ڈنڈا بردار بھارتی اہلکاروں کو پیچھے ہٹانے والی یہ باحجاب لڑکی کون ہے؟

ڈنڈا بردار بھارتی اہلکاروں کو پیچھے ہٹانے والی یہ باحجاب لڑکی کون ہے؟
ویب ڈیسک19 دسمبر 2019
Facebook Count
Twitter Share
0

0
Translate
5dfb50da94423.jpg

عائشہ رینا جامعہ ملیہ میں ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: ممبئی مرر/ سی این این
بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاس کیے گئے


’متنازع شہریت ترمیمی بل‘ پر اگرچہ احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم دنیا بھر کے لوگ اب بھی 16 دسمبر کو دارالحکومت نئی دہلی کی معروف جامعہ ملیہ یونیورسٹی (جے ایم یو) کی طالبات کی جانب سے پولیس کے ساتھ ہونے والی کشیدگی کو نہیں بھولے۔

بھارتی پولیس نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں 15 دسمبر کی شب بغیر اجازت گھس گئی تھی اور ’متنازع شہریت قانون‘ پر احتجاج کرنے والے طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا۔

متنازع شہریت بل پر احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ کے زیادہ تر طلبہ اگرچہ مسلمان تھے تاہم ان کے ساتھ احتجاج کرنے والے ہندو طلبہ بھی تھے جو متنازع قانون کے خلاف تھے۔

پولیس نے یونیورسٹی میں زبردستی گھس کر طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا اور پولیس تشدد میں کم سے کم 200 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑ بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر جامعہ ملیہ کی ہندو طالبہ کا ردعمل
متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر کی متعدد ریاستوں اور شہروں میں ہونے والے مظاہروں اور ہنگاموں میں 17 دسمبر تک 6 افراد ہلاک جب کہ 300 کے قریب زخمی ہوچکے تھے جب کہ کئی شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں املاک کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا تھا۔

5dfb51c30fe66.jpg

ڈنڈا بردار پولیس اہلکاروں کو للکارنے والی طالبات کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی—اسکرین شاٹ


متنازع قانون پر مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ کے طلبہ کو پولیس نے چن چن کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ایک ایسی ہی ویڈیو 16 دسمبر کو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی جس میں ڈنڈا بردار پولیس والوں کو ایک طالب علم پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

مذکورہ ویڈیو اس وجہ سے وائرل ہوئی تھی کہ اس ویڈیو میں ساتھی طالب علم پر پولیس کا تشدد دیکھ کر ساتھی طالبات تیش میں آجاتی ہیں اور وہ پولیس والوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور انہیں واپس جانے پر مجبور کرتی ہیں۔

وائرل ہونے والی ویڈیو میں پولیس والوں کے سامنے ’دیوار‘ بن کر کھڑی ہونے والی پانچوں طالبات حجاب میں دکھائی دیتی ہیں اور وہ ’واپس جاؤ، واپس جاؤ‘ کے نعرے لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔

مزید پڑھیں: ’متنازع شہریت قانون‘ پر بولی وڈ شخصیات بول پڑیں
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس والے جب مرد طالب علم کو اندر سے کھینچ کر باہر لاکر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو پانچوں طالبات اپنے ساتھی طالب علم کے اوپر بچھ جاتی ہیں اور انہیں پولیس تشدد سے بچاتی ہیں۔

پانچوں بہادر لڑکیاں پولیس کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں جس کے بعد پولیس مجبور ہوکر چلی جاتی ہے۔

5dfb51c302008.jpg

لڑکیوں کی مزاحمت پر پولیس پیچھے ہٹی—اسکرین شاٹ


اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی طالبات کو 16 دسمبر سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب مذکورہ طالبات دنیا بھر میں ’بھارت کے اندر مزاحمت کی مثال‘ بن گئی ہیں اور خاص طور پر ایک باحجاب لڑکی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔

مذکورہ ویڈیو میں دکھائی دینے والی چار میں سے 3 طالبات کی فوری شناخت ہوگئی، جن کی ہمت کو بہت سراہا جا رہا ہے۔

ویڈیو میں ڈنڈا بردار بھارتی پولیس اہلکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالر کر بات کرنے اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے والی تین بہادر لڑکیوں میں سے سب سے زیادہ بہادر 22 سالہ عائشہ رینا کو قرار دیا جا رہا ہے جو حجاب میں نظر آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوشانت سنگھ کو متنازع شہریت قانون کی مخالفت پر ٹی وی شو سے نکالا گیا؟
22 سالہ عائشہ رینا کا تعلق بھارتی ریاست کیرالا سے ہے اور وہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’تاریخ‘ کی طالبہ ہیں۔

5dfb5273ed5be.jpg

عائشہ رینا کا تعلق ریاست کیرالا سے ہے اور وہ تاریخ کی طالبہ ہیں—فوٹو: سی این این


امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق عائشہ رینا نے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بتایا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک دن میں اتنی مشہور ہو جائیں گی۔

عائشہ رینا کا کہنا تھا کہ بطور مسلمان انہیں بھارتی پولیس اور بھارتی حکومت کے ہتھکنڈوں سے اب ڈر نہیں لگتا، کیوں کہ وہ یہاں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پہلے سے ہی آگاہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد پولیس سے الجھ کر شہرت حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے ساتھی طالب علم 24 سالہ شاہین عبداللہ کو پولیس تشدد سے بچانا تھا۔

5dfb5333ca11e.jpg

عائشہ رینا کا ساتھ دینے والی دوسری لڑکی لدیبا فرزانہ بھی ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: الجزیرہ


عائشہ رینا کے ساتھ حجاب میں نظر آنے والی دوسری لڑکی 22 سالہ لدیبا فرزانہ تھیں جو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’عربی زبان‘ کی طالبہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں شہرت کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ تو بس اپنے بھائی طالب علم کو بچا رہی تھیں۔

لدیبا فرزانہ بھی یونیورسٹی میں ماسٹر کی طالبہ ہیں اور وہ بھی متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔

5dfb53a46247a.jpg

ساتھی طالبات نے طالب علم شاہین عبداللہ کو بچایا تھا، طلبہ بھارتی صحافی برکھا دت کے ہمراہ—فوٹو: برکھا دت ٹوئٹر


عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق پولیس تشدد سے ساتھی طالب علم کو بچانے والی 2 مسلمان طالبات عائشہ رینا اور لدیبا فرزانہ کے ساتھ تیسری طالبہ ہندو تھیں اور اس کا تعلق ریاست اتر پردیش سے تھا۔

رپورٹ کے مطابق پولیس تشدد سے طالب علم کو بچانے والی ہندو طالبہ چندہ یادیو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں گریجوئیشن کی طالبہ ہیں۔

چندہ یادیو نے بھی پولیس تشدد کے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ بطور طالبہ انہیں بھی پولیس تشدد سے خوف نہیں آتا اور ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔

ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔



Facebook Count
Twitter Share
0
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین

جى اللہ کا شکر ہے ،میں بخیر و عافیت ہوں۔ البتہ میں ان تمام واقعات کا چشم دید گواہ بھی ہوں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میری قیام گاہ سے نصف کیلو میٹر پر واقع ہے۔ اس وقت جگہ جگہ کالے قانون کے خلاف پرُامن مظاہرے جاری ہیں ۔ ابھی بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نونہال جامعہ کے احاطہ میں جمع ہوکر احتجاج کر رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی پولیس نے گھس کر طلبائے عزیز پر لاٹھی چارج کی، بے دریغ اور ظالمانہ طریقہ سے پٹائی کی گئی،جس سے کئی طلبہ بری طرح زخمی ہوئے ہیں ،جس میں کئی طلبہ عزیز کے اعضاء بھی ناکارہ ہوگئے ہیں ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یوپی سرکار نے کہا تھا کہ احتجاج میں نقصان ہونے والی سرکاری املاک کی تلافی مظاہرین سے ہوگئی، اس وجہ سے یوپی میں جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن چل رہا ہے،مسلمانوں کی دوکانوں کو سیل کرکے تلافی کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ ورنہ دیگر جائیداد قرق کئے جانے کا بھی انتباہ دیا گیا ہے ۔ کئی مقامات پر بالخصوص یوپی کے مختلف اضلاع ،لکھنؤ ،مئو ،اعظم گڑھ، بجنور، بنارس،سنبھل ، مظفر نگر ،میرٹھ وغیرہ میں مظاہرین کی شہادت ہوئی ہیں، جن کی شہادت میں پولیس کے کردار پر انگلی اٹھ رہی ہے جب کہ پولیس اس سے انکار کررہی ہے ۔
بہا رمیں بھی اس قانون کے خلاف پرسوں پرُامن مظاہرہ تھا،جسے بی جے پی کارکنان نے پرُتشدد بنادیا ۔ پولیس نے مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم امارت شرعیہ پھلواری شریف کے احاطہ میں گھس کر لاٹھی چارج کیا ،جس سے ایک نوجوان کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ آپ تمام محفلین سے مخلصانہ دعا کی درخواست ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم نے جو کل دوقومی نظریہ کی مخالفت کی تھی ، اور لنگوٹی بردار پر اعتماد کیا تھا، وہ غلط تھا۔
 

فاخر

محفلین
اس کے علاوہ تمام تفصیلات جو آپ کو سوشل میڈیا کے ذریعہ مل رہی ہوں گی وہ تمام درست ہیں ۔ اس سے میں کوئی چیز قابلِ تردید نہیں ہے۔ جن لڑکیوں کی تصاویر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہیں وہ لڑکیاں ریاست کیرالہ سے تعلق رکھتی ہیں، یہ دونوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ تھیں ۔ابھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے وہ یہ دونوں لڑکیاں اپنے وطن میں ہیں۔
 

فاخر

محفلین
ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم نے جو کل دوقومی نظریہ کی مخالفت کی تھی ، اور لنگوٹی بردار پر اعتماد کیا تھا، وہ غلط تھا۔
لیکن اب کیا کرسکتےہیں ، ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔سربلندی کا یا پھر شہادت کا ،سو اس لیے ہم دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کررہے ہیں ۔ یقیناً ظالم قوی ہے ؛لیکن اس سے بھی زیادہ قوی اللہ کی ذات ہے،ظالم صرف اسی دنیا میں جو چاہے کرسکتا ہے’انما تقضی ھذہ الحیوۃ الدینا‘‘۔ لیکن ہم خدا کی ذات پر توکل و یقین کرتے ہیں، حسبنا اللہ ونعم الوکیل نعم المولیٰ و نعم النصیر ‘۔ ہم پر یہ مصیبت آئی ہے،لیکن اس سے زیادہ بڑی مصیبت سرورکائنات ﷺ پرآئی تھی جس کانقشہ قرآن نے بھی کھینچا ہے۔غزوہ حنین و احد ہمیں یاد ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ آپ سب پہ اپنا لطف و کرم فرمائے۔ رحم کرے۔ آپ سب کی حفاظت فرمائے، اوپر سے، نیچے سے، دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے، ہر طرف سے اور ہر طرح سے حفاظت فرمائے۔ آپ کے حق میں بہترین فیصلے فرمائے۔ ظلم کو شکست فاش دے۔ آمین!
 

فاخر

محفلین
اللہ آپ سب پہ اپنا لطف و کرم فرمائے۔ رحم کرے۔ آپ سب کی حفاظت فرمائے، اوپر سے، نیچے سے، دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے، ہر طرف سے اور ہر طرح سے حفاظت فرمائے۔ آپ کے حق میں بہترین فیصلے فرمائے۔ ظلم کو شکست فاش دے۔ آمین!
آمین ثم آمین ۔
 

فاخر

محفلین
جامعہ ملیہ اسلامیہ پر شب خون مارے جانے کی آنکھوں دیکھی کہانی:



موت سے واپسی! - QindeelOnline

موت سے واپسی!

محمد علم اللہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں پولس کے داخلہ اورطلبہ پر جبرنیز اسٹاف کی بدسلوکی کی معمولی سی خبر بعض میڈیانے دی ہے،لیکن اندر کیا کچھ ہوا،اور تشدد و مظالم کی انتہا کس حد تک کی گئی،اس کا اندازہ باہر کے لوگ نہیں لگاسکتے۔چونکہ میں اس پورے واقعہ کا چشم دیدگواہ ہوں،لہٰذا’بیان گواہی‘کی ایک غیر رسمی صحافتی ذمے داری نبھانے کی کوشش کررہاہوں تاکہ عام لوگوں کو علم ہوسکے کہ جامعہ کے اندر پولس نے کس طرح بربریت کی اور 15دسمبر کے احتجاج سے جامعہ برادری کا جو خواہ مخواہ رشتہ جوڑ نے کی سعی کی جارہی ہے،اس بابت حقیقی صورتحال کو سمجھنا ممکن ہو۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ طلبہ کا احتجاج دو پہر میں ہی ختم ہو گیا تھا ، ہم سب لائبریری میں اپنی اپنی پڑھائیوں میں مصروف تھے ، تبھی اچانک چیخنے چلانے اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں ، باہر نکلے تو پتہ چلا کہ دہلی پولس نے کیمپس میں آنسو گیس کے گولے داغ دیے ہیں ۔
پولیس نے اپنی حیوانیت ودرندگی کاایک نمونہ یوں بھی پیش کیاکہ جامعہ کے اندرگھستے ہی لائٹس آف کردیں اور اندھیرے میں نہ صرف انھوں نے بے ہنگم گالیاں بکیں؛ بلکہ کئی طلبا کوزدوکوب بھی کیا اوربہت سی طالبات کے ساتھ بھی زیادتی کی ۔
پورے کیمپس میں جیسے بھگدڑ مچ گئی تھی۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ کچھ طلباءنے مسجدوں میں پناہ لیا ہوا تھا۔ کچھ لائبریری میں آ گئے تھے۔ طلباءکے پاس اس سے بچاؤ کےلئے سوائے نمک اور پانی کے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ نمک بھی طلباءنے کینٹین سے حاصل کیا تھا۔ جب حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تو تقریبا دو سو کی گنجائش والی لائبریری میں ہزاروں طلباءجمع ہو گئے۔ لائبریری پوری طرح ٹھسا ٹھس بھری ہوئی تھی، تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی، سانس لینا بھی دشوار تھا۔ہم نے دروازے بند کرلیے تھے،لائٹیں گل کردی تھیں۔ میز اور دراز کوکھڑکیوں پر لگا دیا تھا۔ ساری درازیں اور الماریاں دروازے سے ٹکا دی تھیں۔
انتہائی قیامت خیز منظر تھا۔ ہر طرف سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ طالبات کی چیخ آسمان چیر رہی تھیں۔ کسی کا پاﺅں ٹوٹ چکا تھا تو کسی کا ہاتھ ،کئی جگہوں پر خون کے قطرے نظر آرہے تھے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔
کچھ طلباء ریڈنگ روم سے باہر مگر لائبریری کے اندر برآمدے میں بہت پریشان تھے۔ لائبریری میں آنسو گیس کے گولے پھینک دئے جانے کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار تھا۔ ہم کئی لڑکیوں کو انتہائی پریشان حال میں دیکھ رہے تھے۔ سبھی ایک دوسرے کےلئے دعاؤں کے طالب تھے۔
ہم سب موت کو بہت قریب دیکھ رہے تھے۔ تبھی دھڑام دھڑام کی آوازیں آنے لگیں۔ کوئی بہت زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا ، لڑکیاں چیخنے لگیں۔ ابھی تھوڑی دیر بھی نہیں گذری تھی کہ ہم نے دھڑام کی آواز کے ساتھ دیکھا کہ سی آر پی ایف نے دروازہ توڑ دیا ہے ۔ لیپ ٹاپ اور کتابیں بکھر گئی تھیں۔پانی اور خون کے قطرے پاؤں سے مسل کر ایک خوفناک منظر پیش کر رہے تھے۔
اندر داخل ہوتے ہی سی آر پی ایف نے آنکھوں کو چوندھیا دینے والی لائٹیں ہمارے آنکھوں پر ڈالیں اور
ڈنڈا برسانا شروع کر دیا۔کچھ لڑکے اور لڑکیاں میزوں کے نیچے چھپ گئے۔ تبھی ان لوگوں نے انتہائی بد تمیزی کے ساتھ ہم سے کہا کہ ہم اپنے ہاتھ اوپر اٹھائیں اور اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جائیں ۔
سنگینوں کے سایے میں ان لوگوں نے ہمارے ہاتھ اوپر اٹھوا کر ہمیں لائبریری سے باہر نکال دیا۔رات ہو چکی تھی اور باہر ہر طرف سی آر پی ایف پولیس کا بسیر اتھا۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا چلتے رہنا رکنا نہیں ، جس وقت ہم باہر نکل رہے تھے سی آر پی ایف اور پولیس کے جوان ہمیں ماں بہن کی گالیاں بک رہے تھے وہ لڑکیوں کو بھی غلیظ گالیاں دے رہے تھے۔
وہ ڈنڈے پٹخ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہی لوگ ہیں جو پتھر بازی کرتے ہیں حالانکہ پتھر بازی خود پولس والوں نے کی تھی۔جامعہ کے طلبا کا اس میں کوئی رول نہیں تھا۔ ہم ان کے چہروں پر عیاں ہمارے تئیں نفرت اور بربریت کو صاف دیکھ اور محسوس کر سکتے تھے۔
انھوں نے جو لینا لے جا کر ہمیں بیچ راستے میں چھوڑ دیا ، ہر جگہ کرفیو کی سی کیفیت تھی۔ پولس والے اپنی من مانی کر رہے تھے۔وہ اینٹ توڑ توڑ کر سڑک میں بکھیر رہے تھے تاکہ وہ میڈیا والوں کو کہہ سکیں کہ یہ طلبا نے پتھراؤ کیا ہے۔
ہم اب بھی فائرنگ کی آوازیں سن سکتے تھے۔ باہر نکلے تو میٹڑو بند کر دیا گیا تھا۔ آخر ہم جائیں تو کہاں جائیں ، جیسے تیسے کرکے وہاں سے پیدل چلتے ہوئے حاجی کالونی پہنچے ۔ ہمارے ساتھ کئی طالبات بھی تھیں ۔ انھیں ان کے گھروں تک پہنچانا ایک الگ مسئلہ تھا۔ کسی طرح انھیں ان کے گھروں تک پہنچایا۔
ہم رات کے تقریبا بارہ بجے گھر پہنچے تو جو حالت تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ پولس نے مسجد میں بھی حملہ بول دیا تھا ، وہاں عبادت میں مصروف طلباءو طالبات کو زد و کوب کیا تھا۔ مسجدوں کی کھڑکیاں توڑ دی گئی تھیں۔پوری مسجد کشت و خون کا منظر پیش کر رہی تھی۔
مسجد کی جو ویڈیوز وائرل ہوئی ،وہ دل کو دہلا دینے والی تھیں۔ پولس نے عوام کا سارا غصہ جامعہ کے طلباءپر اتارا۔ شام ہوتے ہوتے جامعہ کا منظر تبدیل تھا، قیامت صغریٰ بپا تھی۔
جامعہ میں کم از کم سو سے زائد آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے، کئی راﺅنڈ فائرنگ کی گئی ، گیٹوں پر موجود گارڈز اور فوجیوں کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئے۔
جامعہ ملیہ کی مسجدکی حرمت پامال کی گئی۔ مسجد کے داخلی دروازے کا کانچ اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، اوقات صلوٰة بھی توڑ پھوڑ کی کہانی بتارہا تھا اور مصلیٰ بھی تتر بتر تھا اور اس پر خون کے دھبے واضح تھے۔
الغرض پولیس نے جامعہ کے طلباکے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کیا اورہم پر چندگھنٹے ایسے گزرے کہ ایسالگ رہاتھا گویاہمارارشتہ زندگی سے کسی بھی وقت ٹوٹ سکتاہے۔ ایک عجیب عالمِ خوف وہراس تھا اورپولیس اپنی تمام تردرندگی کے ساتھ نہتھے طلباپرحملہ آورتھی ۔ یہ عرصہ ہم نے جس کربناک کیفیت میں گزارا، شایداسے ہم زندگی بھرنہ بھول سکیں ۔ ہم توکسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے، مگرخوف ودہشت کاطوفان چھٹنے کے بعدمعلوم ہواکہ ہمارے درجنوں ساتھی غائب ہیں، پولیس انھیں اٹھاکرلے گئی ہے، مگران کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتارہی ہے۔ خداان کاحامی وناصرہواوران کی بازیابی کاسامان پیدافرمائے۔ آمين ثم آمين ۔
 

عدنان عمر

محفلین
اللہ تعالیٰ مسلمانانِ ہند کو اس آزمائش میں سرخرو کرے۔ ان پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے۔ اللہ پاک ہمیں بھی کوئی ایسا راستہ دکھائے کہ ہم آپ کی مدد کر سکیں، آمین۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لیکن اب کیا کرسکتےہیں ، ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔سربلندی کا یا پھر شہادت کا ،سو اس لیے ہم دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کررہے ہیں ۔ یقیناً ظالم قوی ہے ؛لیکن اس سے بھی زیادہ قوی اللہ کی ذات ہے،ظالم صرف اسی دنیا میں جو چاہے کرسکتا ہے’انما تقضی ھذہ الحیوۃ الدینا‘‘۔ لیکن ہم خدا کی ذات پر توکل و یقین کرتے ہیں، حسبنا اللہ ونعم الوکیل نعم المولیٰ و نعم النصیر ‘۔ ہم پر یہ مصیبت آئی ہے،لیکن اس سے زیادہ بڑی مصیبت سرورکائنات ﷺ پرآئی تھی جس کانقشہ قرآن نے بھی کھینچا ہے۔غزوہ حنین و احد ہمیں یاد ہیں۔

جب بھی سپاہیوں سے پیمبر کا پوچھیے
خندق کا ذکر کیجیے خیبر کا پوچھیے
بدر و احد کے قائدِ لشکر کا پوچھیے
یا غزوہ تبوک کے سرور کا پوچھیے
ہم کو حنین و مکہ و موتہ بھی یاد ہیں
ہم امتی بانی رسم جہاد ہیں

رسم جہاد حق کی اقامت کے واسطے
کمزور و ناتواں کی حمایت کے واسطے
انصاف ، امن اور عدالت کے واسطے
خیر الممات مرگِ شہادت کے واسطے
لڑتے ہیں جس کے شوق میں ہم جھوم جھوم کر
پیتے ہیں جامِ مرگ کو بھی چوم چوم کر

لاکھوں درود ایسے پیمبر کے نام پر
جو حرف لاتخف سے بناتا ہوا نڈر
ہم کو یقین ہے کبھی مرتے نہیں ہیں ہم
اور اس لیے کسی سے بھی ڈرتے نہیں‌ہیں ہم

توپ و تفنگ و دشنہ و خنجر صلیب و دار
ڈرتے نہیں‌کسی سے محمد کے جانثار
ماں ہے ہماری ام عمارہ سی ذی وقار
ہم ہیں ابو دجانہ و طلحہ کی یادگار
جب بھی سپاہیوں سے پیمبر کا پوچھیے
خندق کا ذکر کیجیے خیبر کو پوچھیے

از ونگ کمانڈر رحمن کیانی
 

فاخر

محفلین
اللہ تعالیٰ مسلمانانِ ہند کو اس آزمائش میں سرخرو کرے۔ ان پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے۔ اللہ پاک ہمیں بھی کوئی ایسا راستہ دکھائے کہ ہم آپ کی مدد کر سکیں، آمین۔
الله جزائے خیر عطا فرمائے ۔ بس آپ دعا کیجئے ، جو کچھ کرے گا وہ اللہ کی ذات ہے۔
میں تقریباً کئی دنوں سے اس وجہ سے بھی اس محفل میں حاضری نہیں دے پا رہا تھا کہ حکومت کی نظر انٹر نیت استعمال کرنے والوں پر سخت اور گہری ہوگئی تھی ۔ اس وقت بھی گہری ہے ؛لیکن اب جب کہ یہ واقعہ بین الاقوامی ہوچکا ہے تو اس لیے اب کوئی خوف نہیں ہے ۔
 

فاخر

محفلین
ڈنڈا بردار بھارتی اہلکاروں کو پیچھے ہٹانے والی یہ باحجاب لڑکی کون ہے؟
ویب ڈیسک19 دسمبر 2019
Facebook Count
Twitter Share
0

0
Translate
5dfb50da94423.jpg

عائشہ رینا جامعہ ملیہ میں ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: ممبئی مرر/ سی این این
بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاس کیے گئے


’متنازع شہریت ترمیمی بل‘ پر اگرچہ احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم دنیا بھر کے لوگ اب بھی 16 دسمبر کو دارالحکومت نئی دہلی کی معروف جامعہ ملیہ یونیورسٹی (جے ایم یو) کی طالبات کی جانب سے پولیس کے ساتھ ہونے والی کشیدگی کو نہیں بھولے۔

بھارتی پولیس نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں 15 دسمبر کی شب بغیر اجازت گھس گئی تھی اور ’متنازع شہریت قانون‘ پر احتجاج کرنے والے طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا۔

متنازع شہریت بل پر احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ کے زیادہ تر طلبہ اگرچہ مسلمان تھے تاہم ان کے ساتھ احتجاج کرنے والے ہندو طلبہ بھی تھے جو متنازع قانون کے خلاف تھے۔

پولیس نے یونیورسٹی میں زبردستی گھس کر طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا اور پولیس تشدد میں کم سے کم 200 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑ بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر جامعہ ملیہ کی ہندو طالبہ کا ردعمل
متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر کی متعدد ریاستوں اور شہروں میں ہونے والے مظاہروں اور ہنگاموں میں 17 دسمبر تک 6 افراد ہلاک جب کہ 300 کے قریب زخمی ہوچکے تھے جب کہ کئی شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں املاک کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا تھا۔

5dfb51c30fe66.jpg

ڈنڈا بردار پولیس اہلکاروں کو للکارنے والی طالبات کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی—اسکرین شاٹ


متنازع قانون پر مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ کے طلبہ کو پولیس نے چن چن کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ایک ایسی ہی ویڈیو 16 دسمبر کو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی جس میں ڈنڈا بردار پولیس والوں کو ایک طالب علم پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

مذکورہ ویڈیو اس وجہ سے وائرل ہوئی تھی کہ اس ویڈیو میں ساتھی طالب علم پر پولیس کا تشدد دیکھ کر ساتھی طالبات تیش میں آجاتی ہیں اور وہ پولیس والوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور انہیں واپس جانے پر مجبور کرتی ہیں۔

وائرل ہونے والی ویڈیو میں پولیس والوں کے سامنے ’دیوار‘ بن کر کھڑی ہونے والی پانچوں طالبات حجاب میں دکھائی دیتی ہیں اور وہ ’واپس جاؤ، واپس جاؤ‘ کے نعرے لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔

مزید پڑھیں: ’متنازع شہریت قانون‘ پر بولی وڈ شخصیات بول پڑیں
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس والے جب مرد طالب علم کو اندر سے کھینچ کر باہر لاکر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو پانچوں طالبات اپنے ساتھی طالب علم کے اوپر بچھ جاتی ہیں اور انہیں پولیس تشدد سے بچاتی ہیں۔

پانچوں بہادر لڑکیاں پولیس کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں جس کے بعد پولیس مجبور ہوکر چلی جاتی ہے۔

5dfb51c302008.jpg

لڑکیوں کی مزاحمت پر پولیس پیچھے ہٹی—اسکرین شاٹ


اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی طالبات کو 16 دسمبر سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب مذکورہ طالبات دنیا بھر میں ’بھارت کے اندر مزاحمت کی مثال‘ بن گئی ہیں اور خاص طور پر ایک باحجاب لڑکی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔

مذکورہ ویڈیو میں دکھائی دینے والی چار میں سے 3 طالبات کی فوری شناخت ہوگئی، جن کی ہمت کو بہت سراہا جا رہا ہے۔

ویڈیو میں ڈنڈا بردار بھارتی پولیس اہلکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالر کر بات کرنے اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے والی تین بہادر لڑکیوں میں سے سب سے زیادہ بہادر 22 سالہ عائشہ رینا کو قرار دیا جا رہا ہے جو حجاب میں نظر آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوشانت سنگھ کو متنازع شہریت قانون کی مخالفت پر ٹی وی شو سے نکالا گیا؟
22 سالہ عائشہ رینا کا تعلق بھارتی ریاست کیرالا سے ہے اور وہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’تاریخ‘ کی طالبہ ہیں۔

5dfb5273ed5be.jpg

عائشہ رینا کا تعلق ریاست کیرالا سے ہے اور وہ تاریخ کی طالبہ ہیں—فوٹو: سی این این


امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق عائشہ رینا نے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بتایا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک دن میں اتنی مشہور ہو جائیں گی۔

عائشہ رینا کا کہنا تھا کہ بطور مسلمان انہیں بھارتی پولیس اور بھارتی حکومت کے ہتھکنڈوں سے اب ڈر نہیں لگتا، کیوں کہ وہ یہاں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پہلے سے ہی آگاہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد پولیس سے الجھ کر شہرت حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے ساتھی طالب علم 24 سالہ شاہین عبداللہ کو پولیس تشدد سے بچانا تھا۔

5dfb5333ca11e.jpg

عائشہ رینا کا ساتھ دینے والی دوسری لڑکی لدیبا فرزانہ بھی ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: الجزیرہ


عائشہ رینا کے ساتھ حجاب میں نظر آنے والی دوسری لڑکی 22 سالہ لدیبا فرزانہ تھیں جو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’عربی زبان‘ کی طالبہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں شہرت کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ تو بس اپنے بھائی طالب علم کو بچا رہی تھیں۔

لدیبا فرزانہ بھی یونیورسٹی میں ماسٹر کی طالبہ ہیں اور وہ بھی متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔

5dfb53a46247a.jpg

ساتھی طالبات نے طالب علم شاہین عبداللہ کو بچایا تھا، طلبہ بھارتی صحافی برکھا دت کے ہمراہ—فوٹو: برکھا دت ٹوئٹر


عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق پولیس تشدد سے ساتھی طالب علم کو بچانے والی 2 مسلمان طالبات عائشہ رینا اور لدیبا فرزانہ کے ساتھ تیسری طالبہ ہندو تھیں اور اس کا تعلق ریاست اتر پردیش سے تھا۔

رپورٹ کے مطابق پولیس تشدد سے طالب علم کو بچانے والی ہندو طالبہ چندہ یادیو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں گریجوئیشن کی طالبہ ہیں۔

چندہ یادیو نے بھی پولیس تشدد کے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ بطور طالبہ انہیں بھی پولیس تشدد سے خوف نہیں آتا اور ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔

ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔



Facebook Count
Twitter Share
0



الحمد للہ ان بیٹیوں اور بہنوں نے وہ راستہ دکھادیا جس کی توقع ہمیں برسوں سے تھی ، میں نے بابری مسجد کے’فیصلہ‘ کے وقت بھی ایک غزل لکھی تھی اس غزل میں میں اپنے جذبات میں آکر کہا تھا:’ میری بے تابیاں منتظر ہیں سدا --ہو انہیں اذن رقص شرر کے لیے‘‘ لیکن قوم کی طرف سے کسی طرح کا کوئی ردِ عمل نہیں آیا ۔ اب جب کہ سی اے اے یعنی یہ متنازعہ سیاہ قانون پاس ہوگیا ہےاور قوم کی طرف سے زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے ہیں تو میری یہ خواہش پوری ہوگئی۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ بہنیں وہ کام کردیں گی جس کی توقع قوم کے رہبروں نے شاید کی ہوگی۔
آج اس وقت پوری قوم کی صورتحال یہ ہے کہ آج نہ کوئی سنی ہے نہ کوئی شیعہ ہے ،نہ کوئی دیوبندی نہ کوئی بریلوی نہ کوئی وہابی نہ کوئی رضاخانی ۔ سبھی ایک دھاگے میں مل کر ایک مضبوط رسی بن چکے ہیں ۔ پوری قوم ’انما المؤمنون اخوۃ‘ کی عملی تفسیر بن چکی ہے۔
15 دسمبر سے قبل 13 یا 14 کی شب معمولی مظاہرہ ہوا تھا جس میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اس وقت ایک ہماری بہنوں نے قوم کے گدی نشینوں ، سجادہ نشینوں ، اہل دستار و جبہ کو یہ کہہ کر للکارا اور اس احتجاج کی قیادت کرنے کے لیے متوجہ کیا تھا وہ نعرہ یہ تھا:’ تیرا میرا رشتہ کیا لاالٰہ الا اللہ‘‘ واقعی سچ بتاؤں یہ سن کر میں گھنٹوں روتا رہا،میر ی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ لیکن کوئی بھی نام نہاد اہل دستار و جبہ جس کی شہرت ہندوستان بھر میں ہے آکر تسلی و شفقت کا ہاتھ ان بچیوں کےسر پر رکھا ہو۔ بعض نےتو یہ بھی کہہ دیا کہ ہم احتجاج پر یقین نہیں کرتے ہیں ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
آج میں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہوں کہ:’ اپنی ان جاں باز بہنوں کے قدموں میں اپنی دستار و کلاہ نذر کردیا۔ ان بہنوں نے وہ راستہ دکھادیا جسے قوم ستر سال سے تلاش رہی تھی۔ اس موقعہ پر میں نے ایک ٹوٹا پھوٹا کلام بھی لکھا ہے جسے اصلاح سخن کے زمرے میں پوسٹ کر رہا ہوں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم نے جو کل دوقومی نظریہ کی مخالفت کی تھی ، اور لنگوٹی بردار پر اعتماد کیا تھا، وہ غلط تھا۔
اگر 1947 میں ہندوستان کا بٹوارا نہ ہوتا تب بھی آج برصغیر کے مسلمان مل کر بھی مودی کی ہندو اکثریت کا مقابلہ نہ کرپاتے۔
EL4-Rz-JIXs-AMWa-TF.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
میں تقریباً کئی دنوں سے اس وجہ سے بھی اس محفل میں حاضری نہیں دے پا رہا تھا کہ حکومت کی نظر انٹر نیت استعمال کرنے والوں پر سخت اور گہری ہوگئی تھی ۔ اس وقت بھی گہری ہے ؛لیکن اب جب کہ یہ واقعہ بین الاقوامی ہوچکا ہے تو اس لیے اب کوئی خوف نہیں ہے ۔
مودی حکومت اسی سال فروری میں چینی شکل کا انٹرنیٹ بھارت میں نافذ کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی
India Proposes Chinese-Style Internet Censorship
 
Top