غزل قاضی
محفلین
کارواں
اِسی طرف سے زمانے کے قافلے گُزرے
سکُوت ِ شام ِ غریباں کے خلفشار میں گُم
ذرا سا راگ خموشی کے دوش پر لرزاں
ذرا سی بوُند پُر اسرار آبشار میں گُم
گھنے اندھیرے میں گُمنام راہ رَو کی طرح
کوئی چراغ چمکتی ہُوئی قطار میں گُم
فضا میں سوئی ہُوئی گھنٹیوں کی آوازیں
ستارے نِیل کی خاموش جُوئبار میں گُم
سُلگتے پیار کی شِدت سے کانپتے ہُوئے ہونٹ
کِسی کی وعدہ وفائی کے اِعتبار میں گُم
نہ جانے کِتنی اُمیدیں اُفق سے آنکھ لگائے
سحر کی آس میں فردا کے اِنتطار میں گُم
مصطفیٰ زیدی
از قبائے سَاز