ڈیرہ اسما عیل خان بم دھماکہ

محمد نعمان

محفلین
کل بروز جمعہ ایک خاص فرقے کے جنازے میں‌ ریموٹ‌ کنٹرول بم بھماکہ ہوا جس میں‌ چھ 6 افراد ہلاک ہوئے
اس واقعے کے بعد مقتولوں کے رشتہ داروں‌ اور جنازے میں شریک لوگوں نے غم و غصے کی وجہ سے آپنے حواس کھو دیے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کی زد میں آ کے کئی بے گناہ لوگ زخمی و شہید ہوئے۔۔۔۔
پولیس صرف لاشیں دھوتی رہی جبکہ پولیس کا کتنے ہی عرصے سے یہی رویہ ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں کتنی ہی مدت سے فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے ہیں مگر اب یہ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں
ہمارا شہر جو امن کا گہوارہ جانا جاتا تھا آج خوف و حراس میں ڈوبا ہوا ہے ، شام کے بعد پہلے لوگ گھروں سے نکلتے تھے اور خوبصورت دریائے سندھ کے کنارے جو دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں جا بیٹھتے تھے اب پورا شہر مغرب کی اذان ہوتے ہی خاموشی اور ڈر میں ڈوب جاتا ہے جبکہ امن قائم کرنے کی تمام کوششیں بےکار جا رہی ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے جبکہ ان فسادات کی کئی سالہ تاریخ کے باوجود ایک بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جبکہ قاتل دن دھاڑے سب کی موجودگی میں قتل کر کے آرام سے نکل جاتے ہیں‌۔ اور اگر پولیس کی گاڑی یا عملہ اگر آس پاس موجود بھی ہو تو عوام کے احتجاج کے باوجود بھی قاتلوں کی راہ راکنے کی جراءت نہیں‌ کرتے
 

arifkarim

معطل
آفرین ہے ان پاکستانیوں پر جو اس قدر خراب حالات کے باوجود بھی اسٹیبلیشمنٹ کو پیار کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں!!!
 

تیلے شاہ

محفلین
بس بھائی کیا پوچھتے ہیں جس بندے کا جنازہ تھا میں اسکو ذاتی طور پر جانتا تھا بہت دیانتدار اور محنت کش بندہ تھا(شاہد) سن کے بہت افسوس ہوا
اس بار پہلی دفع پاکستان اور پھر ڈیرہ جاکر بہت افسوس ہوا
اپنے شہر کو اس حال میں دیکھ کر رونا آیا
 

محمد نعمان

محفلین
شاہ بھائی بس کیا کہ سکتے ہیں ہمارہ ایک دوست جو اس جنازے میں شریک تھا اب وہ اتنے غصے میں ہے کہ بالکل آپے سے باہر ہو گیا ہے اور بدلہ لینے کی بات کر رہا ہے۔۔ وہ ضرور بدلہ لے مگر کس سے لے گا کیا وہ بھی کسی مظلوم کی جان لے کے اپنا غصہ اتارے گا
یہی سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں حالات ہماری سوچ سے بھی زیادہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں
خدا رحم کرے کسی کی بھی جان محفوظ‌ نہیں
 

arifkarim

معطل
بس بھائی کیا پوچھتے ہیں جس بندے کا جنازہ تھا میں اسکو ذاتی طور پر جانتا تھا بہت دیانتدار اور محنت کش بندہ تھا(شاہد) سن کے بہت افسوس ہوا
اس بار پہلی دفع پاکستان اور پھر ڈیرہ جاکر بہت افسوس ہوا
اپنے شہر کو اس حال میں دیکھ کر رونا آیا

بھائی جان بہت افسوس ہے۔ یہ دہشت گرد تو جنازوں تک کا حترام نہیں کرتے۔ بم مغرب بناتا ہے اور اسکی ٹیسٹنگ ہمارے یہاں ہوتی ہے :(
 

arifkarim

معطل
شاہ بھائی بس کیا کہ سکتے ہیں ہمارہ ایک دوست جو اس جنازے میں شریک تھا اب وہ اتنے غصے میں ہے کہ بالکل آپے سے باہر ہو گیا ہے اور بدلہ لینے کی بات کر رہا ہے۔۔ وہ ضرور بدلہ لے مگر کس سے لے گا کیا وہ بھی کسی مظلوم کی جان لے کے اپنا غصہ اتارے گا
یہی سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں حالات ہماری سوچ سے بھی زیادہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں
خدا رحم کرے کسی کی بھی جان محفوظ‌ نہیں

بھائی جس ملک میں چیف جسٹس ہی انصاف کیلئے مارا مارا پھر رہا ہو۔۔۔۔ وہاں عام انسانوں کو تحفظ کون دے گا؟ اگر کسی کیساتھ برا ہو اور وہ اسکا بدلا کسی اور کیساتھ برا کرکے لے تو اس طرح ایک برائی کا چکر چل پڑتا ہے جس میں سےنکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ایسے حالات میں اگر کوئی نیک دل دہشت گردوں کو معاف بھی کر دے تو کل کلاں کو وہ کہیں اور دھماکہ کر دیں گے۔۔۔۔ ایسی بےبسی جب سے دنیا بنی ہے، کبھی نظر نہیں آئی!
 

تیلے شاہ

محفلین
عزیزاللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ڈیرہ اسمعیل خان


صوبہ سرحد کا جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کبھی امن کا گہوارہ اور ڈیرہ ’پھلاں دا سہرا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اب ملک میں جاری بد امنی کی لہر نے اس شہر کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے۔آئے روز فرقہ وارانہ تشدد کے نام پر بے گناہ افراد کو قتل کیا جا تا ہے خودکش حملے کر دیے جاتے ہیں یا گنجان آباد علاقوں میں دھماکہ کر دیا جاتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں جنازے پر حملے یا دھماکے کے اب تین واقعے ہو چکے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد یا شیعہ سنی کا جھگڑا ڈیرہ میں نہیں تھا لیکن سن انیس سو چوراسی میں اچانک عاشورہ کے جلوس کو کمشنری بازار سے گزرنے نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد کبھی کبھار ایسے واقعات پیش آنے لگے یا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کسی نہ کسی رہنما کو ہلاک کر دیا جاتا تھا۔
پھولوں کے بازارم ڈیرہ اسماعیل خان کو ڈیرہ پھلاں دا سہرا کہا جاتا تھا۔ یہاں پھول زیادہ پیدا ہوتے تھے خصوصا چمبیلی اور گلاب اور آج بھی کلاں بازار میں چمبیلی موتیا اور گلاب کے پھول اور ان کے بنے ہار بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ڈیرہ اسماعیل خان میں میلے اور ثقافتی تقریبات کے علاوہ محلوں اور شہر کی سطح پر مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ میلہ اسپان کو اس علاقے میں کافی اہمیت حاصل رہی ہے جبکہ ڈیرہ کے مضافاتی علاقوں جیسے بلوٹ کا اپنا میلہ ہوتا ہے اور اس میلے کے دنوں میں ہندوؤں کے اپنے تہوار ہوتے رہے ہیں۔
مشاعروں میں شاعر مختلف زبانوں میں ڈیرہ اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں نظمیں اور گیت پیش کرتے تھے۔ عبدالمجید نازک مرحوم نے ایک پشتو نظم میں کہا ہے کہ ’سندھ سرا دہ خوا پخواہ پرتہ گلہ _ راشہ یو زل اوگورہ ڈیرہ گلہ‘(دریائے سندھ کے سنگم پر پڑا یہ ڈیرہ شہر ہے اور آؤ اس شہر کو ایک مرتبہ تم دیکھو، یہاں بازار اور تجارتی مرکز ہیں اور یہ شہر انتہائی خوبصورت ہے)۔
ڈیرہ اسماعیل خان کو ڈیرہ پھلاں دا سہرا کہا جاتا تھا۔ یہاں پھول زیادہ پیدا ہوتے تھے خصوصا چمبیلی اور گلاب اور آج بھی کلاں بازار میں چمبیلی موتیا اور گلاب کے پھول اور ان کے بنے ہار بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ دریا کنارے دریائے سندھ کے سنگم پر پڑا یہ ڈیرہ شہر ہے اور آؤ اس شہر کو ایک مرتبہ تم دیکھو، یہاں بازار اور تجارتی مرکز ہیں اور یہ شہر انتہائی خوبصورت ہےشاعر عبدالمجید نازک اب ڈیرہ وہ ڈیرہ نہیں رہا۔ یہاں آئے روز بم دھماکے ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے لوگ خوف کا شکار ہیں۔ کوئی تین ماہ پہلے جب میں ڈیرہ گیا تھا تو اتنا خوف میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا جتنا خوف اب لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ بازار جہاں صبح اور شام کے وقت پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی اب ایسے ویران پڑے تھے جیسے یہاں کوئی بستا ہی نہیں ہے۔
دریائے سندھ کے کنارے لوگ پکنک جسے مقامی زبان میں ’دھاونڑی‘ کہتے ہیں مناتے تھے، خود کھانے پکاتے اور دریا میں نہاتے تھے۔ اب صورتحال مختلف تھی۔ اب اس شہر کے دکاندار مزدور اور سرکاری ملازمین سب خوف زدہ ہیں کسی کو سنی سجھ کر اور کسی کو شیعہ سمجھ کر مار دیا جاتا ہے۔
اتنے افراد قتل ہو چکے ہیں لیکن اب تک ان واقعات میں ملوث نہ کوئی شخص گرفتار ہوا ہے اور ناں ہی کسی کو سزا دی گئی ہے۔ حکومت اور پولیس کی طرف سے جو بڑا قدم اٹھایا جاتا ہے وہ مقامی پولیس افسران کو تبدیل کر دینا ہوتا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان ایک چھوٹا شہر ہے یہاں لوگوں کا انحصار زراعت اور تجارت پر ہے۔ غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ مزدوری کرتے ہیں اور روزانہ کی کمائی روزانہ کے حساب سے خرچ کردیتے ہیں اس لیے ایک دن کی چھٹی ان کے لیے ایک دن کا فاقہ ہوتا ہے۔ چھٹی کا مطلب فاقہ ڈیرہ اسماعیل خان ایک چھوٹا شہر ہے یہاں لوگوں کا انحصار زراعت اور تجارت پر ہے۔ غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ مزدوری کرتے ہیں اور روزانہ کی کمائی روزانہ کے حساب سے خرچ کردیتے ہیں اس لیے ایک دن کی چھٹی ان کے لیے ایک دن کا فاقہ ہوتا ہےڈیرہ اسماعیل خان کے شمال مغرب میں جنوبی وزیرستان ہے جہاں گزشتہ سال فوجی آپریشن میں شدت آنے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کر کے ڈیرہ اسماعیل خان آگئے تھے اور اس شہر کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کارروائیوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے تو اس کا جواب انتہائی مشکل ہے کیونکہ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ ڈیرہ کے لوگوں میں نہیں ہے تو پھر وہ کونسی قوتیں ہیں جو اس طرح کی کارروائیوں سے فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
ارباب اختیار کا یہ فرض ہے کہ ایسے عناصر کی نشاندہی کر کے انھیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اس سلسلے میں اس شہر کے سیاسی قائدین جیسے مولانا فضل الرحمان اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی ان مسائل کے حال میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سیاسی سطح پر اس مسئلے کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے لوگ اب پنجاب کے شہر بھکر کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔
 

محمد نعمان

محفلین
ارباب اختیار کا یہ فرض ہے کہ ایسے عناصر کی نشاندہی کر کے انھیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اس سلسلے میں اس شہر کے سیاسی قائدین جیسے مولانا فضل الرحمان اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی ان مسائل کے حال میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پر انہیں یہ بتائے گا کون کہ وہ یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

سیاسی سطح پر اس مسئلے کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے لوگ اب پنجاب کے شہر بھکر کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔

اب تو نئی نسل کے تمام لوگ باےر ہی جانا پسند کرنے لگے ہیں بقول انکے اب ڈ یرہ میں‌ کچھ نہیں
 
Top