیا ۔ افسوس کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کیا گیا اور دیگر جماعتیں بھی استعمال ہوئی ہیں، مجھے واضح علم نہیں کہ اپوزیشن کا کیا کردار رہا، مگر وہ اس پر خاموش رہے یا ووٹ دیا تو ان کا آشیرباد حاصل تھا. شرمناک بات ہے تمام جماعتوں کے لیے.
یہ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی۔ الیکشن کمیشن چاہتا تھا کہ امیدواروں کے جو کاغذات نامزدگی آئیں، ان کی سکروٹنی کے لئے نیب، سٹیٹ بینک، ایف بی آر، یوٹیلیٹی کے ادارے واپڈا، گیس ، واسا وغیرہ بروقت معلومات دیں اور نادرہ اس حوالے سے سافٹ وئیر بنا کر ان معلومات کو منظم طریقے سے بروقت فراہمی کرے تاکہ ڈیفالٹر اور کرپشن میں ملوث افراد کو سکروٹنی ہی میں نااہل کیا جا سکے۔ ن لیگی حکومت نے نامزدگی فارم میں ترامیم کر کے ان خانوں ہی کوختم کر دیا تھا۔
اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر جسٹس عائشہ اےملک نے انتالیس صفحات کا آج شام کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں یہ کہا گیا کہ کاغذات نامزدگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرنا الیکشن کمیشن کا حق ہے، یہ حق وفاق کو نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنے مبسوط فیصلے میں سپریم کورٹ کے کئی وقیع فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ووٹر کا یہ حق ہے کہ اسے اپنے امیدوار کے حوالے سے یہ بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔ نہ صرف اس کا ماضی، اس کے مالی معاملات بلکہ اگر وہ پہلے رکن اسمبلی رہا ہےتو وہاں اس کی کارکردگی کے حوالے سے بھی ووٹر کو علم ہو تاکہ وہ جان سکے کہ اس کے نمائندے نے اسمبلی میں کس حد تک فعال کردار ادا کیا۔ یہ شاندار فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائیٹ پر جمعہ کی شام چھ بجے ڈال دیا گیا۔
اس موضوع پر ان شااللہ کالم لکھنے کا ارادہ ہے، ابھی یہ فیصلہ پڑھ رہا ہوں، تاہم دو معروف قانون دانوں کے ساتھ گفتگو کے بعد یہ سٹیٹس لکھا ہے۔
مزے کی بات ہے اس کیس کا نام ہمارے دوست اینکر، کالم نگار حبیب اکرم بنام فیڈریشن آف پاکستان ہے۔
(عامر ہاشم خاکوانی)
آخری تدوین: