کئی برسوں کا یہ زخم بھرنے دن لگیں گے ۔ غیاث متین

عندلیب

محفلین
کئی برسوں کا یہ زخم، بھرنے دن لگیں گے
سنبھلتے ہی سنبھلوں گا، سنبھلنے دن لگیں گے

جہاں اشکوں کی بارش کو یہ کاغذ جذب کرلے
قلم کی چشم نم کو کھل کر ہنسنے دن لگیں گے

ابھی تو آسمان خموش ہے، پھر رنگ دیکھو
زمیں کو اک نئی کروٹ بدلنے دن لگیں گے

بچھڑتے وقت آنسو روک کر وہ ہنس رہا تھا
یہ منظر آنکھ کے پردے سے ہٹنے دن لگیں گے

کتابِ زندگی اُلٹی اگر تھامے رہو گے
سمجھنا دور کی ہے بات پڑھنے دن لگیں گے

ابھی تو بس کنارے ہی کنارے تیرتا ہوں
مجھے گہرے سمندر میں اترنے دن لگیں گے

عجیب لہجہ ہے میر و غالب و ناصر کا لہجہ
ہمیں تو گرد تک اس کی پہنچنے دن لگیں گے

چلو چل کر دریچوں سے ذرا باتیں ہی کرلیں
متین اس کی گلی سے پھر گزرنے دن لگیں گے
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
مگر قوافی تو غلط ہیں؟؟؟ اور ردیف کے شروع میں بھی لفظ "میں" کی کمی محسوس ہوتی ہے ؟ اور شاید ٹائپو بھی ہے جیسے سنبھلتے کی بجائے سنبھلنے کا محل ہے
 
چلو چل کر دریچوں سے ذرا باتیں ہی کرلیں
متین اس گلی سے پھر گزرنے دن لگیں گے
"میں" کی کمی کی طرف ابنِ رضا بھائی نے اشارہ کیا ہے مجھے بھی بہت شدت سے یہی محسوس ہوا۔ خیال آیا کہ شاید کسی خاص علاقے میں اس طرح رواج ہو۔ جہاں کا آپ نے بتایا وہاں تو شاید ایسا نہیں ہے
کیونکہ "میں" کے بغیر معنویت میں فرق آتا ہے مقطع میں دیکھیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا
محبوب کی گلی سے دن گزرنے لگیں گے
جبکہ کہا یہ گیا ہے کہ
ان کی گلی سے گزرنے میں کچھ مدت لگے گی
 

عندلیب

محفلین
"میں" کی کمی کی طرف ابنِ رضا بھائی نے اشارہ کیا ہے مجھے بھی بہت شدت سے یہی محسوس ہوا۔ خیال آیا کہ شاید کسی خاص علاقے میں اس طرح رواج ہو۔ جہاں کا آپ نے بتایا وہاں تو شاید ایسا نہیں ہے
کیونکہ "میں" کے بغیر معنویت میں فرق آتا ہے مقطع میں دیکھیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا
محبوب کی گلی سے دن گزرنے لگیں گے
جبکہ کہا یہ گیا ہے کہ
ان کی گلی سے گزرنے میں کچھ مدت لگے گی
جی جناب معذرت غلطی میری تھی ۔۔ درست کردیا ہے میں نے۔
 
کئی برسوں کا یہ زخم، بھرنے دن لگیں گے
سنبھلتے ہی سنبھلوں گا، سنبھلنے دن لگیں گے

جہاں اشکوں کی بارش کو یہ کاغذ جذب کرلے
قلم کی چشم نم کو کھل کر ہنسنے دن لگیں گے

ابھی تو آسمان خموش ہے، پھر رنگ دیکھو
زمیں کو اک نئی کروٹ بدلنے دن لگیں گے

بچھڑتے وقت آنسو روک کر وہ ہنس رہا تھا
یہ منظر آنکھ کے پردے سے ہٹنے دن لگیں گے

کتابِ زندگی اُلٹی اگر تھامے رہو گے
سمجھنا دور کی ہے بات پڑھنے دن لگیں گے

ابھی تو بس کنارے ہی کنارے تیرتا ہوں
مجھے گہرے سمندر میں اترنے دن لگیں گے

عجیب لہجہ ہے میر و غالب و ناصر کا لہجہ
ہمیں تو گرد تک اس کی پہنچنے دن لگیں گے

چلو چل کر دریچوں سے ذرا باتیں ہی کرلیں
متین اس کی گلی سے پھر گزرنے دن لگیں گے
کچھ اشعار میں ٹائپو ہے۔ شاید وہ یوں ہوں، بہنا! پھر دیکھ لیجیے

کئی برسوں کا ہے یہ زخم بھرنے دن لگیں گے
سنبھلتے ہی میں سنبھلوں گا، سنبھلنے دن لگیں گے

ابھی تو آسماں خاموش ہے، پھر رنگ دیکھو
زمیں کو اک نئی کروٹ بدلنے دن لگیں گے

عجب لہجہ ہے میر و غالب و ناصر کا لہجہ
ہمیں تو گرد تک اس کی پہنچنے دن لگیں گے

رہا ردائف و قوافی کا سوال تو اس کے لیے اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ دکن کی ’معیاری اردو‘ ہے۔ یہاں اکثر ’کے لئے‘ حذف کر دیا جاتا ہے۔ مجھے بھی شروع شروع میں اخبارات میں ایسا استعمال سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ پڑھتے پڑھتے معلوم ہو گیا کہ حیدر آبادیوں نے ’کے لئے یا ’کبھی بھی محض ’کا‘ حذف کر دیا ہے۔ خبروں میں آتا ہے، ’’گائے کے گوشت پر امتناع کرنے فیصلہ‘۔
جب پہلی بار یہ غزل سنی تھی تو اس وقت میں بھی سمجھ نہیں سکا تھا۔
یہ تو مسئلہ ہو گیا زمین کا۔ اور اس کے بارے میں میری رائے۔
قوافی البتہ کچھ ثقہ عروضیوں کے حساب سے غلط ہیں، کچھ درست مان لیتے ہیں۔
 
Top