کاغذات نامزدگی میں ترامیم

الف نظامی

لائبریرین
مسلم لیگ ن کی حکومت نے دیگر پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ترامیم کرتے ہوئے کئی اہم خانے (کالم)ختم کر دئیے تھے۔
ان میں :
  • امیدوارکو ماضی میں ملنے والی کسی جرم کی سزا
  • ٹیکس چوری
  • بجلی، گیس وغیرہ کے بلوں کا ڈیفالٹر ہونا
  • دہری شہریت بتانے کی پابندی
  • یہ بتانا کہ میرے اوپر انحصار کرنے والے(ڈیپنڈنٹ)کتنے ہیں ، وغیرہ جیسے اہم معلومات شامل ہیں۔

آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے تحت امیدواروں سے سکروٹنی کے حوالے سے متعلقہ شقیں پر عملدرآمد کو نامزدگی فارم سے باہر رکھا گیا۔ ان ترامیم کا واحد مقصد دو نمبر، کرپٹ، ٹیکس ڈیفالٹرز اور دوہری شہریت رکھنے والے لوگوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کا راستہ ہموار کرنا نظر آتا ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ جو چیزیں دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے نامزدگی فارم میں شامل تھیں، اس بار انہیں بھی کمال ڈھٹائی سے اڑا دیا گیا ۔ افسوس کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کیا گیا اور دیگر جماعتیں بھی استعمال ہوئی ہیں، مجھے واضح علم نہیں کہ اپوزیشن کا کیا کردار رہا، مگر وہ اس پر خاموش رہے یا ووٹ دیا تو ان کا آشیرباد حاصل تھا. شرمناک بات ہے تمام جماعتوں کے لیے.

یہ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی۔ الیکشن کمیشن چاہتا تھا کہ امیدواروں کے جو کاغذات نامزدگی آئیں، ان کی سکروٹنی کے لئے نیب، سٹیٹ بینک، ایف بی آر، یوٹیلیٹی کے ادارے واپڈا، گیس ، واسا وغیرہ بروقت معلومات دیں اور نادرہ اس حوالے سے سافٹ وئیر بنا کر ان معلومات کو منظم طریقے سے بروقت فراہمی کرے تاکہ ڈیفالٹر اور کرپشن میں ملوث افراد کو سکروٹنی ہی میں نااہل کیا جا سکے۔ ن لیگی حکومت نے نامزدگی فارم میں ترامیم کر کے ان خانوں ہی کوختم کر دیا تھا۔

اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر جسٹس عائشہ اےملک نے انتالیس صفحات کا آج شام کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں یہ کہا گیا کہ کاغذات نامزدگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرنا الیکشن کمیشن کا حق ہے، یہ حق وفاق کو نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنے مبسوط فیصلے میں سپریم کورٹ کے کئی وقیع فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ووٹر کا یہ حق ہے کہ اسے اپنے امیدوار کے حوالے سے یہ بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔ نہ صرف اس کا ماضی، اس کے مالی معاملات بلکہ اگر وہ پہلے رکن اسمبلی رہا ہےتو وہاں اس کی کارکردگی کے حوالے سے بھی ووٹر کو علم ہو تاکہ وہ جان سکے کہ اس کے نمائندے نے اسمبلی میں کس حد تک فعال کردار ادا کیا۔ یہ شاندار فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائیٹ پر جمعہ کی شام چھ بجے ڈال دیا گیا۔
اس موضوع پر ان شااللہ کالم لکھنے کا ارادہ ہے، ابھی یہ فیصلہ پڑھ رہا ہوں، تاہم دو معروف قانون دانوں کے ساتھ گفتگو کے بعد یہ سٹیٹس لکھا ہے۔
مزے کی بات ہے اس کیس کا نام ہمارے دوست اینکر، کالم نگار حبیب اکرم بنام فیڈریشن آف پاکستان ہے۔

(عامر ہاشم خاکوانی)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
الیکشن کمیشن نے تمام ریٹرننگ افسران کو نامزدگی فارم جاری کرنے سے روک دیا ہے۔ حکام کے مطابق اب عدالتی حکم کی روشنی میں نیا فارم تیار ہو گا اور کاغذاتِ نامزدگی فارم کے اجرا اور وصولی کی تاریخوں میں ردوبدل پر بھی غور ہو گا۔

حکومت نے الیکشن کمیشن کے اعتراضات رد کرتے ہوئے نیا کاغذات نامزدگی فارم تیار کیا تھا جس میں قرضوں، مقدمات، دوہری شہریت، تین سالہ ٹیکس کی معلومات، تعلیم، پیشہ اور ڈیفالٹر کے کالم ختم کر دیئے گئے تھے۔ عدالت نے فارم میں کی گئی تمام تبدیلیوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
34274694_1755590461185133_8371504061542825984_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
کاغذات نامزدگی.... سب مایا ہے
آصف محمود

کاغذات نامزدگی میں کی گئی تبدیلیاں اس وقت زیر بحث ہیں ۔ کیا ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ کاغذات نامزدگی میں یہ خوفناک تبدیلیاں کیسے واقع ہوئیں اورکیاہمیں معلوم ہے قانون سازی کے نام پر کی گئی اس واردات میں کون کون ملوث ہے؟ کیا اس واردات میں صرف مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ملوث ہیں یا یہ قوم کے ساتھ کی گئی ایک اجتماعی واردات تھی جس میں حکمرانوں کی تجربہ کاری کے ساتھ ساتھ صالحین کا زہد و تقوی اور نونہالان انقلاب کا جنون بھی مکمل طور پر شریک تھے؟

کھڑے کھڑے یہ قانون سازی نہیں ہوئی۔ یہ ترمیمی مسودہ پارلیمان کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کو بھیجا گیا ۔ یہ کمیٹی ایک طویل عرصہ اس پر غور فرماتی رہی ۔ اس کمیٹی میں صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی شامل نہیں تھیں ۔ اس میں جے یو آئی کی نعیمہ کشور بھی تھیں ۔ اس میں جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ بھی تھے ۔ اس میں تحریک انصاف کے شفقت محمود ، شیریں مزاری اور عارف علوی بھی موجود تھے ۔ اس میں اعجاز الحق بھی موجود تھے ۔ کیا ان سب میں سے کسی ایک نے بھی اس قانون کی مخالفت کی ؟ کیا کسی ایک نے بھی پریس کانفرنس کر کے قوم کو بتانے کی ضرورت محسوس کی کہ تمہارے منتخب نمائندے تمہارے ساتھ یہ واردات کر نے جا رہے ہیں؟ کیا ان میں کسی ایک کو بھی یہ توفیق ہو سکی کہ وہ اس واردات کے خلاف رائے عامہ ہموار کرتا اور اسے ناکام بناتا؟

کاغذات نامزدگی میں یہ ترمیم سب نے مل کر کی ۔ ترمیم سے قبل امیدواران سے کچھ سوالات پوچھے جاتے تھے۔امیدواران کو بتانا پڑتا تھا کہ وہ ٹیکس چوری میں تو ملوث نہیں ، یوٹیلیٹی بلز ادا کر رکھے ہیں کہ نہیں، دوہری شہریت تو نہیں رکھتے، ان کے خلاف مقدمات تو قائم نہیں ، وہ سزا یافتہ تو نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ آج صالحین سے لے کر نونہالان انقلاب تک سبھی رونی سی صورت بنا کر دہائی دے رہے ہیں کہ دیکھیے کیا ظلم ہو گیا لیکن سچ یہ ہے کہ ان سوالات کو پارلیمان میں ان تمام جماعتوں نے مل کر ختم کیا. درویشوں کے کمالات دیکھیے سارے سوالنامے کو اپنے دست مبارک سے کاٹ کر پھینک دینے کے بعد اب امیر جماعت قبلہ سراج الحق فرما رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے مطابق امیدواروں کی جانچ پڑتال کرے۔

ایسا بھی نہیں ہوا کہ یہ قانون سازی خاموشی سے ہو گئی اور پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے ان عظیم نابغوں کو اس واردات کا احساس نہ ہو سکا۔ جب مقدس پارلیمان میں قوم کے یہ عظیم رہنما مل جل کر یہ واردات ڈال رہے تھے الیکشن کمیشن مسلسل شور مچاتا رہا کہ آپ غلط کر رہے ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ شور صالحین کے کانوں تک پہنچ سکا نہ نونہالان انقلاب کے کانوں تک۔

الیکشن کمیشن نے انہیں بتایا کہ آرٹیکل 222 کی رو سے پارلیمان ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں آتا ہو ۔الیکشن کمیشن انہیں سمجھاتا رہا کہ عالی جاہ کاغذات نامزدگی تیار کرناآپ کا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے ۔الیکشن کمیشن نے انہیں یہ بھی بتایا کہ مارچ2013 میں سپریم کورٹ اس معاملے میں فیصلہ بھی دے چکی ہے اور جن کاغذات نامزدگی کو آپ تبدیل کر رہے ہیں سپریم کورٹ اس کی توثیق کر چکی ہے۔الیکشن کمیشن نے انہیں یہ بھی سمجھایا کہ آرٹیکل 218 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت یہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ انتخابات کا شفاف طریقے سے انعقاد کرائے ، دیانت داری سے اور منصفانہ طریقے سے کرائے اور اس میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کو روکے ۔ الیکشن کمیشن نے ان سے یہ درخواست بھی کہ کاغذات نامزدگی میں یہ سوالات اسی لیے رکھے گئے ہیں کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 218 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت اپنے فرائض ادا کر سکے ۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے تو بد نیتی سے الیکشن کمیشن کی بات نہیں سنی ہو گی ۔ سوال یہ ہے کہ صالحین کا زہد و تقوی اور نونہالان انقلاب کی تبدیلی کہاں چلی گئی تھیں کہ وہ بھی الیکشن کمیشن کی بات نہ سن سکیں؟

دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ یا تو آپ نا اہل تھے اور اس قابل نہ تھے کہ پارلیمان کا حصہ بنتے یا پھر آپ بد دیانت تھے اور جانتے بوجھتے اس گندے کھیل کا حصہ بن گئے ۔ یہ رہنمائی اب سراج الحق اور عمران خان خود ہی فرمائیں کہ معاملہ نا اہلی کا تھا یا بد دیانتی کا۔ دعوے تو آسمانوں کو چھو رہے ہیں لیکن کارکردگی شرمناک ہے۔ حکومت نے الیکشن میں ختم نبوت کے قانون کو بدل دیا کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ جب شیخ رشید چیخا تو معلوم ہوا کیا واردات ڈال دی گئی ۔ اس کے بعد فتح کے علم لہرانے دوسرے آ گئے۔جماعت اسلامی نے کہا یہ کمال تو ہمارے صاحبزادہ طارق اللہ صاحب کا ہے اور جے یو آئی نے کہا مرد میدان تو حافظ حمد اللہ ہیں ۔ اس کے بعد حکومت نے کاغذات نامزدگی سے سوالنامہ اڑا دیا آپ سب نے دستخط کر دیے ۔کیسے مان جائیں کہ آپ اس واردات کا حصہ نہیں ہیں؟ آپ کو قوم نے اسمبلی میں اس لیے نہیں بھیجا کہ آپ یہاں تشریف ہی نہ لائیں مگر تنخواہیں ساری کھا جائیں یا آپ آئیں تو صرف سیر و تفریح کے لیے اور آپ کو معلوم ہی نہ ہو آپ کس قانون پر دستخط کر رہے ہیں ۔ یہ غیر سنجیدگی کب تک؟ دعوے تو ایسے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے گندم کی فصل اچھی ہو جائے تو یہ بھی سراج الحق اور عمران خان کی بصیرت کی وجہ سے ممکن ہوا لیکن کارکردگی پست سے بھی بد تر۔

یہ سب مل کر کسے بے وقوف بنا رہے ہیں؟ پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے یہ ترامیم صرف پارلیمان کا استحقاق ہے اور ایاز صادق بھی یہی دعوی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک ہمیشہ الیکشن کمیشن ہی تھا جو کاغذات نامزدگی تیار کرتا رہا۔اگر یہ پارلیمان کا استحقاق تھا تو اب تک یہ کام الیکشن کمیشن کیوں کرتا رہا؟ یہ اگر پارلیمان کا کام تھا تو آرٹیکل 222 میں واضح طور پر کیوں لکھ دیا گیا ہے کہ پارلیمان ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہو۔کیا آرٹیکل 218 کی رو سے یہ الیکشن کمیشن کا دائرہ کار نہیں ہے؟ عجیب تماشا ہے۔ کہا جا رہا ہے یہ سب الیکشن میں تاخیر کی سازش ہے۔ کون سی تاخیر اور کاہے کی سازش ؟ الیکشن کمیشن کے نمائندے نے تو عدالت میں کہہ دیا کہ سوالنامے میں یہ سب سوال شامل کر کے نئے کاغذات نامزدگی کی تیاری کے لیے صرف 7 دن درکار ہیں ۔ یاروں نے اس میں الیکشن کے التواء کی سازش کہاں سے ڈھونڈ نکالی؟

تو کیایہ سب ایک ہی تھالی کے ہیں ۔ کوئی چٹا ہے کوئی بٹا؟ سب نے دیکھا کہ قانون متحرک ہو رہا ہے ۔ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ معاشرہ بیدار ہو رہا ہے۔ سوالنامہ سخت ہے کوئی جھوٹ پکڑا گیا تو نا اہل ہو جائیں گے۔ چنانچہ سب نے مل کر طے کیا کہ اس وقت آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو ختم کرنا تو ممکن نہیں البتہ ایک اور راستے سے واردات ڈال دیتے ہیں کہ باسٹھ تریسٹھ کے پیمانوں پر ہمیں پرکھنے کے لیے جو سوالات الیکشن کمیشن نے بنائے ہیں انہیں ختم کر دیتے ہیں ۔ نہ سوال ہو گا نہ ہم جھوٹ بولیں گے ۔ اور جب ہم نے جھوٹ بولا ہی نہیں ہو گا تو ہم صادق اور امین کیسے قرار نہیں دیے جائیں گے ۔ جو چیز ہم سے پوچھی ہی نہیں گئی اسے چھپانے پر ہم کیسے نا اہل ہو سکتے ہیں ۔

کاغذات نامزدگی میں یہ تبدیلی پارلیمان کی مشترکہ واردات ہے۔ عام آدمی پھٹی آنکھوں سے اس واردات کو دیکھ رہا ہے اور زیر لب گنگنا رہا ہے:
’’یار میں اتنا بھوکا ہوں
دھوکہ بھی کھا لیتا ہوں‘‘
 

فلک شیر

محفلین
سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اب
بسہولت وہ اضافی معلومات مانگنے کو کہہ سکتی ہے الیکشن کمیشن کو ، تاکہ الیکشن کا عمل بھی متاثر نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ یہ معاملہ بھی چلتا رہے۔ جج سوچتے ہیں کہ الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر ہوئی، تو "سازش سازش" والے احباب انہیں بہت ذلیل کریں گے، سو وہ اپنی سائیڈ سیف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہہے ہیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اب
بسہولت وہ اضافی معلومات مانگنے کو کہہ سکتی ہے الیکشن کمیشن کو ، تاکہ الیکشن کا عمل بھی متاثر نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ یہ معاملہ بھی چلتا رہے۔ جج سوچتے ہیں کہ الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر ہوئی، تو "سازش سازش" والے احباب انہیں بہت ذلیل کریں گے، سو وہ اپنی سائیڈ سیف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہہے ہیں ۔
اتنی مشکل پسندی کاہے کو، آرڈر کریں کہ پرانے کاغذاتِ نامزدگی بحال اور وہی استعمال کیے جائیں۔
ایسی کی تیسی اس کرپٹ مافیا کی جو 62 اور 63 سے جان چھڑانے کے لیے فنکاریاں کر رہے ہیں۔
طاہر القادری ٹھیک کہتا تھا کہ اس نظام میں سو الیکشن بھی حالات کی بہتری کی ضمانت نہیں دیں گے جب تک آپ انتخابی نظام کو درست نہیں کرتے۔
 
Top