ڈینگی۔۔۔۔۔۔ایک تعارف

ازل سے انسان، اشرف المخلوقات کی کچھ مخلوقات سے دشمنی چلی آ رہی ہے، مچھر ان میں سے ایک ہے۔ نسبتا بے ضرر سا کیڑا، جسے شائد کسی دور میں خاص اہمیت حاصل نہ ہو سکی۔ حضرت انسان کے دشمنوں میں مچھر کو حقیر خیال کیا جاتا رہا، تبھی شاعر نے بھی کہہ ڈالا:
مچھر کاٹے ہاتھوں سے مسل دیتے ہیں
سانپ سامنے ہو،رستہ ہی بدل دیتے ہیں​
لیکن دورِ حاضر کے جدید مچھر ڈینگی نے جنگ کا پانسہ ہی بدل ڈالا۔ اب سانپ کا ڈر ہو نہ ہو، مچھر کا خوف ہر دل میں سمایا ہے۔ کیا امیر کیا غریب، کیا بوڑھے کیا جواں، سبھی اس کے نام سے لرزاں ہیں۔ کم بخت ہے بھی تو لاعلاج اور مچھروں والی کوئی بات بھی نہیں اس میں۔ نہ سہی سریلے راگ الاپتا ہے، نہ کوئی الٹی میٹم، سیدھا حملہ آور ہو جاتا ہے اور ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ ڈینگی نے مچھروں کا امیج ہی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

ایک دور تھا مچھر گندے پانی کے جوہڑوں پہ راج کرتے، سیاہی مائل پانی میں ڈبکیاں لگاتے عمر بتاتے تھے۔ کبھی بھوک ستاتی تو جوہڑ کنارے کھیلتے ننگ ڈھڑنگ بچوں کی بلائیں لیتے یا پھر گندے پانی سے کپڑے دھوتی مائیوں سے بوس و کنار پہ اکتفا کرتے۔ زیادہ موج مستی کا موڈ ہوتا تو آس پاس کی آبادیوں میں جا نکلتے، پنکھوں تلے لیٹے صاحبوں کے آرام میں مخل ہوتے یا پھر پردہ نشینوں کو چھیڑ کے واپس ہو لیتے۔ پوش آبادیوں کے مکین اور نازک اندام حسینائیں ان کی دست برد سے یکسر محفوظ تھے۔ مچھروں کی یلغار کچی آبادیوں ار گندی بستیوں تک محدود تھی۔ صاف ستھرے علاقوں میں ان کا دم گھٹتا تھا۔۔۔۔ بالکل اس چمڑہ فروش کی طرح جسے عطاروں کے محلے میں غش آ جایا کرتا تھا۔ سو اربابِ اقتدار بھی مطمئن تھے کہ مچھر کی ان تک رسائی نہ تھی اور جن تک رسائی تھی، ان کی اربابِ اقدار کے ہاں شنوائی نہ تھی۔

لیکن برا ہو اس گلیمرائزیشن اور کمرشلائزیشن کا، ڈینگی نامی مچھر بھی ترقی پسند اور روشن خیال ہو گیا۔ اسے اب گندے پانی کی جگہ منرل واٹر چاہیے۔ جوہڑ کی بدبو اس کے حواس معطل کر دیتی ہے، تبھی پوش علاقوں میں جا بسا۔ میڈیا نے اسے اتنا باشعور بنا دیا ہے، یہ اب کالی بھجنگ چمڑی کا عاشق نہیں رہا، نیٹ سے جھلکتی گوری بانہوں اور ٹراوزر میں سے جھانکتی آدھی پنڈلیوں پر مر مٹا ہے۔ اور یہیں سے اس کی اربابِ اقتدار و اختیار سے مخاصمت کا آغاز ہوا۔ اربابِ اقتدار اس کی گستاخیوں پہ سبق سکھانے کو تیار ہیں تو ڈینگی بھی ’نہ چھیڑ ملنگاں نوں‘ کا تعرہ لگا کر میدان میں کود پڑا ہے۔
لکھنے کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ ایک ڈینگی جھومتا ہوا نوکِ قلم پہ آ کے بیٹھ گیا۔ ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہو میاں ڈینگی کیسے آنا ہوا۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا مجھے میاں کہنا تمھیں بہت مہنگا پڑ سکتا ہے، سمجھ ہی گئے ہو گے۔۔۔۔ چپ کرو گستاخ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ خادمِ اعلیٰ تو دن رات تمھارے خلاف جہاد میں مصروف ہیں۔ تم اپنی بات کرو، بڑے بہادر بنتے ہو اور چھپ کر وار کرتے ہو شرم آنی چاہیے تمھیں۔۔۔۔ ارے واہ صاحب میں اور چھپ کر وار کروں، وہ کوئی اور ہوں گے۔ چھپ کر وار کرنے والے اے آسماں نہیں ہیں ہم۔۔۔۔ لیکن بہادر تو للکار کر وار کیا کرتے ہیں۔۔۔۔ارے صاحب چھوڑو سوئے ہوئے آدمی کو للکارنا چہ معنی! اور میں تو تمھارے ہوش کی حالت میں جھپٹتا ہوں، رہا الٹی میٹم تو ہم دشمن ہیں اور یہ بات تمھیں بھی یاد ہونی چاہیے۔ اف کتنی گندگی ہے یہاں، میرا دم گھٹ رہا ہے، میں تو چلا۔

ڈینگی تو چلا گیا لیکن کام کی بات کر گیا۔ میں حیران ہوں ہمارے اربابِ اختیار کو اتنی سیدھی بات کیوں نہ سجھائی دی۔ سیدھا سا حل ہے ڈینگی کا ٹھکانہ ہی مسمار کر دیا جائے۔۔۔۔ جی ہاں گندگی پھیلا کے۔ نہ ڈینگی مہم کا خرچہ نہ صفائی کے اخراجات، ساتھ میں ڈینگی سے تحفظ کا بونس بھی۔ تو آج سے ڈینگی مہم کا اشتہار کچھ یوں ہونا چاہیے۔۔۔۔ اب صفائی اپناو ڈینگی مکاو نہیں بلکہ گندگی پھیلاو ڈینگی بھگاو اور بہت دور بھگاو، اپنا خرچ بچاو اور حکومت کی سر دردی مکاو۔
ڈینگی مہم کو کامیاب کراو۔۔۔۔۔اپنے لئے قوم کے لئے
 
Top